عرب خلیجی ملک متحدہ عرب امارات اور بحرین کے ساتھ اسرائیل کے سفارتی تعلقات قائم ہونے کے بعد ان ریاستوں میں اب یہودی کمیونٹی زندگی کے مختلف شعبوں میں نظر آنا شروع ہو گئی ہے، جب کہ اس سے پہلے وہ خود کو ظاہر کرنے میں اجتناب کرتی تھی۔
خبر رساں ادارے ایسو سی ایٹڈ پریس کی ایک رپورٹ کے مطابق اب ان ریاستوں میں کوشر فوڈ ملنا شروع ہو گیا ہے۔ یہودی تہوار بھی کھلے عام منائے جارہے ہیں۔ یہودیوں کی شادی بیاہ اور طلاق کے فیصلوں کے لیے ان کی مذہبی عدالت نے بھی کام شروع کر دیا ہے۔
بحرین میں حال ہی میں یہودیوں کے ایک تہوار کی ورچوئل تقریب کی میزبانی کرنے والے ہہودی کمیونٹی کے ایک رہنما ابرہیم نورو نے اے پی سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ حالات آہستہ آہستہ بہتر ہو رہے ہیں۔
نورو خلیجی ریاستوں میں یہودی کمیونٹی کی ایسوسی ایشن کے بانی ارکان میں شامل ہیں۔ اس تنظیم کے قیام کا مقصد خلیجی علاقے میں یہودی کمیونٹی کی قبولیت کے فروغ کے لیے کام کرنا ہے۔
نورو جو بحرین کی پارلیمنٹ کے ایک رکن بھی رہ چکے ہیں، کہتے ہیں کہ آپ کچھ عرصے کے بعد خلیجی ریاستوں میں یہودی یا کوشر ریستوران بھی دیکھیں گے۔
یہودیوں کے ایک مذہبی رہنما ایلی عبادی جو ایک سینئر ربائی بھی ہیں، کہتے ہیں کہ ان کےخیال میں اس علاقے میں یہودیوں کے لیے مزید دروازے کھلیں گے اور یہودی کمیونٹی اور ان کی ثقافت کی موجودگی کو قبول کیا جائے گا۔
یہودیوں کی ایسوسی ایشن کا کہنا ہے کہ وہ کویت، اومان، بحرین، سعودی عرب، قطر اور متحدہ عرب امارات میں موجود یہودیوں کی چھوٹی چھوٹی کمیونٹیز کو رہنمائی، مدد اور خدمات فراہم کرے گی، جس میں، مذہی تقریبات و تہوار کا انتظام و بندوبست اور ہوٹلوں، گراسری اسٹوروں اور ریستورانوں کے لیے کوشر کے سرٹیفیکٹ جاری کرنا بھی شامل ہے۔
خلیجی ریاستوں میں سب سے زیادہ یہودی کمیونٹی متحدہ عرب امارات میں ہے، جس کی تعداد ایک ہزار کے لگ بھگ ہے۔ یہ اس علاقے کی سب سے نئی کمیونٹی ہے۔ ربائی ایلی کہتے ہیں کہ اس کمیونٹی کے تقریباً 200 کے لگ بھگ ارکان متحرک ہیں۔ جب کہ باقی منظر عام پر آنے سے گریز کرتے ہیں۔
عرب ریاستوں میں اس وقت مصریوں، فلسطینیوں، لبنانیوں اور پاکستانیوں کی اکثریت ہے۔ ماضی میں اسرائیل کے ساتھ کشیدہ تعلقات کی وجہ سے یہاں یہودیوں کے لئے گنجائش کم رہی ہے۔ حتیٰ کہ یہاں سرکاری دستاویزات کے مذہب کے خانے میں یہودی مذہب کا اندراج ہی نہیں ہے۔
تاہم حالیہ مہینوں میں اسرائیل کو تسلیم کرنے، اس کے ساتھ سفارتی رابطوں کی بحالی اور عرب رہنماؤں کی سوچ میں تبدیلی کے باعث صورت حال رفتہ رفتہ یہودی کمیونٹی کے حق میں بہتر ہو رہی ہے۔
نیویارک کی ایک ٹی وی ڈائریکٹر جین کینڈیاٹ جو کئی سال دبئی میں گزار چکی ہیں، کہتی ہیں کہ جب میں دبئی میں تھی تو ہم اپنی مذہبی شناخت کو پوشیدہ رکھتے تھے۔ ہم اس بارے میں بہت حساس تھے کہ ہم ایک مسلم اکثریتی علاقے میں رہ رہے ہیں اور یہ کہ کیا دوسرے لوگ ہمیں قبول کرنے کے لیے تیار ہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ اب حالات ماضی سے مختلف ہیں۔ اب ہم یہاں کسی قدر آزادی سے اپنی تقریبات منعقد کر سکتے ہیں، ان میں شریک ہو سکتے ہیں۔ اب یہاں بھی یہودی اپنے روایتی انداز میں زندگی گزار سکتے ہیں۔
تاہم ابھی حالات پوری طرح ساز گار نہیں ہوئے۔ کچھ پڑوسی ملکوں میں سوچ کی تبدیلی کی رفتار بہت سست ہے۔. سعودی عرب اور قطر پر ایک طویل عرصے تک نصابی کتب میں اینٹی سمیٹک، یا یہودیت مخالف مواد شامل کرنے کے لئے تنقید کی جاتی رہی۔
سیکیورٹی خدشات بھی بدستور موجود ہیں۔ حالیہ عرصے میں خلیج فارس میں اسرائیل کے ایک بحری جہاز پر حملہ ہوا تھا جس کا الزام اسرائیل نے ایران پر لگایا تھا۔ مگر ایران نے یہ الزام مسترد کر دیا۔
لیکن ان خدشات کے باوجود حالات میں تبدیلی آ رہی ہے اگرچہ اس کی رفتار سست ہے۔