پاکستان کو کئی برسوں سے توانائی کے بحران کا سامنا ہے جو گزرتے وقت کے ساتھ شدید ہو رہا ہے۔ بڑھتی ہوئی تیل کی قیمتیں دنیا بھر کی معیشتوں پر اثر انداز ہو رہی ہیں۔ یہاں تک کہ پیٹرول کی قیمتوں میں اضافہ امریکہ کی صدارتی انتخابی مہم میں ایک ایشو بن کر ابھر رہا ہے۔ مگر یہاں امریکہ میں کچھ ماہرین توانائی کے شعبے میں بہت سی مثبت تبدیلیاں دیکھ رہے ہیں۔
بجلی اورگیس کی کمی ، پاکستان میں ایک بحران کی شکل اختیار کرتی جا رہی ہے ۔ لیکن یہ بحران صرف پاکستان کا ہی نہیں ہے ۔۔ توانائی کی کمی کی وجہ سے پیدا ہونے والے مسائل اور ان کے حل پر کام کرنے کا احساس دنیا بھر میں شدت اختیار کر رہا ہے۔
حالیہ برسوں میں توانائی کے متبادل ذرائع کی تلاش کے لئے امریکہ میں جس بڑے منصوبے پر کام ہوا ہے ، وہ ہے جدید ٹیکنالوجی کے استعمال سے سطح زمین سے قدرتی گیس نکالنے کا منصوبہ ۔
دنیا کی ایک بڑی معاشی تنظیم گلوبل ان سائٹ کے نائب صدر جان لارسن کہتے ہیں کہ گیس کی پیدوار بڑھانے سے نہ صرف گاڑیوں میں قدرتی گیس کا استعمال زیادہ ہوگا بلکہ ہو ااور شمسی توانائی جیسے توانائی کے دیگر ذرائع کو بھی تقویت ملے گی۔
جان لارسن کہتے ہیں کہ ہو ا نہ چل رہی ہو یا دھوپ نہ نکلے تو بجلی کے جنریٹرز گیس سے چلائے جا سکتے ہیں مگر ہوا کے مقابلے میں سستی قدرتی گیس حاصل کرنا ذرا مشکل ہے ۔
ہوا سے ایک میگا واٹ بجلی پیدا کرنےاور اتنی ہی مقدار میں قدرتی گیس سے حاصل کرنے پر لاگت تقریباً برابر آتی ہے۔ مگر شمسی یعنی سورج سے حاصل ہونے والی توانائی پر اس سے تقریباً پانچ گنا زیادہ خرچ آتا ہے۔
بعض لوگوں کے خیال میں قدرتی گیس کی پیدوار بڑھانے سے صنعتی شعبے کو فائدہ پہنچ سکتا ہے ۔ جبکہ گاڑیوں میں ایندھن کے طور پر استعمال ہونےو الے ایتھنول کی تیاری میں مکئی کی بجائے قدرتی گیس کے استعمال سے ، اس کی قیمت کم ہو سکتی ہے۔
ڈیلس کی ایک کمپنی نے اس کا طریقہ بھی ڈھونڈ لیا ہے۔ اس کا کہناہے کہ ہم تھرمو کیمیکل کے ذریعے ایسا کر رہے ہیں ، اس میں قدرتی گیس یا کوئلہ استعمال ہوتا ہے۔ امید ہے کہ مستقبل میں اس طریقے سے کم خرچ ایتھنول تیار کیا جا سکے گا۔
یہ کمپنی فی الحال چین کی مدد سے کوئلے سے کوئلے سے ایتھنول بنا رہی ہے۔ مگر ان کا کہنا ہے کہ بڑے پیمانے پر ایسے ایندھن کی تیاری کے لئے امریکی قوانین میں ترمیم کی ضرورت ہے ۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ توانائی کے متبادل ذرائع سے دنیا کا تیل پر انحصار کافی حد تک کم کیا جا سکتا ہے۔ مگر آئندہ کئی برسوں تک گاڑیوں میں زیادہ تر پیٹرول ہی استعمال کیا جائے گا ۔