بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں پیر کو ایک دستی بم حملے میں ایک شخص ہلاک اور بھارتی سیکیورٹی اہلکاروں سمیت کم از کم 40 افراد زخمی ہو گئے ہیں۔
بھارتی حکام کے مطابق دستی بم حملہ سرینگر کے مرکزی علاقے میں واقع ایک بازار میں ہوا۔ حکام اس حملے کو 5 اگست کو کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت کے خاتمے کے بعد سے اب تک کا خطرناک ترین حملہ قرار دے رہے ہیں۔
پولیس نے ہلاک ہونے والے شخص کی شناخت بھارتی ریاست اُتر پردیش کے رہائشی 35 سالہ رِنکو سنگھ کے طور پر کی ہے۔ پولیس کے مطابق رنکو سنگھ سرینگر کے ہری سنگھ ہائی اسٹریٹ علاقے میں فٹ پاتھ پر کھلونے بیچ رہا تھا جہاں "دہشت گردوں" نے مقامی وقت کے مطابق دن کے ایک بج کر بیس منٹ پر دستی بم پھینکا۔
دستی بم حملے میں بھارت کے نیم فوجی دستوں کے تین اہلکار بھی زخمی ہوئے ہیں جنہیں دیگر زخمیوں کے ہمراہ اسپتال منتقل کیا گیا ہے۔ حکام کے مطابق ایک زخمی کی حالت نازک ہے۔
اس سے قبل سرینگر کے اعلیٰ پولیس حکام نے حملے کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا تھا کہ دستی بم حملے میں ایک شخص ہلاک جب کہ 14 افراد زخمی ہوئے ہیں۔
عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ جس وقت دستی بم کا دھماکہ ہوا، علاقے میں تاجروں نے تقریباً تین گھنٹے دکانیں کھلی رکھنے کے بعد انہیں بند کر دیا تھا۔ لیکن فٹ پاتھوں پر خوانچہ فروش اور خریداروں کی ایک معقول تعداد وہاں موجود تھی۔
خیال رہے کہ آرٹیکل 370 کے خاتمے کے بعد سے اب تک سرینگر اور وادی کے بعض دوسرے حصوں میں صرف صبح کے اوقات میں دکانیں کھولی جاتی ہیں جب کہ سڑکوں پر سے پبلک ٹرانسپورٹ زیادہ تر غائب رہتی ہے۔
گزشتہ ایک ماہ کے دوران وادی کے مختلف علاقوں میں نامعلوم افراد نے دستی بموں کے پانچ دھماکے کیے ہیں جب کہ کچھ نامعلوم مسلح افراد نے جنوبی کشمیر کے اضلاع شوپیاں، پُلوامہ، کُلگام اور اننت ناگ میں 11 غیر مقامی افراد کو بھی ہلاک کر دیا ہے جن میں چار ٹرک ڈرائیور، چھ مزدور اور سیبوں کا کاروبار کرنے والا ایک شخص شامل تھے۔
بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کے علاقے سوپور میں گزشتہ ہفتے ایک بس اسٹینڈ پر گرینیڈ حملہ کیا گیا تھا جس میں کم از کم 15 افراد زخمی ہوئے تھے۔ اس سے قبل 26 اکتوبر کو ایک چیک پوسٹ پر ہونے والے دستی بم حملے میں 6 سیکیورٹی اہلکار زخمی ہو گئے تھے۔
بھارتی عہدے داروں نے ان تمام واقعات کا الزام 'مسلمان عسکریت پسندوں' پر ڈالتے ہوئے کہا ہے کہ وہ ایسا پاکستان کی ایما پر کر رہے ہیں۔ بھارتی حکام کے بقول وادیٔ کشمیر میں صورتِ حال تیزی سے بہتر ہو رہی ہے جس سے علیحدگی پسند حواس باختہ ہوگئے ہیں۔
واضح رہے کہ کشمیر پر پاکستان اور بھارت کا تنازع کئی دہائیوں سے چلا آرہا ہے جو تاحال حل نہیں ہو سکا ہے۔ پاکستان کشمیر کو اپنا علاقہ قرار دیتا ہے جب کہ بھارت کا مؤقف ہے کہ یہ اس کا علاقہ ہے۔
وادیٔ کشمیر کو بھارتی آئین کے آرٹیکل 370 اور اس کی ذیلی شق 35 اے کے تحت خصوصی آئینی حیثیت حاصل تھی جسے بھارت نے 5 اگست کو ختم کرکے جموں و کشمیر کو نئی دہلی کے زیرِ انتظام علاقے قرار دیا تھا۔
اس اقدام کے بعد جہاں ایک طرف بھارت اور پاکستان کےتعلقات کشیدہ ہیں وہیں بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں بھی گزشتہ تین ماہ سے پابندیاں عائد ہیں۔ پابندیوں کے باعث کشمیر میں گزشتہ تین ماہ سے حالات معمول پر نہیں آ سکے ہیں۔
’رائٹرز‘ کے مطابق بھارت نے کشمیر میں انٹرنیٹ کی بندش کے علاوہ ہزاروں لوگوں کو ’حفظِ ماتقدم‘ کے طور پر گرفتار کیا ہوا ہے۔ جب کہ اس دوران مختلف شدت پسند گروہ دوسرے علاقوں سے کام کے لیے آنے والے افراد کو نشانہ بنا رہے ہیں اور ان پر حملے کیے جا رہے ہیں۔