امریکہ کے خلاف 2001ء کے دہشت گرد حملوں کی منصوبہ بندی کےجرم میں گوانتانامو میں قید پانچ ملزموں کے خلاف فرد جرم کی سماعت میں ہفتے کو اُس وقت تھوڑی رکاوٹ آڑے آئی جب مشتبہ افراد نے مقدمے کی کارروائی کے خلاف بظاہر ایک خاموش احتجاج کیا۔
حملوں کے خود ساختہ سرغنے خالد شیخ محمد اورچار دیگر ملزمان نے ترجمہ فراہم کرنے والے ایئرفون کانوں پر سے ہٹا دیے اور فوجی جج کے کسی سوال کا جواب دینے سے انکار کیا۔
خالد شیخ محمد کے سویلین وکیل ڈیوڈ نوین نے بتایا کہ وہ جواب نہیں دے رہے تھے، کیونکہ اُنھیں مقدمے کی کارروائی کے منصفانہ ہونے کے بارے میں تشویش تھی۔
ہفتے کو ہونے والےمقدمے کی سماعت کیوبا میں گوانتانامو بے کے امریکی فوجی اڈے پرہوئی جہاں یہ پانچ ملزمان کئی سالوں سےقید ہیں، ایسے میں جب اس بات پر قانونی و سیاسی لڑائی جاری ہے، آیا اُن کے خلاف کیسے اور کہاں مقدمہ چلایا جائے۔
ملزم ولید بن عطاش عدالتی کمرے میں آرام کرسی پر بیٹھے تھے، جنھیں بہتر رویے کی یقین دہانی کرانے پر رہا کیا گیا، جب کہ رمزی بن شبھ کے اس دعوے کے بعد کہ اُنھیں ہلاک کیا جا سکتا ہے، مقدمے کی کارروائی میں خلل پڑا۔
پیشی پر آنے والا کم از کم ایک ملزم اُٹھ کھڑا ہوا اور کمرہٴ عدالت میں نماز پڑھنے لگا، جب کہ سکیورٹی فراہم کرنے والے فوجی کھڑے رہے۔
اِن پانچ ملزموں کو 11 ستمبر 2001ء میں نیویارک، واشنگٹن اور پینسلوانیا کے شہر شینکس ویل میں حملے کرنے اور تقریباً 3000 افراد کی ہلاکت کے باضابطہ الزام کا سامنا ہے۔ سزا کی صورت میں اُنھیں پھانسی ہو سکتی ہے۔
کارروائی سے قبل باضابطہ فرد جرم عائد کرنا مقدمے کا پہلا قدم ہوا کرتا ہے اور 11ستمبر کےمشتبہ منصوبہ سازوں پر امریکہ میں چلایا جانے والا یہ دوسرا مقدمہ ہے۔ سمجھا جاتا ہے کہ یہ قانونی جنگ کئی برسوں تک جاری رہ سکتی ہے۔
ہفتے کے روز ہونے والی اِس سماعت کو دیکھنے کے لیے اِن دہشت گرد حملوں میں ہلاک ہونے والوں کے خاندانوں کےافراد شریک ہوئے جن کے نام لاٹری کی مدد سے نکالے گئے تھے۔ متاثرہ خاندانوں کے دیگر افراد کلوز سرکٹ ٹیلی ویژن پر براہ راست نشری سماعت دیکھنے کے لیے مختلف امریکی فوجی اڈوں پر موجود تھے۔