اسرائیل کی فوجیوں کی طرف سے غزہ کے ساتھ سرحد پر کی جانے والی فائرنگ سے مزید سات فلسطینی مظاہرین ہلاک اور کم از کم 200 زخمی ہو گئے ہیں، جس کے بعد یہاں ایک ہفتے سے جاری خراب صورتحال میں مرنے والوں کی تعداد 27 ہو گئی ہے۔
غزہ میں محکمہ صحت کے عہدیداروں کے مطابق جمعہ کو پیش آنے والے واقعے میں 16 اور 17 سال کی عمروں کے دو لڑکے بھی ہلاک ہوئے جب کہ ایک قابل ذکر فلسطینی صحافی یاسر مرتجیٰ بھی زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے ہفتہ کو علی الصبح دم توڑ گئے۔
وہ اسرائیلی سرحدی علاقے خزاعہ میں ہونے والے مظاہروں کی کوریج کر رہے تھے کہ فائرنگ سے زخمی ہو گئے تھے۔
بتایا جاتا ہے کہ مرتجیٰ سرحد سے تقریباً ایک سو میٹر سے زائد فاصلے پر موجود تھے اور انھوں نے جیکٹ بھی پہن رکھی تھی جس پر 'پریس' بھی لکھا ہوا تھا۔
اسرائیلی فوج کا موقف ہے کہ مظاہرین کی طرف سے سرحد کی خلاف ورزی کرنے پر فائرنگ کی گئی۔
ہزاروں فلسطینی ایک ہفتے سے اسرائیل کی سرحد کے قریب احتجاجی کیمپ لگا کر بیٹھے ہوئے ہیں اور اسے 'واپسی کا ایک عظیم مارچ' قرار دے کر مظاہرین کر رہے ہیں۔
اس دوران مظاہرین ٹائروں کو آگ لگا کر سرحد کی طرف دھکیلتے ہوئے نظر آ چکے ہیں اور دوسری جانب سے اسرائیلی فورسز کی طرف سے ان منتشر کرنے کے لیے فائرنگ بھی کی گئی۔
یہ فلسطینی اپنے آباؤ اجداد کے ان علاقوں کی طرف واپس جانے کے لیے کوشاں ہیں جو اسرائیل کے معرض وجود میں آنے کے بعد ان علاقوں سے بے دخل کر دیے گئے تھے۔
جمعہ کو ہونے والے مظاہرے میں شریک لوگوں کی تعداد گزشتہ ہفتے سے جاری اس احتجاج میں سب سے زیادہ تھی لیکن یہ تعداد 30 مارچ کو ہونے والے مظاہرے سے کم تھی جس میں 17 فلسطینی اسرائیلی فوج کی فائرنگ سے ہلاک ہوئے تھے۔