رسائی کے لنکس

‘نیا تھانیدار آ گیا ہے’


‘نیا تھانیدار آ گیا ہے’
‘نیا تھانیدار آ گیا ہے’

اِس امریکی محاورے کو استعمال کرتے ہوئے، حسین حقانی دراصل یہ کہنا چاہتے تھے کہ مشرف کا ’ون مین شو‘ ختم ہو چکا ہے اور ’اب وہ نہیں ہو گا جو پہلے ہوتا تھا‘

پاکستان میں 2008 ءکے عام انتخابات کےنتائج آ چکے تھے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کی اکثریت واضح ہو چکی تھی۔ میں چند دیگر احباب کے ساتھ میری لینڈ میں اپنے ایک عزیز دوست کے گھر پر تھا جہاں پاکستانی انتخابات اور سیاست پر گفتگو ہو رہی تھی۔ امریکی نیوز میڈیا بھی پاکستان میں آنے والی سیاسی تبدیلیوں کی بھرپور کوریج کر رہا تھا۔

امریکی نیوز ٹی وی سی این این کے ایک پروگرام میں حسین حقانی کو پاکستان سے پروگرام میں شامل کیا گیا تاکہ نئی حکومت اور پی پی پی کی حکمتِ عملی پر بات کی جا سکے۔ واضح رہے کہ حسین حقانی اس وقت صدر آصف علی زرداری کے مشیر تھے۔ انہیں امریکہ میں سفارت کاری کی ذمہ داری نہیں سونپی گئی تھی۔

نیوز اینکر یہ جاننا چاہتا تھا کہ اب پاکستان اور امریکہ کا دہشت گردی کے خلاف جنگ کے لیے اتحاد کس رخ پر جائے گا۔ حسین حقانی نے اس اتحاد کی مضبوطی کا یقین دلانے کے بعد ایک امریکی محاورہ استعمال کیا اور کہا : There's a new sheriff in town

یعنی علاقے میں نیا تھانیدار آ گیا ہے۔ وہ یہ کہنا چاہتے تھے کہ مشرف کا ون مین شو ختم ہو چکا ہے۔ اور اب وہ نہیں ہو گا جو پہلے ہوتا تھا۔

صحافتی حلقوں میں سبھی لوگ یہ جانتے تھےکہ حسین حقانی کو واشنگٹن میں سفارت ملے گی۔ اپریل 2008 ءمیں حسین حقانی کو امریکہ میں پاکستان کا سفیر بنا دیا گیا۔ لیکن مبصرین کہتے ہیں کہ سفارتی ذمہ داریاں سنبھالنے کے کچھ ہی عرصے بعد حسین حقانی اور واشنگٹن میں مقیم پاکستانی کمیونٹی کے درمیان فاصلے بڑھنا شروع ہو گئے۔ اسی سال واشنگٹن میں پاکستانی امریکن ڈاکٹروں کی تنظیم اپنا کا سالانہ اجلاس ہوا جس میں حقانی صاحب کو بھی شرکت کی دعوت دی گئی تھی۔ پاکستان سے اعتزاز احسن شرکت کر رہے تھے۔ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری اور بقیہ جج ساحبان کو ابھی تک بحال نہیں کیا گیا تھا۔ جب اعتزاز احسن کو سٹیج پر بلایا گیا تو حاضرین نے ان کا پر جوش استقبال کیا۔ حسین حقانی کو استقبال بھی ویسا نہ ملا اور ان سے کچھ چبھتے ہوئے سولات بھی پوچھے گئے۔

حسین حقانی اپنی سفارتی ذمہ داریوں میں پیچھے نہیں تھے۔ انہوں نے پاکستان اور امریکہ کے تعلقات کو ایک نئی زندگی دینے کے لیے خوب محنت کی اور پاکستان اور امریکہ کے درمیان سٹرٹیجک مذاکرات حسین حقانی کی کوششوں کا ثبوت ہے۔ حسین حقانی کی کوششوں سے ہی پاکستان کو ایف سولہ طیاروں کی فراہمی ممکن ہوئی جو طویل عرصے سے رکی ہوئی تھی۔ انہی کی کوششوں سے گزشتہ سال امریکہ میں پاکستانی آموں کی درآمدکا آغاز ہوا۔

