بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کے دارالحکومت سرینگر میں غیر ملکی سرمایہ کاروں کی چار روزہ کانفرنس عوامی اور تجارتی حلقوں میں موضوع بحث بنی ہوئی ہے۔ کانفرنس میں خلیجی ممالک سے تعلق رکھنے والے سرمایہ کاروں نے بھارتی کشمیر میں ریئل اسٹیٹ، انفراسٹرکچر، ہیلتھ کیئر، فوڈ پروسیسنگ سمیت دیگر شعبوں میں سرمایہ کاری کا جائزہ لیا۔
بھارتی حکومت کا دعویٰ ہے کہ پانچ اگست 2019 کے بعد کشمیر کی نیم خود مختار حیثیت ختم کرنے کے بعد کشمیر میں حالات بہتر ہو گئے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ بیرونی سرمایہ کار اب یہاں سرمایہ لگانے پر غور کر رہے ہیں۔
البتہ بھارتی کشمیر کے بعض سیاست دانوں اور علیحدگی پسند تنظیموں کا مؤقف ہے کہ ایسی کوششیں محض سراب ہیں۔
کانفرنس کا مقصد کیا ہے اور کون سے ممالک شریک ہیں؟
اس کانفرنس میں جسےحکومت نے 'خلیجی ممالک کا سرمایہ کاری اجلاس' کا نام دیا ہے متحدہ عرب امارات ، سعودی عرب اور ہانگ کانگ کے 30 سے زائد سرمایہ کار اور تجارتی اداروں کے نمائندے شرکت کر رہے ہیں۔
ان سے مقامی تاجروں کے ایک وفد نے جس کی قیادت کشمیر ایوانِ صنعت و تجارت کے صدر شیخ عاشق کررہے تھے دو نشستیں کیں۔
شیخ عاشق نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ "یہ کانفرنس ایک خوش آئند اقدام ہے۔ہمارے نوجوان انٹر پیونرز اور اسٹارٹ اپس نے ان سرمایہ کاروں کے سامنے اپنے منصوبوں کے خاکے پیش کیے۔
اُن کے بقول وہ اُمید کرتے ہیں کہ اس کانفرنس کے انعقاد سے کشمیر کی تاجر برادری کو فائدہ ہو گا۔
انہوں نے مزید کہا کہ "کشمیر ایوانِ صنعت و تجارت نے تجارتی وفود کا ہمیشہ خیر مقدم کیا ہے۔ ہمار ا نقطۂ نظر یہ ہے کہ اس طرح کے مواقع کو ہرگز نہیں کھونا چاہیے۔ جہاں تک خلیجی ممالک کے کاروباری افراد کی سری نگر میں آمد کا تعلق ہے ہم خوداس طرح کے اشتراک کے لیے کوششیں کرتے رہے ہیں۔"
منگل کو کانفرنس کے افتتاحی سیشن سے خطاب کرتے ہوئے بھارتی کشمیر کے انتظامی سربراہ لیفٹننٹ گورنر منوج سنہا نے کہا کہ اس کانفرنس سے غیر ملکی تجارتی وفود کو کشمیر میں سرمایہ کاری کرنے میں سہولت ہو گی۔
اُن کا کہنا تھا کہ کانفرنس میں بڑی کمپنیوں کے سربراہان، انٹر پیونرز، اسٹارٹ اپس اور دیگر ایکسپورٹرز کی شرکت اس بات کا مظہر ہے کہ جموں و کشمیر اور خلیجی ممالک کے درمیان تجارتی تعاون بڑھ رہا ہے۔
'پانچ اگست 2019 کے بعد کشمیر کے حالات بدل گئے ہیں'
منہوج سنہا نے دعویٰ کیا کہ 2014 میں جب سے نریندر مودی حکومت میں آئے ہیں، خلیجی ممالک اور بھارت کے تعلقات میں بہتری آئی ہے اور اب یہ اشتراکِ عمل جموں و کشمیر تک وسعت پا رہا ہے۔
