دنیا کے سات بڑے صنعتی ملکوں پر مشتمل گروپ سات "جی سیون" کے وزرائے خارجہ کا سالانہ اجلاس پیر کو اٹلی کے شہر ٹسکنی میں ہو رہا ہے اور توقع ہے کہ یورپ اور جاپان اس میں مختلف امور خاص طور پر شام سے متعلق امریکہ کے نقطہ نظر پر وضاحت حاصل کرنے کی کوشش کریں گے۔
امریکہ کے وزیر خارجہ ریکس ٹلرسن منصب سنبھالنے کے بعد پہلی مرتبہ اس اجلاس میں شریک ہو رہے ہیں۔
یہ دو روزہ کانفرنس ایسے وقت منعقد ہو رہی ہے جب امریکہ نے شمالی کوریا کے بڑھتے ہوئے جوہری مقاصد کے تناظر میں اپنے ایک بحری بیڑے کو جزیرہ نما کوریا کے قریب تعینات کرنے کا فیصلہ کیا اور دوسری جانب مغرب روس کے ساتھ اپنے سالوں کے عدم اعتماد کو ختم کر کے تعلقات میں بہتری کے لیے کوشاں ہے۔
لیکن توقع ہے کہ کانفرنس میں شام سے متعلق امور غالب رہے گے اور اٹلی کو توقع ہے کہ اختتامی اعلامیے میں اقوام متحدہ سے اس بات کو یقینی بنانے پر اتفاق کیا جا سکے گا کہ وہ شام کی چھ سالہ خانہ جنگی کے خاتمے کے لیے ٹھوس اقدام کرے۔
اس اجلاس سے ایک روز قبل ہی مصر میں قبوطی مسیحیوں کے گرجا گھروں پر داعش نے بم حملے کیے تھے جب کہ گزشتہ جمعہ کو اسٹاک ہوم میں ایک شدت پسند نے ٹرک سے لوگوں پر حملہ کیا تھا۔
اجلاس میں اٹلی، جرمنی، فرانس، برطانیہ، کینیڈا اور جاپان کو پہلی بار موقع ملے گا کہ وہ نئے امریکی وزیرخارجہ ٹلرسن سے یہ پوچھ سکیں کہ آیا واشنگٹن شام کے صدر بشارالاسد کو اقتدار سے علیحدہ کرنے کے عزم پر قائم ہے یا نہیں۔
صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے رواں سال کے اوائل میں اقتدار میں آنے کے بعد یہ کہا تھا کہ وہ بیرونی دنیا میں مداخلت کی بجائے امریکی مفادات پر زیادہ توجہ دیں گے۔
لیکن گزشتہ ہفتے شام ایک فضائی اڈے پر امریکی کروز میزائل حملے کیے گئے جو کہ ٹرمپ انتظامیہ کے مطابق مبینہ طور پر شامی فورسز کی طرف سے عوام کے خلاف کیے گئے کیمیائی حملے کا ردعمل تھا۔
عہدیداروں کو توقع ہے جی سیون کا یہ اجلاس شام کے تنازع کے سفارتی حل کا بھی ایک موقع فراہم کر سکتا ہے۔