مگر ایمبسڈر حقانی نے ان ساڑھے تین سالوں میں کئی مشکل دن بھی دیکھے۔

پہلا موقع تھا کیری لوگر بل کا ، جس کے ذریعے امریکی کانگریس اور سینٹ نے پاکستان کے لیےغیر فوجی امداد کی اجازت دینی تھی جبکہ اسی بل میں پاکستانی فوج کو دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کے لیے دی جانے والی فوجی امداد کو مشروط کر دیا گیا اور کہا گیا کہ یہ امداد پاکستانی فوج کی کارکردگی کی بنیاد پر دی جائے۔

اس کے نتیجے میں پاکستان میں پاک امریکہ تعلقات اور ایمبسڈر حسین حقانی پر بحث اور تنقید کا آغاز ہوا پاکستان کی اپوزیشن اور حکومت کی اتحادی جماعتوں نے بھی اس بل اور امریکی امداد کی مخالفت کی۔ صحافتی حلقوں اور نیوز شوز میں حسین حقانی اور حکومت کی خارجہ پالیسی کو خوب تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ بعض پاکستانی تجزیہ کاروں کی رائے میں پاکستان کی فوج کے خلاف اس قسم کے الفاظ اور شرائط حسین حقانی کے کہنے پر اس بل میں شامل کیے گئے تھے۔ مگر حقانی صاحب مسلسل ان الزامات کی تردید کرتے رہے اور وضاحت دیتے رہے کہ واشنگٹن میں ان کے کچھ لوگوں سے ذاتی تعلقات ہیں لیکن ان کا اثر و رسوخ اتنا زیادہ بھی نہیں ہے۔ بحث چلتی رہی اور ٹی وی اینکر حقانی صاحب کے دن گنتے رہے۔ مگر وہ اپنی کرسی پر قائم رہے۔

انہی دنوں ایک صحافی دوست کے صاحب زادے کی شادی کی تقریب میں حقانی صاحب کے ساتھ غیر رسمی گفتگو ہو رہی تھی۔ ایک صحافی دوست نے گفتگو کے دوران تفریح کے لیے ان سے کہا کہ کسی نے ان سے کہا تھاکہ حقانی صاحب کی چھٹی ہونے والی ہے۔ مگر میں نے(اس صحافی نے) ان سے کہا کہ ایک نہیں دو کرسیاں جائیں گی۔ حقانی صاحب مسکرائے اور کہا کہ آپ نے درست کہا۔

واضع کر دوں کے دوسری کرسی سے مراد اسلام آباد کی کرسی تھی۔

دوسرا مشکل مرحلہ تب آیا جب جنوری 2011 میں امریکی سی آئی اے کے اہلکار رے منڈ ڈیوس نے لاہور میں دو پاکستانی شہریوں کو گولی مار کر ہلاک کر دیا۔ پاکستان اور امریکی حکومت کے درمیان تلخیاں اسقدر بڑھ گئیں کہ دونوں ممالک کے اہم اہلکاروں کے درمیان میٹنگز ملتوی کر دی گئیں۔ سٹریٹجک تعلقات کے لیے طے شدہ اجلاس ملتوی ہو گئے۔ امریکی حکومت کا اصرار تھا کہ رے منڈ ڈیوس سفارت کار ہےاس لیے اسے استثنیٰ حاصل ہے۔ لیکن ایسا نہ تھا، کیونکہ رے منڈ ڈیوس امریکی قونصل خانے کے لیے کام کرتا تھا۔جبکہ پاکستان کی حکومت عوامی اور سیاسی دباؤ کی وجہ سے رے منڈ ڈیوس کو رہا کرنے سے قاصر تھی۔ تنقید کا ہدف ایک مرتبہ پھر امریکہ میں پاکستانی سفیر حسین حقانی تھے۔ اس مرتبہ وجہ تھی امریکیوں کو ویزوں کا اجرا۔ جس کی وضاحت حسین حقانی نے میڈیا کے نمائندوں کے سامنے پاکستانی سفارت خانے میں کی اور بتایا کہ ان کے آنے سے پہلے امریکیوں کو دیے جانے والے ویزوں کی شرح کیا تھی اور ان کے آنے کے بعد کیا رہی جس سے یہ ثابت ہو گیا کہ انہوں نے پہلے کے مقابلے میں کوئی بہت زیادہ ویزے جاری نہیں کیے تھے۔ انہوں نے یہ بھی واضح کیا کہ امریکیوں کو ویزے اسلام آباد کی اجازت سے دیے جاتے ہیں۔

