واشنگٹن —
امریکہ اور اس کے اتحادی ممالک نے رواں سال جون میں روس کے شہر سوچی میں ہونے والے 'جی-8' سربراہی اجلاس میں شریک نہ ہونے اور سوچی کے بجائے برسلز میں اپنا علیحدہ اجلاس منعقد کرنے کا اعلان کیا ہے۔
پیر کو نیدرلینڈز کے شہر دی ہیگ میں ہونے والے دنیا کے سات ترقی یافتہ اور دولت مند ملکوں کی نمائندہ تنظیم 'جی-7' کے سربراہ اجلاس کے شرکا نے اپنے وزرائے خارجہ کو اپریل میں ماسکو میں ہونے والے مشاورتی اجلاس میں شرکت سے بھی روک دیا ہے۔
تنظیم کے رکن ممالک نے روس سے درآمد کیے جانے والے تیل اور گیس پر انحصار کم کرنے کے لیے اپنے وزرائے توانائی کو مل کر کام کرنے کی بھی ہدایت کی ہے۔
اجلاس کے بعد جاری ہونے والے ایک مشترکہ اعلامیہ کے مطابق 'جی-7' ممالک نے یہ فیصلہ روس کی جانب سے حالیہ ہفتوں میں اٹھائے جانے والے اقدامات کے ردِ عمل میں کیا ہے جو، اعلامیے کے مطابق، "اتحاد کے نظریات اور ذمہ داریوں سے متصادم ہیں"۔
تاہم روس کے وزیرِ خارجہ سرجئی لاوروف نے 'جی-7' کے فیصلوں کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر مغربی ممالک 'جی-8' اجلاس میں شرکت نہیں کرنا چاہتے تو روس کے لیے یہ کوئی بڑا مسئلہ نہیں۔
دی ہیگ میں ہونے والے 'جی-7' کے ہنگامی اجلاس میں روس کی جانب سے یوکرین میں فوجی مداخلت اور کرائمیا کے الحاق سے پیدا ہونے والی صورت ِ حال پر غور کیا گیا۔
اجلاس میں امریکہ سمیت 'جی-7' کے رکن ممالک برطانیہ، کینیڈا، فرانس، جرمنی، اٹلی اور جاپان کے صدور اور وزرائے اعظم شریک ہوئے جب کہ اجلاس میں یورپین کونسل اور یورپین کمیشن کے صدور نے بھی شرکت کی۔
اجلاس کے بعد جاری ہونے والے مشترکہ اعلامیہ میں کہاگیا ہے کہ 'جی-7' ممالک یوکرین کی آزادی، خودمختاری اور سالمیت کے تحفظ کے لیے اپنی حمایت کا اعادہ کرتے ہیں اور "کرائمیا میں ہونے والے غیر قانونی ریفرنڈم اور روس کی جانب سے کرائمیا کو اپنے ساتھ ملحق کرنے کے غیر قانونی اقدام کی مذمت کرتے ہیں"۔
اعلامیے میں خبردار کیا گیا ہے کہ روس کے ان قدامات کے سنگین نتائج برآمد ہوں گےاور ان کے نتیجے میں دنیا بھر میں قانون کی بالادستی خطرے سے دوچار ہوگئی ہے جس پر تمام ملکوں کو تشویش ہے۔
اعلامیے میں 'جی-7' ممالک نے روس کو خبردار کیا ہے کہ اگر اس نے خطے میں جاری کشیدگی میں اضافہ جاری رکھا تو اس پر عائد پابندیاں مزید سخت کی جائیں گی جس کا روسی معیشت پر خاطر خواہ اثر پڑے گا۔
خیال رہے کہ صدر اوباما سمیت 'جی-7' ممالک کے سربراہان 'نیوکلیئر سکیورٹی سمٹ' میں شرکت کے لیے نیدرلینڈز میں موجود ہیں جس میں دنیا میں جوہری ہتھیاروں اور تنصیبات کی سکیورٹی اور عدم پھیلاؤ سے متعلق امور پر گفتگوہوگی۔
امکان ہے کہ یوکرین کا بحران نیدرلینڈز کے شہر ہیگ میں ہونے والےاس دو روزہ سربراہ اجلاس پر چھایا رہے گا جس میں 50 سے زائد ممالک کےسربراہان اور وفود شریک ہیں۔
'جی-7'سربراہ اجلاس سے قبل دی ہیگ میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے صدر براک اوباما نے کہا تھا کہ امریکہ اور یورپ روس سے یوکرین میں مداخلت کا خراج وصول کرنے کے معاملے پر متحد ہیں اور روس کو اس مداخلت کی قیمت چکانا ہوگی۔