اس سے قبل بھارتی وزیرِ خزانہ نرملا سیتھا رمن نے رواں ہفتے بھارتی پارلیمنٹ سے خطاب میں دعویٰ کیا تھا کہ کشمیر کی نیم خود مختار حیثیت ختم کرنے کے بعد یہاں بیرونی سرمایہ کاروں کے لیے نئی راہیں کھل گئی ہیں۔
اُن کا کہنا تھا کہ کشمیر میں تشدد کے واقعات میں کمی ہوئی ہے جس سے سرمایہ کاروں کو ایک محفوظ ماحول میسر آیا ہے۔
منوج سنہا نے اس کی توثیق کرتے ہوئے کہا "ہم نے گزشتہ دو برس میں ایک مربوط حکمتِ عملی کے تحت کام کیا ہے اور جموں و کشمیر میں دستیاب بے پناہ قدرتی وسائل اور اقتصادی استعداد کو استعمال کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔
اُن کا کہنا تھا کہ وزیرِ اعظم نریندر مودی اور وزیرِ داخلہ اُمت شاہ کی قیادت میں بھارتی کشمیر میں سرمایہ کاروں کو سہولت دی گئی ہے جس سے اُن کی حوصلہ افزائی ہوئی اور وہ وہاں سرمایہ لگانے پر آمادہ ہو رہے ہیں۔
بھارتی کشمیر کے حکام کا دعویٰ ہے کہ اس برس تک کشمیر میں 70 ہزار کروڑ روپے سے زائد کی بیرونی سرمایہ کاری کے منصوبوں کی پیشکش کی جا چکی ہے۔ دبئی ایکسپو میں بھی چھ سمجھوتوں پر دستخط ہوئے جس سے بھارتی کشمیر میں سرمایہ کاری کا دروازہ کھل گیا ہے۔
کون کہاں اور کس میں سرمایہ کاری کررہا ہے؟
بھارتی کشمیر کے گورنر منہوج سنہا کا کہنا تھا کہ امارات کی سرکردہ کمپنیاں المایا گروپ،ماتو انوسٹمنٹس ایل ایل سی، سینچری فنانشل، نون ای۔کامرس وغیرہ جموں و کشمیر میں سرمایہ کاری کر رہی ہیں ۔
اس کے علاوہ جہاں متحدہ عرب امارات کی سب سے بڑی رئیل اسٹیٹ کمپنی دی ایمار گروپ سری نگر میں پانچ لاکھ مربع فٹ پر پھیلا ایک شاپنگ مال تعمیر کرےگا وہیں لُو لُو گروپ نے جموں و کشمیر میں ایک فوڈ پروسیسنگ یونٹ قائم کرنے کے لیے چھ سو ملین روپے کی سرمایہ کاری کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
سینچری فنانشل نے جس کے مالک اتفاق سے جموں و کشمیر کے ضلع ڈوڈہ سے تعلق رکھنے والے تارکِ وطن بال کرشن ہیں تین لگژری ہوٹل اور ایک کمرشل رہائشی کمپلکس تعمیر کرنے کے لیے100 ملین امریکی ڈالر کی سرمایہ کاری کی حامی بھر لی ہے۔
حکام کا دعویٰ ہے کہ دبئی کی مشہور کمپنی ڈی پی ورلڈ نے کشمیر میں ان لینڈ پورٹ بنانے کی حامی بھری ہے جس کے لیے اسے 250 ایکڑ اراضی فراہم کی جا رہی ہے۔
جموں و کشمیر کے چیف سیکریٹری ڈاکٹر ارون کمار مہتا نے کہا کہ یہ منصوبے اور دیگر بیرونی سرمایہ کاری نہ صرف مقامی نوجوانوں کے لیے روز گار کے بہترین مواقع فراہم کریں گے بلکہ صنعتی اور زرعی شعبوں میں انقلابی تبدیلیوں سے کشمیر میں خوشحالی آئے گی۔
سینچری فنانشل کے سربراہ بال کرشن نے جو غیر ملکی وفد کی قیادت کر رہے ہیں کہا "ہم یہاں سرمایہ کاری کے لیے ایک صاف ستھری ذہنیت کے ساتھ آئے ہیں اور اس کا بھرپور انداز میں پُرخلوص مظاہرہ کر رہے ہیں۔