لیکن اس مرتبہ حسین حقانی پر دو طرفہ دباؤ تھا یعنی امریکی حکومت بھی پاکستانی سفارت خانے پر دباؤ ڈال رہی تھی کہ رے منڈ ڈیوس کا معاملہ جلد حل کیا جائے اور اسے واپس امریکہ لایا جائے۔ پاکستانی سفارت خانے کے ذرائع کے مطابق معاملات اتنے سنجیدہ ہو گئے تھے کہ حسین حقانی تقریباً ایک ہفتے تک اپنے دفتر بھی نہیں آئے۔

بالآخر مقتولین کے ورثا کو دیت ادا کر کے رےمنڈ ڈیوس کو چند ہی گھنٹوں میں رہا اور روانہ کر دیا گیا۔ حسین حقانی کی یہ مشکل بھی ٹل گئی۔ مگر ایک اور مشکل انتظار کر رہی تھی۔

دو مئی کو ایبٹ آباد میں امریکی سپیشل فورسز نے اسامہ بن لادن کو ایک خفیہ مشن کر کے ہلاک کر دیا۔ پاکستانی عوام، سیاسی حلقے، ادیب اور صحافی سبھی اس واقعے پر شدید ناراض ہوئے اور یہ سوال اٹھایا گیا کہ آخر امریکی کیسے پاکستان کی اجازت کے بغیر آئے اور ایک آپریشن کر کے چلے گئے۔ اس مرتبہ تنقید نہ صرف حکومت بلکہ فوج پر بھی ہوئی اور عوام سڑکوں پر نکل آئے۔ حسین حقانی ایک مرتبہ پھر تنقید کی زد میں آ گئے۔ امریکہ اور پاکستان کے اہلکاروں کے درمیان مذاکرات ہوتے رہے اور معاملات آہستہ آہستہ بہتری کی جانب بڑھنا شروع ہوئے۔

امریکی جوائنٹ چیف آف آرمی سٹاف ایڈمرل مائک مولن نے امریکی کانگریس کے سامنے ایک سماعت کے دوران پاکستان پر الزامات کی بوچھاڑ کر دی اور یہ تک کہہ دیا کہ بعض دہشت گرد عناصر پاکستان کی آئی ایس آئی کی حمایت اور سپورٹ سے کام کرتے ہیں۔ یہ بیان آیا تھا کہ امریکی میڈیا جو پہلے ہی پاکستان پر ڈبل گیم کے الزامات لگا رہا تھا پاکستان کی پالیسی اور اعلٰی عہدے داروں کے وعدوں اور پالیسی پر کھل کر سوالات کرنے لگا اور پاکستان کی امداد روکنے کی باتیں شروع ہو گئیں۔

10 اکتوبر 2011 کو معروف جریدے Financial Times میں امریکی شہری منصور اعجاز نے ایک آرٹیکل لکھا جس میں یہ تحریر کیا گیا کہ انہوں نے امریکہ میں ایک پاکستانی اہلکار کے کہنے پر ایڈمرل مائک مولن کو ایک خط دیا تھا جس میں انہیں صدر زرداری کا یہ پیغام دیا گیا تھا کہ دو مئی کے واقعے کے بعد فوج اور آئی ایس آئی مل کر ان کی حکومت کو ختم کرنا چاہتے تھے۔ خط میں لکھا گیا تھا کہ اگر امریکہ صدر زرداری کا ساتھ دے تو وہ آئی ایس آئی کے سربراہ لیفٹننٹ جنرل شجاع پاشا اور اور آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیا نی کو بر طرف کر کے اپنی مرضی کے جرنیلوں کو ان عہدوں پر فائز کر دیں گے اور وہ گارنٹی دیتے ہیں کہ اس کے بعد پاکستانی فوج اور دہشت گرد تنظیموں کے تعلقات ختم ہو جائیں گے۔ خط میں یہ بھی لکھا گیا کہ ایسا کرنے کی صورت میں امریکہ کو پاکستان کے ایٹمی پروگرام تک رسائی بھی دے دی جائے گی۔

