دنیا بھر سے آئے ہوئے20 لاکھ سے زائد حجاج نے آج میدان عرفات میں حج کا سب سے بڑا رکن وقوف اداکیا اور ظہرو عصر کی نمازیں ادا کیں۔مفتی اعظم سعودی عرب شیخ عبد العزیز بن عبد اللہ آل الشیخ نے مسجد نمرہ میں حج کا خطبہ دیا اور دونوں نمازوں کی امامت کی۔
میدان عرفات اور حرم کی حد پر واقع مسجد نمرہ کا کل رقبہ ایک لاکھ 24 ہزار مربع میٹر ہے اور اس میں بیک وقت تین لاکھ افراد کے نماز ادا کرنے کی گنجائش ہے۔یہ مسجد پورے سال کے د وران صرف ایک مرتبہ ہی کھولی جاتی ہے جہاں 9ذوالحجہ کو لاکھوں افراد ظہر اور عصر کی نمازیں اکٹھی اور قصر ادا کرتے ہیں۔
شیخ عبد العزیز بن عبد اللہ آل الشیخ نے اپنے خطبہ حج میں کہا کہ دین اسلام عدل وانصاف پر قائم ہے جس میں انتہاپسندی، ظلم اور دہشت گردی کی کوئی گنجائش نہیں۔انہوں نے انتہا پسندی اور دہشت گردی کی پرزورمذمت کی۔ان کا کہنا تھا کہ اسلام میں کسی بھی انسان کا ناحق خون بہانے اور فساد پھیلانے والوں کو سخت سزا دینے کی تنبیہ کی گئی ہے۔
سعودی عرب کے 70سالہ مفتی اعظم الشیخ عبد العزیز بن عبد اللہ آل الشیخ گزشتہ 30سال سے میدان عرفات میں و اقع مسجد نمرہ میں حج کا خطبہ دے رہے ہیں۔ انہوں نے پہلی مرتبہ 1981ء میں حج کا خطبہ دیا تھا اور یہ سلسلہ آج تک جاری ہے۔وہ 1940ء میں سعودی دارالحکومت ریاض میں پیدا ہو ئے - انہوں نے12سال کی عمر میں قرآن پاک حفظ کیا اور 22 سال کی عمرمیں امام الدعوہ انسٹیٹیوٹ سے شرعیہ میں گریجویشن کی ۔
انہیں1995ء میں سعودی عرب کا نائب مفتی اعظم جبکہ 1999 میں مفتی اعظم مقرر کیا گیا۔ وہ پیدائشی طور پر ہی کم نظری کا شکار تھے تاہم1960ء میں بینائی سے مکمل طور پر محروم ہوگئے۔ مفتی اعظم کی دلچسپی اور ترجیحات میں اسلامی دنیا کے بحران ، مسائل کی آگاہی اور زندگی کے تمام شعبوں ایسے امور کی نشاندہی کرنا ہے جن کی اصلاح کی ضرورت ہے۔ شیخ اپنے خطبے میں مسلمانوں کی یک جہتی، باہمی اختلافات کے خاتمے اور میڈیا کے مثبت کردار کے ساتھ ساتھ خواتین کی آزادی کے نعرے کی حقیقت بھی بیان کرتے ہیں۔
مناسک حج کی ادائیگی کے تیسرے روز حجاج کل یعنی منگل کومصروف ترین دن گزاریں گے۔نماز فجر کے بعد مزدلفہ سے واپس منیٰ پہنچ کر بڑے شیطان کو سات کنکریاں ماریں گے ، شکرانہ حج کے طور پر جانور ذبح کریں گے اور پھر سر کے بال کٹوا یا منڈوا کر احرام کھول دیں گے۔
