پاکستان کے صوبہ بلوچستان میں واقع گوادر بندرگاہ مکمل ہونے کے قریب ہے اور آئندہ برس گوادر کے ذریعے ہونے والی تجارت کا حجم دگنا ہو جائے گا۔
خبررساں ادارے ’روئیٹرز‘ سے ایک انٹرویو میں گوادر بندرگاہ چلانے والی چائنا اوورسیز پورٹس ہولڈنگ کمپنی لمیٹڈ کے چیئرمین ژانگ باؤزونگ نے کہا ہے کہ انہیں توقع ہے کہ آئندہ سال یہاں سے دس لاکھ ٹن سامان کی ترسیل ہو گی۔
چین کی کمپنی نے 2013 میں گوادر بندرگاہ کا انتظام سنبھالا تھا۔
بحیرہ عرب کے ساحل پر واقع یہ بندرگاہ چین کی طرف سے 46 ارب ڈالر کی خطیر سرمایہ کاری سے زیر تعمیر چین پاکستان اقتصادی راہداری میں کلیدی حیثیت رکھتی ہے۔
روئیٹرز کے مطابق آئندہ سال یہاں آنے والا بیشتر سامان اقتصادی راہداری کی تعمیر میں استعمال ہو گا جو چین کے مغربی صوبے سنکیانگ کو گوادر سے سڑکوں، ریلوے لائنوں، اور تیل اور گیس کی پائپ لائنوں کے ذریعے منسلک کرے گی۔
اقتصادی راہداری مکمل ہونے کے بعد چین کے مغربی صوبے پاکستان کے ذریعے سمندر پار منڈیوں سے تجارت کر سکیں گے۔
تاہم کاروباری شخصیت اور افغانستان پاکستان جوائنٹ چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے شریک چیئر مین زبیر موتی والا نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا ہے اگر آئندہ سال گوادر سے ہونے والی تجارت حجم 100 فیصد بھی بڑھا دیا جائے تو یہ قابل ذکر اضافہ نہیں ہو گا کیونکہ موجودہ حجم نہایت کم ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ موجودہ صورتحال میں سب سے بڑا مسئلہ سڑکوں اور سامان کی نقل وحمل کا ہے کیونکہ راہداری سے متعلق منصوبے ابھی زیر تعمیر ہیں۔
انہوں نے کہا کہ منصوبہ کا پہلا مرحلہ 2018 میں مکمل ہو گا جبکہ دیگر باقی کام 2020-21 تک مکمل ہونے کی توقع ہے۔
گوادر بندرگاہ بلوچستان کے جنوب میں واقع ہے جو طویل عرصہ سے شورش کا شکار رہا ہے۔
پاکستان کی سکیورٹی فورسز نے چین پاکستان اقتصادی راہداری منصوبے کی حفاظت کے لیے ایک خصوصی فورس بنانے کا وعدہ کیا تھا اور اس کے لیے 15 ہزار جوانوں پر مشتمل ایک سپیشل سکیورٹی ڈویژن بھی تشکیل دی جا چکی ہے
منگل کو پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف نے گوادر میں ایک سیمینار سے خطاب میں دشمن طاقتوں کی طرف سے اس منصوبے کو نقصان پہنچانے کی کوششوں کا تذکرہ کرتے ہوئے اس عزم کا اظہار کیا تھا کہ اسے ہر صورت میں پایہ تکمیل تک پہنچایا جائے گا۔