رسائی کے لنکس

ویڈیو کانفرنسنگ کے لیے استعمال ہونے والی ایپس غیر محفوظ قرار


فائل فوٹو
فائل فوٹو

پاکستان کی حکومت نے سرکاری ملازمین اور عوام کو متنبہ کیا ہے کہ ویڈیو کانفرنسنگ کے لیے استعمال کی جانے والی ایپلی کیشنز سیکیورٹی کے لحاظ سے محفوظ نہیں ہیں۔

نیشنل ٹیلی کمیونیکیشن اینڈ انفارمیشن سیکیورٹی بورڈ نے ایک مراسلے میں کہا ہے کہ ویڈیو کانفرنس ایپلی کیشنز کی بہت سی کمزوریاں سامنے آئی ہیں جس کی وجہ سے ان ایپس کا غلط استعمال کیا جا سکتا ہے۔

دنیا کے دیگر ممالک کی طرح پاکستان میں بھی کرونا وائرس کے باعث لاک ڈاؤن کے دوران حالیہ ہفتوں میں ویڈیو کانفرنسنگ کی ایپلی کیشنز کے استعمال میں اضافہ ہوا ہے۔

مراسلے کے مطابق یہ ویڈیو کانفرنسنگ ایپس استعمال کرنے والوں کی پرائیویسی اور دوسروں کی معلومات چرانے کی سہولت فراہم کر رہی ہیں۔

سرکاری مراسلے میں بتایا گیا ہے کہ یہ ایپس ہیکرز کو نہ صرف صارفین کے کمپیوٹر سسٹم تک رسائی دیتی ہیں بلکہ معلومات چرانے کے ساتھ ساتھ کیمرہ و مائیک استعمال کرنے کا اختیار بھی حاصل کیا جا سکتا ہے۔

مراسلے میں کہا گیا ہے کہ ہیکرز اور ریاستی سرپرستی میں کام کرنے والے مختلف ممالک کے ادارے ویڈیو کانفرنسنگ ایپس کے استعمال کو ہدف بناتے ہوئے با آسانی حساس معلومات حاصل کر رہے ہیں۔

نیشنل ٹیلی کمیونیکیشن اینڈ انفارمیشن سیکیورٹی بورڈ نے معروف ویڈیو ایپلی کیشنز زوم، مائیکرو سافٹ ٹیم، اسکائپ، گوگل ہینگ آؤٹ، سلیک اور زوہو کے نام بھی مراسلے میں تحریر کیے ہیں۔

خیال رہے کہ امریکی سینیٹ. مائیکرو سافٹ اور گوگل جیسی کمپنیوں نے بھی اپنے ملازمین کو زوم کانفرنس کالنگ ایپ استعمال کرنے سے روک رکھا ہے جس کی وجہ معلومات تک تھرڈ پارٹی کی رسائی کے امکانات بتائے گئے ہیں۔

ویڈیو کانفرنس ایپ استعمال پر پابندی نہیں!

نیشنل ٹیلی کمیونیکیشن اینڈ انفارمیشن سیکیورٹی بورڈ کے اسسٹنٹ سیکریٹری میجر عمران نذیر کہتے ہیں کہ انہوں نے سرکاری اداروں کو ویڈیو کانفرنسنگ ایپس کے استعمال سے روکا نہیں ہے البتہ بعض احتیاطی تدابیر اپنانے کے لیے کہا ہے تاکہ ان کی رازداری اور معلومات غلط ہاتھوں میں پہنچنے سے محفوظ رہ سکیں۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے عمران نذیر کا کہنا تھا کہ کرونا وائرس کے باعث سرکاری اداروں میں بھی کام کرنے کے انداز بدل گئے ہیں۔ گھروں سے کام کی وجہ سے انٹرنیٹ کے ذریعے دستاویزات کی ترسیل غیر محفوظ ہو جاتی ہے۔

عمران نذیر نے بتایا کہ اگرچہ یہ سفارشات سرکاری اداروں کے لیے ہیں تاہم غیر سرکاری ادارے جو حکومتی اداروں کے ساتھ کام کرتے ہیں، انہیں بھی ان سفارشات ہر عمل کرنے کا کہا گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہیکرز کی جانب سے حساس معلومات تک رسائی حاصل کرنے اور معلومات چوری ہونے سے بچانے کے لیے احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔

اس سے قبل پاکستان کی حکومت نے سرکاری اداروں اور ملازمین کو واٹس ایپ کے ذریعے حساس معلومات و دستاویزات کے تبادلے پر پابندی لگائی تھی۔

XS
SM
MD
LG