رسائی کے لنکس

فوڈ بلاگر حمدا کی جانب سے غزہ کے بھوکے بچوں کیلئے" امید کی پلیٹ"


خان یونس میں بے گھر افراد کے ایک کیمپ میں فلسطینی بچے خوراک کے منتظر۔فائل فوٹو
خان یونس میں بے گھر افراد کے ایک کیمپ میں فلسطینی بچے خوراک کے منتظر۔فائل فوٹو

یہ کہانی ہے غزہ کے ایک فوڈ بلاگر کی جو جنگ سے قبل غزہ کے کھانے پینے کے مقامات کی ویڈیوز بنا کر یو ٹیوب پر پوسٹ کرتے تھے۔

لیکن جنگ نے جہاں ان کے گھر بار اسٹوڈیو ، فوٹو گرافی کے آلا ت او ر فرنیچر کو تباہ کر دیا وہاں غزہ کے ریستورانوں ، ہوٹلوں اور کھانے پینے کے ان مقامات کو بھی تباہ کر دیا جو ان کی وی بلاگز کا موضوع ہوا کرتےتھے اور جن کی بحالی کے ابھی دور دور تک آثار نظر نہیں آرہے۔

لیکن غزہ کے فوڈ بلاگر، حمدا شکورا نےجنگ سے تباہ حال غزہ کے ملبے میں بھی فوڈ اور بلاگز کو اپنی زندگی میں ایک بار پھر شامل کر لیا ہے ۔ وہ ڈبوں میں بند گوشت اور سبزیوں کے امدادی راشن سے خان یونس کی اپنی خیمہ بستی کے بھوکے بچوں کو غزہ اسٹائل کھانے بنا کر پیش کر رہے ہیں اور اپنے نئے بلاگ ’حمدا شو ‘میں پوسٹ کر رہے ہیں.

ان کے بلاگز نے انسٹا گرام پر تقریباً پانچ لاکھ فالوورز کے ساتھ ساتھ اپنے مداحوں سے عطیات بھی حاصل کیے ہیں۔ لیکن یہ سب کیسے اور کیونکر ہوا؟

غزہ کے بچے۔
غزہ کے بچے۔

فوڈ بلاگر سے جنگی شیف بننے کا سفر

32 سالہ حمدا شکورا جنگ سے قبل غزہ کے مقبول ترین برگر ز ، پیزا اور نوڈلز کے مراکز کو اپنے یو ٹیوب بلاگ میں دکھاتے تھے ۔ لیکن غزہ جنگ کے بعد سے ان کا خاندان تین بار نقل مکانی پر مجبور ہو چکاہے ۔ اور ا ب ان کا گزر اوقات جنگی راشن کے امدادی سامان سے ملے ہوئے فوڈ پیکیجزیا پھر قریبی مقامات سے میسر آنے والی کچھ سبزیوں پر ہوتا ہے ۔ گزشتہ کئی ماہ سے غزہ کے کھنڈرات میں کھلے آسمان تلےامدادی فوڈ پیکیجز پر گزارا کرتے ہوئے وہ گھر کے پکے کھانوں کے ذائقےکو ترس گئے تھے ۔

لیکن غزہ میں اپنے بلاگ کے لیے ہوٹلوں، ریستورانوں اور برگرز اور پیزا اسٹورز کی ویڈیوز بناتے ہوئے انہیں کھانا پکانے کی کچھ سدھ بدھ ہو گئی تھی اور شاید ان کے اسی علم نے انہیں امدادی راشن والےکھانوں کو روائتی فلسطینی انداز سے تیار کرنےکا آئیڈیا دیا۔

بچے جبالیہ پنا ہ گزین کیمپ میں کھانے کی قطار میں۔فوٹو اے ایف پی
بچے جبالیہ پنا ہ گزین کیمپ میں کھانے کی قطار میں۔فوٹو اے ایف پی

راشن کے ڈبہ بند کھانوں کا نیا استعمال

اس آئیڈیا پر عمل درآمد کے لیے انہوں نے اپنی ذہانت اور جدت پسندی کو استعمال کیا اور ڈبہ بند راشن کی خوراک کو آس پاس سے میسر آنے والی سبزیوں کے ساتھ ملا کر نئے اور روائتی انداز کے امتزاج سے پکانا سیکھا ۔ اور اسے غزہ کے بھوکے بچوں کو پیش کرنے کا سلسلہ شروع کر دیا ۔

خان یونس سے اے ایف پی کو ایک ویڈیو کال میں انہوں نے بتایا، "میرے پاس اس کھانے کو تبدیل کرنے کا خیال تھا جو ہم کئی مہینوں سے کھا رہے ہیں، تاکہ بچوں کے لیے مزیدار کھانا بنایا جا سکے۔"

انہوں نے غزہ اسٹائل میں ’’ بیف ٹاکو " "پیزا ریپ" اور ایک ڈیپ فرائیڈ "گولڈن سینڈویچ" اور سبزیوں کا اسٹو بنانا سیکھا۔ اب وہ غزہ اسٹائل میں بنے یہ کھانے اپنی خیمہ بستی کے بھوکے بچوں کو پیش کرتے ہیں اور کھانے پکانے اور ان کی تقسیم کی فلمبندی بھی کرتے ہیں۔

رفاح میں بچے پینے کا پانی لاتے ہوئے۔فوٹو رائٹرز
رفاح میں بچے پینے کا پانی لاتے ہوئے۔فوٹو رائٹرز

خان یونس کے کھنڈرات میں سے بچے ننگے پاؤں، خالی برتنوں اور پیالوں کو لے کر ان کے خیمے کی طرف بھاگتے ہیں، جہاں جنگی شیف کھلے گڑھے میں جلائی آگ پر بڑے بڑے برتنوں میں ڈبہ بند جنگی راشن اور ارد گرد کی دوسری سبزیو ں کا اسٹو پکا کر ان کےخالی برتنوں اور پیالوں کو بھرتے ہوئے انہیں ایک بہتر کل کی امید کا پیغام دیتے ہیں ۔

ایک فلسطینی بچی۔
ایک فلسطینی بچی۔

آن لائن حمدا شو

دوسری جانب اپنےآن لائن ’حمدا شو‘ نامی بلاگ کے ذریعے وہ غزہ کی جنگ کا ایک مختلف رخ دنیاکے سامنے پیش کر کے غزہ کے لوگوں کی ہمت اور استقامت کی کہانی سناتے ہیں۔ اور انہیں غزہ کے بھوکے بچوں کو جنگ اور جنگ کی تباہ کاریوں سے نجات دلانے کےلئے کچھ کرنے کی تحریک دیتے ہیں۔

ان کی ایک ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ایک لڑکا ان کے بنائےہوئے ایک فرائیڈ پین کیک کو سیب اور چاکلیٹ کی چٹنی کے ساتھ کھاتے ہوئے کہتا ہے "زکی (مزیدار)!"

ان بے پایاں مصائب کے باوجود خان یونس کے یہ بچےاب بھی فوٹو کھنچوانے کے لیے مسکراتے ہیں۔فوٹو اے ایف پی
ان بے پایاں مصائب کے باوجود خان یونس کے یہ بچےاب بھی فوٹو کھنچوانے کے لیے مسکراتے ہیں۔فوٹو اے ایف پی

غزہ کے غموں کا تریاق ، امید کی ایک پلیٹ

شکورا،جن کی جنگ شروع ہونے سے دو ماہ قبل شادی ہوئی تھی کہتے ہیں کہ ان کا مقصد محصور غزہ کو "وقار اور آزادی کے احساس" کے ساتھ کھانا فراہم کرنا ہے ۔

ان کا کہنا ہے کہ وہ غزہ کی محرومیوں اور غموں کے مرہم کے طور پر "امیدکی ایک پلیٹ" پر کام کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ میں زیادہ سے زیادہ لوگوں کو کھلانا چاہتا ہوں۔

عید الاضحی کے موقع پر انہوں نے بچوں کے لیے ڈونٹس تیار کیے تھے تاکہ وہ یہ محسوس کر سکیں کہ ان کے پاس جشن منانے کا کوئی موقع اب بھی موجود ہے ۔ گرمی کے دنوں میں وہ انہیں تازگی بخش لیمن گرینائٹ پیش کرتے ہیں ۔

ایک فلسطینی بچہ۔
ایک فلسطینی بچہ۔

غزہ میں بھوک

اگرچہ اقوام متحدہ نے غزہ میں قحط کا باضابطہ اعلان نہیں کیا ہے، ماہرین کا کہنا ہے کہ اسرائیلی محصور علاقے میں بھوک بہت زیادہ ہے جہاں 24 لاکھ کی آبادی کو خوراک کی بہت کم امداد پہنچ رہی ہے۔

اسرائیل کسی بھی طرح کی غذائی قلت سے انکار کرتا ہے اور اقوام متحدہ اور امدادی ایجنسیوں کو رسد کی غیر موثر تقسیم کا ذمہ دار ٹھہراتا ہے۔

لیکن فلسطینیوں نے اے ایف پی کو بتایا ہے کہ وہ کھانا چھوڑنے پر مجبور ہیں اور اپنے بچوں کو زندہ رکھنے کے لیے گھاس ابالنے پر مجبور ہیں۔

شکورا کا کہنا ہے کہ ان کی ویڈیوز کا مقصد دنیا کو یہ دکھانا ہے کہ غزہ کے لوگ "مستقل مزاج مضبوط لوگ ہیں" اور یہ کہ "ہم اپنا وجود برقرار رکھنے کی اپنی سی پوری کوشش کرتے ہیں۔"

اس رپورٹ کے لیے معلوما ت اے ایف پی سے حاصل کی گئی ہیں۔

فورم

XS
SM
MD
LG