منصور اعجاز نے چند روز پہلے پاکستانی میڈیا کو انٹرویو میں بتایا تھا کہ ان کے پاس اس پاکستانی اہلکار کے ساتھ کیے گئے بلیک بیری میسجز اور ای میلز یعنی فورنسک ثبوت موجود ہیں جو انہوں نے پاکستانی اہلکاروں کو دے دیے ہیں۔ بعد میں کسی کا نام ظاہر کیے بغیر منصور اعجاز نے یہ ثبوت یعنی میسجز اور ای میلز کا وقت اور تاریخ اور ٹیلفون کالز کی تاریخ اور دورانیہ بھی اخبارات میں شائع کروا دیا۔ انہوں نے یہ بھی تحریر کیا کہ خط دینے سے پہلے انہوں نے امریکہ میں پاکستانی اہلکار سے امریکی وقت کے مطابق صبح 08:51 پر دو منٹ پچپن سیکنڈ کی کال کی جس میں انہیں بتایا گیا کہ خط کا مضمون صدرزرداری نے پاس کر دیا ہے اور اسے ایڈمرل مولن کو دے دیا جائے۔

سابق ایڈمرل مائیک ملن کے ایک ترجمان نے اپنے تازہ بیان میں تصدیق کی ہے کہ اُنھیں منصور اعجاز کی طرف سے ایک خط کے ذریعے صدر زرداری کا مبینہ پیغام موصول ہوا تھا۔ مگر اس کا ایڈمرل ملن کے جنرل کیانی اور پاکستانی حکومت کے ساتھ تعلقات پر کوئی اثر نہیں ہوا۔ اُنھوں نے اس کو کبھی بھی مستند نہیں سمجھا اور نہ ہی اس پر کوئی توجہ دی۔

اس کے بعد سے پاکستان کی سیاسی اور صحافتی حلقوں میں یہ بحث شروع ہو گئی کہ یہ خط امریکہ میں پاکستان کے سفیر حسین حقانی کے کہنے پر لکھا گیا۔

واشنگٹن میں پاکستانی سفیر حسین حقانی نے کہا ہے کہ انہوں نے کوئی خط نہ لکھا نہ ہی کسی کو دیا یا ایسا خط لکھنے کی کسی اور کو اجازت دی۔ انہوں نے کہا کہ ان کا نام وہ لوگ بیچ میں لائے ہیں جو پاکستان کی جمہوری حکومت کے خلاف ہیں اور چاہتے ہیں کہ فوج اور جمہوری حکومت کے درمیان اختلافات پیدا ہوں۔ حسین حقانی نے مزید کہا کہ منصور اعجاز سے گزشتہ دس سالوں میں دو تین بار ملاقات ہوئی ہے۔ اور کبھی کبھار بلیک بیری مسجنگ سروس کے ذریعے چند خبروں پر اظہارِ رائے کا تبادلہ بھی ہوا ہے۔ حسین حقانی نے کہا وہ صدرِ پاکستان کے بلاوے پر پاکستان جا رہے ہیں اور انہوں نے صدر کو ایک خط بھیج دیا ہے جس میں انہوں نے کہا ہے کہ اگر میرے (حسین حقانی) استعفے سے تعلقات بہتر ہوتے ہیں تو وہ استعفی دے دیں گے۔

’وائس آف امریکہ‘ نے ایمبسڈر حسین حقانی سے ان کا موقف جاننے کے لیے رابطہ کرنے کی کوشش کی لیکن ان کی طرف سے کوئی جواب نہیں ملا۔

XS
SM
MD
LG