دبئی کے ایک سرکردہ تاجر عبد اللہ الشعبانی نے کہا " سرمایہ کاری کے نقطۂ نظر سے جموں و کشمیر مواقع کی سرزمین ہے۔ انہوں نے وفد کی جانب سے جموں و کشمیر کے ایکسپورٹ سیکٹر کے لیے مکمل حمایت کا اعلان کردیا۔
'سرکاری دعوے فقط ایک سراب'
ادھر حزبِِ اختلاف کی جماعتوں کے ایک اتحاد پیپلز الائنس فار گپکار ڈیکلریشن نے جموں و کشمیر میں بیرونی سرمایہ کاری کے ان تمام اعلانات اور اقدامات کو ایک سراب قرار دیا ہے۔
اتحاد کے ترجمان اور بھارت کی مارکس وادی کمیونسٹ پارٹی کے مقامی لیڈر محمد یوسف تاریگامی نے کہا "یہ سرمایہ کاری چاہے یہ بھارت کے اندر سے کی جارہی ہو یا بیرونی ممالک کی کمپنیوں کی طرف سے زیادہ تر رئیل اسٹیٹ میں کی جا رہی ہے اور آپ جانتے ہیں کہ پورے ملک (بھارت) میں رئیل اسٹیٹ کا کیا حال ہے۔"
تاریگامی نے استفسار کیا " ایک ایسے شعبے میں جو ملکی سطح پر ایک بحران سے گزر رہا ہو سرمایہ کاری سے جموں و کشمیر میں بے روزگاری کے بہت بڑے مسئلے کو حل کرنے میں مدد گارہونے کی توقع کیسے کی جاسکتی ہے"؟
بعض سیاسی اور عوامی حلقے حکومت کی بیرونی سرمایہ کاروں کو راغب کرنے کی کوششوں پر شکوک و شہبات کا اظہار کر رہے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ پانچ اگست 2019 کے اقدامات اورپہلے سے موجود قوانین بالخصوص ڈومیسائل اور اراضی سے متعلق قوانین میں رد وبدل کرنے کا مقصد مقامی آبادی کو بے اختیار کرنا ہے۔
حزبِ اختلاف کی دو بڑی بھارت نواز علاقائی جماعتیں نیشنل کانفرنس اور پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی اور استصواب رائے کا مطالبہ کرنے والی کشمیری جماعتوں کا اتحاد حریت کانفرنس بر ملا طور پر یہ الزام لگاتی آئی ہیں کہ ان اقدامات کا مقصد مسلم اکثریتی ریاست کی آبادیات کو تبدیل کرنا ہے۔ مختلف عسکری تنظیموں کا بھی یہی موؐقف رہا ہے۔
خدشات کا اظہار دور کی کوڑی لانے کے مترادف
بعض ناقدین جموں و کشمیر میں بیرونی سرمایہ کاری اور اس جیسے دوسرے اقدامات کو اسی پس منظر میں دیکھ رہے ہیں لیکن حکومتی عہدیداروں کا کہنا ہے کہ محض سیاسی مقاصد کے تحت دور کی کوڑی لانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
شیخ عاشق کا کہنا ہے "ہمیں یقین دلایا گیا ہے کہ بیرونی سرمایہ کاری میں شفافیت کا مظاہرہ کیا جائے گا، ہمیں کسی کی نیت پر شک کرنا چاہیے اور نہ قبل از وقت نتائج اخذ کرنے چاہئیں۔
محکمہ انڈسٹریز اینڈ کامرس کے پرنسپل سیکریٹری رنجن پرکاش ٹھاکر نے وضاحت کی کہ بیرونی سرمایہ کاروں کے لیے جو دو ہزار ایکڑ زمین مختص کی گئی ہے اور جس کے چھ ہزار ایکڑ تک پہنچنے کا امکان ہے وہ ساری کی ساری سرکاری زمین ہے۔
انہوں نے کہا " ہم انہیں صرف سرکاری زمین الاٹ کررہے ہیں۔ اگر عام لوگ بھی بیرونی سرکایہ کاری کے منصوبوں کے لیے اپنی اراضی دینا چاہیں وہ ایسا کرسکتے ہیں لیکن ایسا صرف ان کی رضامندی سے ہوگا۔