جرمنی نے روسی ایندھن پر انحصار ختم کرنے کے لیے پیش رفت کا اعلان کیا ہے اور توقع ظاہر کی ہے کہ وہ موسم گرما کے آخر تک روسی خام تیل کی درآمدات سے مکمل طور پر نجات پالے گا۔
جرمنی کے وزیر برائے اقتصادیات و موسمیات رابرٹ ہیبیک نے اتوار کو کہا کہ یورپ کی سب سے بڑی معیشت نے روسی توانائی کی درآمدات میں کمی کرکے تیل بارہ فیصد، کوئلہ آٹھ فیصد اور قدرتی گیس 35 فیصد کی سطح پر لے آیا ہے۔
یوکرین اور یورپ کی دیگر اقوام کا جرمنی پر سخت دباو تھا کہ وہ روس سے اربوں یورو مالیت کے تیل کی درآمدات میں کٹوتی کرے،جس سے حاصل ہونے والی آمدن سے پوٹن کے جنگی عزائم کی تکمیل میں مدد مل رہی ہے۔
ہیبک نے ایک بیان میں کہا کہ ہم نےجو اقدامات اٹھائے ہیں، اس کے لیے ضرورت ہے کہ تمام اسٹیک ہولڈر زبردست مشترکہ اقدامات اٹھائیں۔ان اقدامات سے معیشت اور صارفین دونوں پر اضافی اخراجات کا بوجھ پڑے گا، لیکن اگر ہم مزید بلیک میل نہیں ہونا چاہتے تو ہمیں یہ کرنا ضروری ہے۔
جرمنی کا یہ اعلان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب اگست میں روسی کوئلے کی درآمد پر پابندی کے فیصلے کے بعد پوری یورپی یونین روسی تیل پر بھی پابندی پر غور کررہی ہے۔
ہیبک کی وزارت نے کہا کہ جرمنی نے نسبتاً کم وقت میں تیل اور کوئلے کی درآمدات دوسرے ممالک کو منتقل کرنے میں کامیابی حاصل کی ہے یعنی موسم گرما کے آخر تک روسی خام تیل کی درآمدات پر انحصار کا خاتمہ ہوجائے گا۔ جرمنی کا روسی قدرتی گیس پر انحصار ختم کرنا ایک بڑا چیلنج ہے۔
روس کے چوبیس فروری کو یوکرین پر حملے سے پہلے جرمنی اپنی قدرتی گیس کی ضروریات کا نصف سے زیادہ روس سے درآمد کرتا تھا۔ وزارت نے کہا ہےکہ یہ حصہ اب کم ہوکر پنتیس فیصد رہ گیا ہے، جس کی ایک وجہ ناروے اور نیدر لینڈ سے اس کی خریداری میں اضافہ ہے۔
روسی درآمدات کو مزید کم کرنے کے لیے جرمنی مائع قدرتی گیس یا ایل این جی کے ٹرمینلز کی تعمیر کو تیز کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ توانائی اور موسمیات کی وزارت نے کہا ہے کہ جرمنی اس سال یا اگلے سال کے اوائل میں کئی تیرتے ہوئے ایل این جی ٹرمینلز کو کام میں لانا شروع کرنا چاہتا ہے۔
جرمنی روسی قدرتی گیس پر یورپی یونین کے بائیکاٹ کے مطالبے کے خلاف تھا، گزشتہ ماہ ماسکو نے روبل میں ادائیگی نہ کرنے پر اچانک پولینڈ اور بلغاریہ کو گیس کی سپلائی روک دی تھی تو جرمنی کو تشویش ہوئی ۔ یورپی حکام روس کے ان اقدامات کو انرجی بلیک میل قرار دیتے ہیں۔
جرمنی کے مرکزی بینک نے کہا ہے کہ روسی گیس کے مکمل بائیکاٹ سے معیشت میں پانچ فیصد کمی آئے گی اور افراط زر میں بھی اضافہ ہوسکتا ہے۔
(خبر میں کچھ مواد خبررساں ادارے اے پی سے لیا گیا ہے)