غزہ کی تازہ ترین جنگ ختم ہو چکی ہے مگر اس کی تباہ کاری نو سالہ شاروق المصری اور اس کی بہن 4 سالہ رزان کے کمرے میں اب بھی سلگ رہی ہے۔ ان کے کھلونوں پر راکھ جم گئی ہے۔ چھت ٹوٹ کے جھک گئی ہے اور دیواروں پر سجے کارٹونوں میں سے دراڑیں جھانکنے لگی ہیں۔
دونوں بچیاں 19 مئی کو سیز فائر سے دو روز پہلے ایک قریبی عمارت پر علی الصبح کی بمباری میں بچ تو گئیں مگر غزہ کے اور بہت سے بچوں کی طرح ان کے ننھے ذہنوں میں جنگ کا خوف اور تباہی ہمیشہ کے لئے بس گئی ہے۔
حالیہ گیارہ روزہ جنگ اسرائیل اور غزہ پر 2017 سے حکمران عسکریت پسند گروپ حماس کے درمیان چوتھی جنگ تھی۔ اور انداز اس کا بھی پہلی جنگوں والا ہی تھا جس میں علی الصبح اسرائیلی فضائی حملے، حماس کے غزہ سے وہی راکٹ داغے جانا۔ وہی ہلاکتوں کی غیر متناسب تعداد جس میں مرنے والے 250 افراد میں اکثریت اب بھی فلسطینیوں کی تھی۔
پہلی جنگوں کی طرح اب بھی اس کا اثر بچوں پر زیادہ پڑا ہے۔ اس مرتبہ بھی کم از کم 66 بچے جان سے گئے جن میں اسرائیل کی جانب بھی ایک پانچ سالہ بچہ اور ایک سولہ سالہ لڑکی ہلاک ہو گئی۔ اور بے شمار بچے ایسے ہیں جو دھماکوں کی وجہ سے راتوں کو سو نہیں سکے۔
ایسو سی ایٹڈ پریس کے مطابق بہت سے بچوں کے لئے یہ ان کی زندگی کی پہلی جنگ تھی مگر بہت سے ایسے بھی ہیں جو 2014 کی تباہی ابھی بھولے نہیں۔
اسرائیل تباہی کے لئے حماس کو ذمے دار ٹھراتا ہے جو غزہ کے سویلین علاقے سے اسرائیل کے سویلین علاقے کی جانب اندھا دھند راکٹ برساتا ہے۔ اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ وہ ہر کوشش کرتے ہیں کہ عام شہریوں کا جانی نقصان نہ ہو۔ حماس کا کہنا ہے کہ وہ عشروں کے فوجی قبضے کے خلاف لڑ رہے ہیں اور ان کے پاس ایک طاقتور فوج کے خلاف صرف یہی ہتھیار ہے۔ اس کے مطابق مرنے والوں میں اس کے 80 جنگجو شامل ہیں۔
دونوں فریق کہتے ہیں کہ ان کے پاس اس کے سوا چارہ نہیں اور دونوں میں سے کوئی بھی اسے آخری جنگ نہیں مانتا۔ اور یہیں وہ لوگ بھی ہیں جو اس جنگ کی تباہ حالی سے ششدر ہیں اور نہیں جانتے کہ آخر ایسا کیوں ہے۔
محمود المصری کی عمر 14 سال ہے۔ وہ اپنے 6 بھائیوں کے ساتھ ایک گھر میں رہتے ہیں اور ایک روز جب صبح تین بجے اسرائیلی فوج نے انہیں عمارت سے نکل جانے کے لئے کہا تو اپنے گھر والوں کے ساتھ انہیں یقین نہیں تھا کہ وہ گھر میں واپس آئیں گے اور اگلی صبح آئے بھی تو خوفزدہ تھے کہ ابھی کوئی ڈرون حملہ کر دے گا اور وہ زندہ نہیں بچیں گے۔
اس جنگ میں بچ رہنے والوں کی مشکلات اور بھی زیادہ ہیں۔ ان کے سامنے دوبارہ تعمیر کا مشکل مرحلہ ہے۔ 2007 میں جب سے حماس اقتدار میں ہے، اسرائیل اور مصر نے غزہ پر سخت پابندیاں عائد کر رکھی ہیں۔ بے روزگاری کی شرح 50% سے بڑھ رہی ہے۔
اسرائیل کا کہنا ہے کہ ناکہ بندی ضروری ہے تاکہ حماس خود کو دوبارہ مسلح نہ کر سکے جب کہ فلسطینی اور انسانی حقوق کے دیگر گروپ اسے ایک اجتماعی سزا خیال کرتے ہیں۔
کچھ بھی ہو ان بچوں کو، جن کے گھر اس جنگ میں تباہ ہو گئے کسی ایسی جگہ لوٹنے میں جسے وہ گھر کہہ سکیں ، ابھی بہت وقت لگے گا۔
ادھر وائس آف امریکہ کے ایلیسن ہینی نے ان فلسطینی نوجوانوں سے بات کی ہے جو اپنے گھروں سے دور دوسرے ملکوں میں زیرِ تعلیم ہیں اور اس جنگ کی تباہی کو بے بسی سے صرف سوشل میڈیا اور نیوز رپورٹس کی آنکھ سے دیکھتے رہے۔
مونا صلاح برطانیہ کی برسٹل یونیورسٹی میں لاء کی طالبہ ہیں ۔ وہ کہتی ہیں کہ آپ محفوظ ہیں تو ایک طرح کے احساسِ جرم میں مبتلا ہیں کہ یہ سب آپ کے ساتھ کیوں نہیں ہو رہا۔ اور پھر یہ کہ میں ان لوگوں کی مدد کرنے سے قاصر کیوں ہوں؟
فلسطینیوں کا احتجاج مئی کے آغاز میں اس وقت شروع ہوا تھا جب اسرائیلی سپریم کورٹ نے شیخ جراح کے علاقے سے، جو تاریخی طور پر فلسطینیوں کی بستی ہے، فلسطینی خاندانوں کی بے دخلی کی اجازت دے دی تھی۔
وہاں مکین گروپوں کا کہنا ہے کہ یہودی اس علاقے کے مالک اس وقت تھے جب 1948 میں اسرائیل وجود میں نہیں آیا تھا۔ اقوامِ متحدہ کے کمشن برائے انسانی حقوق کا کہنا ہے کہ شیخ جراح فلسطینی مقبوضہ علاقے پر واقع ہے اور سپریم کورٹ کا حکم بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی ہے۔
وجہ کچھ بھی ہو مگر غزہ اور مغربی کنارے کے یونیورسٹی کے طلبہ اور دیگر نوجوان کہتے ہیں تازہ ترین تنازع نے پہلے سے خراب حالات کو بد تر بنا دیا ہے۔