بعد ازاں وہ سادہ کپڑوں میں ملبوس ہو کر حج کے ایک اور لازمی رکن طواف افاضہ کے لئے مکہ جائیں گے، کعبہ کے گرد سات چکر لگائیں گے اور مقام ابراہیم پر دو نوافل ادا کرنے کے بعدحضرت حاجرہ کی سنت تازہ کرنے کے لئے صفا و مروہ کی سعی کریں گے۔ حجاج کرام منگل کی رات واپس منیٰ آ کر بسر کریں گے۔
مناسک حج کے سلسلے میں حاجیوں کی طرف سے شیطان کو تین دن علامتی طور پر کنکریاں مارنے کے دوران حادثات کی روک تھام کے لئے سعودی عرب کی حکومت نے سوا چار ارب ریا ل کی لاگت سے وادیِ منیٰ میں 950میٹر طویل اور 80میٹر چوڑے پانچ منزلہ جمرات پل کمپلیکس کی تعمیر مکمل کر لی ہے۔ حاجیوں کے یہاں آنے اور واپس جانے کے لئے12 علیحدہ علیحدہ داخلی اور خارجی راستے بنائے گئے ہیں- یہاں ایک گھنٹے دوران تین لاکھ افراد کے رمی کرنے کی گنجائش ہے اور اس سا ل دنیا بھر سے آنے والے 25لاکھ سے زائد حاجی یہ پل استعمال کر سکیں گے۔
سعودی وزارت حج نے تمام معلمین کو ہدایت کی ہے کہ کنکریاں مارنے کے لئے حاجیوں کو طے شدہ شیڈول کے مطابق روانہ کیا جائے تا کہ جمرات پل پر اکٹھے ہونے والے حاجیوں کے ہجوم کو کنٹرول کیا جا سکے۔ جمرات کی چار منزلوں پر درجہ حرارت 24سے 29سینٹی گریڈ کے درمیان رکھنے کے لئے 360نئے کولر نصب کئے گئے ہیں جبکہ بالائی منزل پرشیڈ بنایا گیا ہے۔
سعودی عرب کے شاہ عبد اللہ بن عبد العزیز کی ہدایت پر اس کثیر المنزلہ منصوبے پر کام کا آغاز 2006ء میں کیا گیا تھا جب حج 1426ھ کے دوران 12 جنوری2006ء کو رمی جمرات کے موقع پر یہاں بھگدڑ کے نتیجے میں 346افراد جاں بحق اور289زخمی ہو گئے تھے۔ منصوبے کا گراؤنڈ اور فرسٹ فلور دسمبر 2006ء یعنی حج 1427ھ سے قبل تیار کر لیا گیا تھا جس کے بعد یہاں کوئی حادثہ رو نما نہیں ہوا۔
اس منصوبے کی تعمیر شروع ہونے سے قبل یہاں1963 میں تعمیر کیا جانے والا صرف ایک منزلہ پل واقع تھا جو ہر سال حاجیوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کے پیش نظر ناکافی ہو چکا تھا اور حج کے موقع پر بھگدڑ کے باعث سینکڑوں افراد جاں بحق ہو گئے تھے۔
حج کے موقع پر لاکھوں حجاج کو جانور ذبح کرنے کی سہولت مہیا کرنے اور ان جانوروں کا گوشت استعمال میں لانے کے لئے سعودی حکومت نے اسلامی ترقیاتی بینک کے تعاون سے اجتماعی قربانیوں کا انتظام کیا ہے۔حاجیوں کو جانور خود ذبح نہیں کرنے پڑتے بلکہ ان کی طرف سے قربانی کر کے انہیں قربانی کے وقت سے آگا ہ کر دیا جاتا ہے تا کہ وہ احرام کھول سکیں۔
حج کے دوران ذبح کئے جانے والے لاکھوں جانوروں کا گوشت استعمال میں لانے کے لئے سعودی عرب میں قربانی کے گوشت سے استفادے کا پراجیکٹ 1403ہجری میں شروع کیا گیا تھا جس کے تحت قربانی کا گوشت افغان مہاجرین کو ارسال کیا جاتا تھا اور اب یہ دنیا کے مختلف ملکوں میں ضرورت مند مسلمانو ں کو بھیجا جاتا ہے۔
