کشمیر میں جاری تنازعے کے باعث ہزاروں کی تعداد میں لوگ موت کے منہ جا چکے ہیں تاہم اسکے ساتھ ساتھ کافی تعداد میں افراد مبینہ طور پر لاپتہ یا غائب ہیں، ان کمشدگیوں کے لیے بھارتی سیکورٹی فورسز کو موردِ الزام ٹھرایا جاتا ہے۔ بیشتر لاپتہ افراد کے گھر والے آج بھی ان کی واپسی کے منتظر ہیں جن میں بعض نیم بیوائیں بھی شامل ہیں۔ ان خواتین کو اپنے شوہروں کے زندہ یا مردہ ہونے کا علم نہیں۔ یہ ہر روز ان کی راہ تکتی ہیں۔ ایسی خواتین جن کے شوہر مبینہ طور پر بھارتی سکورٹی فورسز کی طرف سے لاپتہ کیے گئے انہیں نیم بیوائیں کہا جاتا ہے۔
نیم بیواوں کے لیے 2013 میں کشمیر کے مسلم علماء کے ایک حلقے نے فتویٰ جاری کیا تھا جس کے مطابق ایسی خواتین جنہیں اپنے شوہر کے بارے زندہ ہونے کے بارے میں کوئی معلومات نہیں وہ چار سال تک انتظار کے بعد دوبارہ شادی کر سکتی ہیں ۔
لیکن اس فتویٰ کے بعد بھی نئی دہلی کے زیرِ انتظام کشمیر میں ہزاروں کی تعداد میں ایسی بیوائیں موجود ہیں جنہوں نے اپنے شریک حیات کے انتظار میں عمریں گزار دی ہیں۔
اس موضوع پر حال ہی میں ہدایت کار دانش رینزو ہاف نے ہاف ویڈو کے نام سے ایک فلم بنائی ہے۔
دانش رینزو نے وائس اف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ “میں خود کشمیر میں پیدا ہوا اور وہاں پر سارا بچپن گزارا۔ پھر پڑھائی کے لئے امریکہ آیا ۔ چونکہ مجھے بچپن سے فلم بنانے کا شوق تھا تو کشمیر کے مسائل پر فلمیں بنانا شروع کیں۔”
وہ کہتے ہیں کہ پچھلے سال کشمیر میں ان کی ملاقات نیم بیوہ خواتین کی مدد کرنے والی سماجی کارکن پروینہ آہنگر سے ہوئی ۔ ان کی اپنے بیٹے بھی لاپتہ ہیں اور وہ گزشتہ 25 سال سے ان کی اطلاع حاصل کرنے کی کوشش کر رہی ہیں ۔ “ ان سے مل کر اور لوگوں کو دیکھ کر مجھے ایسا لگا کہ کچھ کرنا چاہئے ۔”
دانش کا مزید کہنا تھا کہ میرا مقصد اس ناانصافی کو سامنے لانا اور یہ بتانا ہے کہ اگر انسان ایسے واقعات کا شکار ہوجائے تو وہ آگے کیسے بڑھے اور زندگی میں امید کیسے لائے۔
اس فلم کی کاسٹ کشمیری ہے، اور دانش کو یقین ہے کہ اس فلم سے وہاں کے سنیماگھروں میں رونق لوٹ آئے گی۔ دانش کے بقول “ میں نے کشمیر میں پروڈکشن ہاوس کھول دیئے جو کے میرا خواب تھاکہ کشمیر میں فلم میکنگ کو واپس لایا جائے جن میں کشمیریوں کی شمولیت ضروری ہے۔ تو ہم نے اس خوبصورت وادی میں شوٹنگ مکمل کی ۔صرف آخری کے پانچ ،چھ دن ہڑتال اور کر فیو کی وجہ سے کا فی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔”
ان کا مزید کہنا تھا کہ اس فلم کی کہانی ایک ایسی عورت کی کہانی ہے جس کا شوہر غائب کیا جاتا ہے وہ اگلے پانچ چھ سال بہت کرب اور مشکلات میں گزارتی ہے لیکن اسے امید ہوتی ہے کہ ایک نہ ایک دن اس کا شوہر واپس لوٹ آئے گا ۔اور اسی طرح زندگی کے نشیب وفراز کے ساتھ مسلسل جدو جہد کے ساتھ سے زندگی گزار تی ہے۔
اس فلم میں مرکزی کردار ادا کرنے والی نیلوفر حامد کا کہنا ہے کہ “ فلم میں ایک نیم بیوہ کا کردار ادا کرنے کے لئے مجھے پہلے ان لوگوں سے ملنا پڑا جس کے ساتھ یہ سارے واقعات پیش آئے میں ہر روز جاتی تھی اور ان عورتوں سے ملتی تھی جن کے شوہر مبینہ طور پر لاپتہ کیے گئے ۔تین مہینوں تک مسلسل اس کردار میں اپنے آپ کو اتارنے کی کوشش کر رہی تھی۔
لاپتہ افراد کے بارے میں بھارتی حکومت کوئی واضع جواب نہیں دیتی۔ لیکن ریاستی حکومت کا کہنا ہے کہ ان میں سے اکثر افراد یا تو جنگجوں کے ساتھ مل گئے یا کنٹرول لائین پار کر کے پاکستان چلے گئے ہیں۔