'وہائٹ ہاؤس' پہلے ہی خبردار کرچکا ہے کہ اگر روس نے یوکرین میں مزید مداخلت کی کوئی کوشش کی تھی تو اس پر عائد پابندیوں میں اضافہ کردیا جائے گا۔
پیر کو نیدرلینڈز کے شہر دی ہیگ میں ہونے والے دنیا کے سات ترقی یافتہ اور دولت مند ملکوں کی نمائندہ تنظیم 'جی-7' کے سربراہ اجلاس کے شرکا نے اپنے وزرائے خارجہ کو اپریل میں ماسکو میں ہونے والے مشاورتی اجلاس میں شرکت سے بھی روک دیا ہے۔
تنظیم کے رکن ممالک نے روس سے درآمد کیے جانے والے تیل اور گیس پر انحصار کم کرنے کے لیے اپنے وزرائے توانائی کو مل کر کام کرنے کی بھی ہدایت کی ہے۔
اجلاس کے بعد جاری ہونے والے ایک مشترکہ اعلامیہ کے مطابق 'جی-7' ممالک نے یہ فیصلہ روس کی جانب سے حالیہ ہفتوں میں اٹھائے جانے والے اقدامات کے ردِ عمل میں کیا ہے جو، اعلامیے کے مطابق، "اتحاد کے نظریات اور ذمہ داریوں سے متصادم ہیں"۔
تاہم روس کے وزیرِ خارجہ سرجئی لاوروف نے 'جی-7' کے فیصلوں کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر مغربی ممالک 'جی-8' اجلاس میں شرکت نہیں کرنا چاہتے تو روس کے لیے یہ کوئی بڑا مسئلہ نہیں۔
دی ہیگ میں ہونے والے 'جی-7' کے ہنگامی اجلاس میں روس کی جانب سے یوکرین میں فوجی مداخلت اور کرائمیا کے الحاق سے پیدا ہونے والی صورت ِ حال پر غور کیا گیا۔
اجلاس میں امریکہ سمیت 'جی-7' کے رکن ممالک برطانیہ، کینیڈا، فرانس، جرمنی، اٹلی اور جاپان کے صدور اور وزرائے اعظم شریک ہوئے جب کہ اجلاس میں یورپین کونسل اور یورپین کمیشن کے صدور نے بھی شرکت کی۔
اجلاس کے بعد جاری ہونے والے مشترکہ اعلامیہ میں کہاگیا ہے کہ 'جی-7' ممالک یوکرین کی آزادی، خودمختاری اور سالمیت کے تحفظ کے لیے اپنی حمایت کا اعادہ کرتے ہیں اور "کرائمیا میں ہونے والے غیر قانونی ریفرنڈم اور روس کی جانب سے کرائمیا کو اپنے ساتھ ملحق کرنے کے غیر قانونی اقدام کی مذمت کرتے ہیں"۔
اعلامیے میں خبردار کیا گیا ہے کہ روس کے ان قدامات کے سنگین نتائج برآمد ہوں گےاور ان کے نتیجے میں دنیا بھر میں قانون کی بالادستی خطرے سے دوچار ہوگئی ہے جس پر تمام ملکوں کو تشویش ہے۔
اعلامیے میں 'جی-7' ممالک نے روس کو خبردار کیا ہے کہ اگر اس نے خطے میں جاری کشیدگی میں اضافہ جاری رکھا تو اس پر عائد پابندیاں مزید سخت کی جائیں گی جس کا روسی معیشت پر خاطر خواہ اثر پڑے گا۔
خیال رہے کہ صدر اوباما سمیت 'جی-7' ممالک کے سربراہان 'نیوکلیئر سکیورٹی سمٹ' میں شرکت کے لیے نیدرلینڈز میں موجود ہیں جس میں دنیا میں جوہری ہتھیاروں اور تنصیبات کی سکیورٹی اور عدم پھیلاؤ سے متعلق امور پر گفتگوہوگی۔
امکان ہے کہ یوکرین کا بحران نیدرلینڈز کے شہر ہیگ میں ہونے والےاس دو روزہ سربراہ اجلاس پر چھایا رہے گا جس میں 50 سے زائد ممالک کےسربراہان اور وفود شریک ہیں۔
'جی-7'سربراہ اجلاس سے قبل دی ہیگ میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے صدر براک اوباما نے کہا تھا کہ امریکہ اور یورپ روس سے یوکرین میں مداخلت کا خراج وصول کرنے کے معاملے پر متحد ہیں اور روس کو اس مداخلت کی قیمت چکانا ہوگی۔
'وہائٹ ہاؤس' پہلے ہی خبردار کرچکا ہے کہ اگر روس نے یوکرین میں مزید مداخلت کی کوئی کوشش کی تھی تو اس پر عائد پابندیوں میں اضافہ کردیا جائے گا۔