گلبدین حکمت یار کو اصل شہرت اس وقت ملی جب انھوں نے 1970 کی دہائی میں حزبِ ِ اسلامی قائم کی۔اگرچہ اس جماعت کی ابتدا یونیورسٹی کے طالب علموں نے کی تھی لیکن حکمت یار کی اس چھاپہ مار تنظیم کو جلد ہی 1979 میں افغانستان پر حملہ کرنے والی سوویت فوجوں کے خلاف جنگ میں نمایاں مقام حاصل ہو گیا۔اگلی دہائی میں امریکہ نے سوویت فوجوں کو شکست دینے کے لیے خفیہ طور پر اربوں ڈالر کی رقم خرچ کی ۔ یہ پیسہ پاکستانی فوج کی انٹر سروسز انٹیلی جینس یا آئی ایس آئی کے ذریعے دیا گیا تھا اور اس کا بڑا حصہ حکمت یار کو ملا۔
1980 کی دہائی میں آئی ایس آئی کے ڈائریکٹر جنرل حمید گُل تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ وہ حکمت یار کو اچھی طرح جانتے ہیں۔ انھوں نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ مجاہدین کے یہ پشتون لیڈریونیورسٹی میں انجینیئرنگ کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے داخل ہوئے تھے۔ اس وقت یہ پاکستان اور امریکہ دونوں کے لیے بہت اہم تھے ۔
لیکن حمید گُل نے بتایا کہ امریکہ پر تنقید کرنے میں حکمت یار ہمیشہ پیش پیش رہتے تھے ۔ وہ کہتے ہیں کہ شاید یہ بات ان کی سرشت میں ہے کہ اب وہ حکومت میں حصہ لینے کے لیے افغان حکومت کے ساتھ مذاکرات کے لیے تیار ہیں۔ ’’وہ سیاسی طور پر ہمیشہ دور کی سوچتے ہیں۔ ان کی شخصیت بڑی سحر انگیز ہے اور ان کی حزب اسلامی بہت منظم جماعت ہے۔ میرے خیال میں وہ اب بھی اپنے گرد بہت سے لوگوں کو جمع کر سکتے ہیں۔‘‘
لیکن کابل میں قائم افغان رائٹس مانیٹر Afghan Rights Monitor کے اجمل صمدی کی رائے اس عسکریت پسند لیڈر کے بارے میں اتنی اچھی نہیں۔ جب سوویت روس نے افغانستان سے اپنی فوجیں واپس بلا لیں تو افغان چھاپہ ماروں کو پیسہ ملنا بند ہو گیا۔ اس وقت حکمت یار نے ملک کا کنٹرول سنبھالنے کے لیے کابل میں باغیوں کے دوسرے دھڑوں سے جنگ شروع کر دی۔
صمدی بتاتے ہیں کہ حکمت یار نے کس سنگ دلی سے اپنی پوزیشن مضبوط کی۔انھوں نے کہا’’ان کے زیر کمان فورسز نے انتہائی سنگین جرائم کا ارتکاب کیا۔ مثال کے طور پر انھوں نے عورتوں کی آبرو ریزی کی، بچوں کو سپاہیوں کی طرح استعمال کیا، بچوں کا جنسی استحصال کیا، سویلین آبادی پر گولے برسائے، شہروں کا محاصرہ کر لیا اور لوگوں کو ضروری اشیاء کی فراہمی سے محروم کر دیا۔‘‘
ایک مختصر عرصے کے لیے 1990 کی دہائی میں وہ افغانستان کے وزیر اعظم بن گئے ۔ لیکن جب ان کے حریف ملا محمد عمر نے اپنے طالبان جنگجو ؤں کی مدد سے 1996 میں حکومت پر کنٹرول حاصل کر لیا تو حکمت یار ایران فرار ہو گئے ۔ بظاہر وہ ایران سے امریکہ پر دہشت گردوں کے 11 ستمبر 2001 کے حملے کے بعد نکل آئے ۔ اس کے فوراً بعد انھوں نے اپنے پرانے حریف طالبان کے ساتھ اتحاد کر لیا اور افغانستان پر امریکی حملے کی مخالفت میں کمر بستہ ہوگئے۔
2002 میں امریکہ نے ڈرون جہازوں سے حکمت یار کو نشانہ بنایا لیکن وہ بچ گئے ۔ اس کے بعد کے سال میں امریکہ نے حزب اسلامی کو دہشت گرد گروپ قرار دے دیا کیوں کہ اس گروپ نے القاعدہ اور طالبان کو دہشت گردی کی کارروائیوں میں مدد دی تھی۔تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ حالیہ برسوں میں حکمت یار پاکستان میں رہ رہے ہیں اور وہیں سے اتحادی اور افغان فوجوں کے خلاف مشرقی اور شمالی افغانستان میں کارروائیاں کرتے رہتے ہیں۔
داؤد سلطان زئی افغان پارلیمینٹ کے رکن ہیں۔ انھوں نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ایسا لگتا ہے کہ طالبان کے مقابلے میں حکمت یار حکومت سے مذاکرات کے لیے زیادہ رضامند ہیں۔’’طالبان کہہ رہے ہیں کہ ان کی ایک شرط یہ ہے کہ غیر ملکی فوجیں افغانستان سے واپس جائیں اور وہ افغانستان کا آئین قبول نہیں کریں گے۔ لیکن مسٹر حکمت یار، یا کم از کم ان کے مدد گار کارکن کہہ رہے ہیں کہ وہ ان تمام امور کے بارے میں بیٹھ کر بات کرنے کو تیار ہیں۔‘‘
امریکی عہدے داروں نے اس ہفتے صدر کرزئی اور حزب ِ اسلامی کے وفد کے ساتھ مذاکرات کا محتاط انداز میں خیر مقدم کیا۔ لیکن انھوں نے اس بات پر زور دیا کہ امن مذاکرات میں شامل گروپوں کو تشدد ترک کرنا ہوگا ، بغاوت کی حمایت ختم کرنی ہوگی، افغان آئین کے مطابق زندگی گذارنی ہوگی اور القاعدہ اور دوسرے دہشت گرد گروپوں کے ساتھ تعلقات منقطع کرنے ہوں گے۔
یہ بات ابھی واضح نہیں ہے کہ گلبدین حکمت یار یہ تمام شرائط ماننے کو تیار ہیں یا نہیں لیکن تجزیہ کار کہتے ہیں کہ کم از کم اتنا تو ہے کہ وہ بات چیت کے لیے تیار ہیں۔ اس کے ساتھ ہی یہ اندیشہ بھی ہے کہ افغان سویلین آبادی کے خلاف ان کے تشدد کے بارے میں جو کچھ مشہور ہے اس سے کرزئی انتظامیہ کو نقصان پہنچ سکتا ہے ۔