حجاج 10 سے 12 ذوالحجہ کے دوران صفا اور مروہ پہاڑیوں کی سعی بھی کریں گے۔ مسجد الحرام کی انتظامیہ کے مطابق تین ارب ریال کی لاگت سے صفا اور مروہ کے درمیان سعی (تیز تیز چلنے ) کے راستے مسعٰی کی توسیع کا منصوبہ مکمل کرلیا گیا ہے۔ 390 میٹر طویل اور 20 میٹر چوڑے اس راستے کو گراؤنڈ اور فرسٹ فلور پر مزید 20 میٹر چوڑا کرنے کے ساتھ اس عمارت کا میزنائن اورسیکنڈ فلور بھی تعمیر کیا گیا ہے۔ منصوبے کی تکمیل کے نتیجے میں عمارت کی گنجائش میں تین گنا اضافہ ہو گیا ہے اور اب یہاں ایک گھنٹے کے دوران 44 ہزار کی بجائے ایک لاکھ 18 ہزار افراد باآسانی سعی کرسکتے ہیں۔
توسیع کے بعد مسعٰی کی عمارت تہہ خانے سمیت پانچ منزلہ ہوگئی ہے۔ سعی کے لئے عمارت کی بالائی منزلوں پر جانے کے لیے متعدد جدید ترین ہیوی ڈیوٹی لفٹس نصب کی گئی ہیں جن میں داخلے اور باہر نکلنے کے لئے علیحدہ علیحدہ دروازے بنائے گئے ہیں تا کہ زائرین آپس میں نہ ٹکرائیں۔
تمام منزلوں پر ضعیف بیمار اور معذور افراد کے زیر استعمال وہیل چیئرز کے لیے خصوصی راستے بنانے کے علاوہ خود کار بیلٹیں بھی چلائی جاتی ہیں۔ انتظامیہ نے ہاتھ سے کھینچی جانے والی 10 ہزار وہیل چیئرز مہیا کردی ہیں جو باب صفا کی پہلی منزل سے بلامعاوضہ حاصل کی جاسکتی ہیں۔ اس کے علاوہ ایک سو آٹومیٹک وہیل چیئرز بھی فراہم کی گئی ہیں جو 50 ریال کرایے کے عوض دستیاب ہیں ۔ عمارت کا 95 میٹر بلند مینار تعمیر کرنے کے علاوہ پہلے سے موجودگنبد کے پھیلاؤ میں مزید اضافہ کیا گیا ہے ۔ توسیع کے بعد اس جگہ کا رقبہ 29ہزار چار سو مربع میٹر سے بڑھ کر 87 ہزار مربع میٹر ہو گیا ہے اور یہاں ایک وقت میں ایک لاکھ15ہزار افراد نماز ادا کر سکتے ہیں۔قبل ازیں یہاں صرف 42ہزار افراد بیک وقت نماز اداکر سکتے تھے۔
مسعٰی کے اس توسیعی منصوبے پر کام کا آغاز 9 فروری 2007 ء کو کیاگیا تھا اور اس کی تکمیل کے لیے تین ہزار سے زائد ہنر مند اور غیر ہنر مند کارکن مختلف شفٹوں کے دوران 24 گھنٹے مصروف عمل رہے ۔
1953ء سے قبل صفا اور مروہ کا درمیانی راستہ مسجد الحرام کے باہر تھا اور اس پر واقع مکانات اوردکانوں وغیرہ کی وجہ سے سعی کرنے والوں کو مشکلات درپیش تھیں تاہم مملکت سعودی عرب کے بانی شاہ عبد العزیز کی ہدایت پر تمام مکان اور دکانیں خرید کر اس جگہ کو مسجد کے مشرقی حصے کے ساتھ منسلک کر دیا گیا۔