ہیری اور ان کی اہلیہ میگھن نے جھوٹی، نامناسب اور خبروں کو توڑ مروڑ کر پیش کرنے کا الزام لگاتے ہوئے چار برطانوی اخبارات کو بلیک لسٹ کردیا ہے۔ جب کہ ان اخبارات نے اس الزام کو میڈیا پرغیر معمولی حملہ قرار دیا ہے۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے 'اے ایف پی' نے برطانوی اخبار 'گارجین' کے حوالے سے لکھا ہے کہ ان اخبارات میں 'سن' ، 'ڈیلی میل'، 'مِرر' اور 'ایکسپریس' شامل ہیں۔
ہیری اور میگھن نے اپنے ایک خط میں مذکورہ اخبارات کے ایڈیٹرز کو سختی سے کہا ہے کہ آئندہ کبھی نا تو ان سے تعاون کیا جائے گا اور نا ہی کوئی رابطہ رکھا جائے گا۔
برطانوی جوڑے نے خط میں مزید لکھا ہے کہ ان کی نئی پالیسی کا اطلاق باقی میڈیا پر نہیں ہو گا۔ وہ پوری دنیا کے صحافیوں کے ساتھ تعاون کرتے رہیں گے۔
یاد رہے کہ ہیری اور میگھن نے رواں سال جنوری میں برطانوی شاہی خاندان کے سینئر ممبران کی حیثیت سے علیحدگی اختیار کر لی تھی۔
'فنانشل ٹائمز' کے میڈیا رپورٹر مارک ڈی اسٹیفانو نے ٹوئٹر پر شیئر کیے گئے ہیری کے خط کی نقل کے حوالے سے کہا ہے کہ یہ پالیسی تنقید سے بچنے کے لیے نہیں اپنائی گئی اور نا ہی اس کا مقصد عوام میں ان سے متعلق ہونے والی چہ مگوئیوں کو روکنا یا رپورٹنگ کو سینسر کرنا ہے۔ بلکہ وہ اپنی ساکھ کو مسخ ہونے سے بچانا چاہتے ہیں۔
روزنامہ 'گارجین' کے مطابق ڈیوک اور ڈچس آف سسیکس کو یہ محسوس ہونے لگا ہے کہ لوگوں نے ان سے دور ہونا شروع کر دیا ہے۔ جب کہ اخبارات اپنی آمدنی میں اضافے کی غرض سے ایسی خبریں شائع کرتے ہیں۔
خیال رہے کہ ہیری اور میگھن نے ملکہ برطانیہ سے اس خواہش کا اظہار کیا تھا کہ وہ آزاد زندگی گزارنا چاہتے ہیں۔ اس لیے اُنہیں شاہی فرائض سے دست بردار کر دیا جائے۔
میگھن اور ہیری پچھلے مہینے کینیڈا سے امریکی ریاست کیلی فورنیا منتقل ہوئے ہیں۔ تاہم انہوں نے اپنا رہائشی مقام خفیہ رکھا ہوا ہے۔
ان کی شاہی خاندان سے علیحدگی کو برطانوی پریس نے 'میگسیٹ' کے نام سے منصوب کیا تھا۔ جس پر میگھن نے اسے شاہی زندگی میں مداخلت قرار دیا تھا۔
ذرائع ابلاغ کے چند اداروں کے خلاف ہیری اور میگھن نے قانونی کارروائی بھی کی۔ جسے میڈیا سے دشمنی کہا گیا۔