’بوسٹن گلوب‘ ایک اداریے میں کہتا ہے کہ نیرنگیٴ تقدیر دیکھئے کہ سابق سویت یونین کے لیڈر میخائل گوبارچیف موجودہ روس کی آمرانہ حکومت کی سب سے زیادہ نقطہ چینی کرنے والوں کی صف میں شامل ہوگئے ہیں۔
بیس سال قبل کمیونسٹ پارٹی کے سخت گیر مؤقف رکھنے والے عہدے داروں کو گوباچیف کی اصلاحات پر اتنا غصہ تھا کہ اُنھوں نے اُنھیں اقتدارسے علیحدہ کرنے کی کوشش کی اور کریملن پر قبضہ کرنے اور خودمختار ذرائع ابلاغ کا گلا گھونٹنے کی بھی کوشش کی لیکن ، یہ فوجی انقلاب چند ہی دِنوں میں دم توڑ گیا اور سال کے آخر تک سویت یونین کا وجود ہی باقی نہ رہا۔
امید یہ تھی کہ روس میں جمہوریت اور آزادی کی جڑیں مضبوط ہوں گی، لیکن KGBکے ایک سابق کرنل ولادی پُوتن کے برسرِاقتدار آنے سے یہ امیدیں خاک میں مل گئیں۔ پُوتن کوصدر بنایا گیا تو اُنھوں نے میعادِ صدارت کی شرائط سے بچنے کے لیے وزیرِ اعظم کا عہدہ سنبھال کر روس پر اپنا تسلط قائم رکھا اور جمہوری آزادیوں اور حکومت کے ناقدین کو کچل کر رکھ دیا۔
مقامی گورنروں اور پارلیمنٹ کے لیے براہِ راست انتخابات کا طریقہ ختم کر دیا گیا، مخالف جماعتوں کی کوئی حیثیت باقی نہیں رہنے دی گئی، سیاسی مخالفین کو قید و بند میں ڈال دیا گیا، ہاہمت صحافیوں کو قتل کیا گیا، تعلیمی آزادیوں کا گلا گھونٹ دیا گیا، ذرائع ِ ابلاغ پر کریملن کے وفاداروں نے قبضہ کرلیا اور غیر سرکاری اداروں پر کڑی پابندیاں عائد کی گئیں۔
اخبار کہتا ہے کہ اِن حالات میں گورباچیف کا سیاسی کھلے پن اور جمہوری انقلاب کے نقیب کی حیثیت سے دوبارہ اُبھر کر آنا خوش آئند بات ہے۔
گورباچیف کا مؤقف ہے کہ ایماندارانہ انتخابات کی ضرورت ہے اور’ پریسٹرائیکا‘ اور’ گلیس ناسٹ‘ کے اِس باوا نے پُوتن پر الزام لگایا ہے کہ وہ اپنا اقتدار مضبوط کرنے کے لیے روس کو سٹالن کے دور کی طرف واپس لے جارہے ہیں۔
اخبار کہتا ہے کہ گورباچیف 80برس کے ہوچکے ہیں اور یہ اُن کے آرام کرنے کے دِن ہیں، لیکن اُنھوں نے روسی اصلاح پسندوں کے حق میں جو آواز بلند کی ہے اُس سے اُن کے اخلاقی عزم کا اندازہ ہوتا ہے۔
’نیویارک ٹائمز‘ کہتا ہے کہ ایسے میں جب شام میں کشت و خون کا بازار گرم ہے نہ صرف امریکہ اور اس کے اتحادیوں ہی نے اُس پر اپنی حقارت کا اظہار کیا ہے بلکہ صدر بشار الاسد کے پرانے حامیوں میں سے بہت سوں نے فیصلہ کرلیا ہے کہ وہ اب خاموش نہیں رہ سکتے۔
عرب لیگ نے بھی بالآخر شام سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ عوام کا خون بہا نہ بند کردے، صدارتی انتخابات کرائے، شہروں سے فوج واپس بلائے، سیاسی قیدیوں کو رہا کرے اور قومی وحدت کی ایک حکومت قائم کرے۔
اخبار کہتا ہے کہ عرب لیگ اپنی سی کوشش ضرور کرے لیکن یہ نہ بھولنا چاہیئے کہ صدر اسد پہلے بھی اصلاحات کےکئی وعدے کرچکے ہیں، لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ عرب لیگ شام کے خلاف سخت تعزیرات لگائے۔
اوباما انتظامیہ نے شامی حکومت کے تمام اثاثے منجمد کر دیے ہیں، یورپی یونین نے بھی شام کے خلاف تعزیرات لگانے کا اعلان کیا ہے۔
لیکن، جیسا کہ اخبار نے کہا ہے، مسٹر اسد کو ابھی بھی طاقتور ملکوں کی پناہ حاصل ہے جِن میں روس، چین، ہندوستان، برازیل اور جنوبی افریقہ شامل ہیں۔ یہ ملک سلامتی کونسل میں وسیع تر تعزیرات لگانے کی مخالفت کر رہے ہیں اور اخبار کی نظر میں اُن کی یہ حرکت شرمناک ہے۔
اخبار ’لاس ویکس سن‘ کہتا ہے کہ قابل تجدید توانائی کو فروغ دینے میں ریاست Nevadaقومی قائدکا کردار اداکرنے کی حیثیت میں ہے، کیونکہ اُس کے پاس شمسی، ہوائی اور جیو تھرمل وسائل کی بھرمار ہے۔اور جیسا کہ سینیٹ میں اکثریتی لیڈر ہیری ریڈ کہتے ہیں کہ نہ صرف نیواڈا بلکہ پورے امریکہ میں مسلسل اقتصادی نشونما اور روزگار پیدا کرنے کے بے تحاشہ امکانات ہیں۔ پورے ملک میں اِس وقت اِس شعبے میں 27لاکھ لوگ کام کر رہے ہیں اور 2003ء کے بعد سے توانائی کے صاف و شفاف شعبے کی نشونما کی رفتار مجموعی معیشت کے مقابلے میں دوگنی رہی ہے۔
اخبار کہتا ہے کہ توانائی کے قابلِ تجدید وسائل کو ترقی دینے سے نہ صرف معیشت کو روزگار کے نئے مواقع پیدا ہونے سے فائدہ ہوگا بلکہ اِس سے ملک کا غیر ملکی تیل پر انحصاربھی کم ہوجائےگا۔
آڈیو رپورٹ سنیئے: