بعض اوقات دمے کے مریض کو اتنی تکلیف ہوتی ہے کہ اس کے لیے دو قدم چلنا ہی مشکل ہو جاتا ہے۔
دمے کی ایک مریضہ جیول بینٹن کہتی ہیں کہ مجھے سانس لینے میں دشواری ہوتی ہے۔ جب میں سیڑھیاں چڑھ کر اپنے کمرے میں آتی ہوں تو مجھے اپنے ڈریسر سے کچھ دیر ٹیک لگا کر آرام کرنا پڑتا ہے۔
دمے کے مریضوں کو عمر بھر کھانسی، سانس لینے میں دشواری اور چھاتی میں تکلیف جیسی علامات کا مقابلہ کرنا پڑتا ہے۔
پال گارب کا تعلق امریکہ میں امراض پر تحقیقی ادارے سینٹر فار ڈیزیز کنٹرول سے ہے جہاں وہ پھیپھڑوں کے امراض کے سنٹر کے سربراہ ہیں۔ ان کے مطابق حالیہ تحقیق سے یہ ظاہر ہورہا ہےکہ نسل، عمر اور جنس کے بعض گروپوں میں دمہ زیادہ عام ہوتا ہے۔
ان کا کہناہے کہ بچوں ، خواتین اور سیاہ فام امریکی مردوں میں دمے کی شرح زیادہ ہے۔ بچوں کے گروپوں میں سیاہ فام امریکی بچوں کو دمے کی سب سے زیادہ شکایت ہوتی ہے۔ اس گروپ میں تقریبا 17 فی صد بچوں کو دمے کی شکایت ہو سکتی ہے، جو بچوں کے کسی بھی دوسرے گروپ سے زیادہ ہے۔
عالمی ادارہ صحت کے مطابق دنیابھر میں تقریبا 23 کروڑ 50 لاکھ افراد کو یہ شکایت ہے۔فضائی آلودگی میں کمی اور تمباکو نوشی اور فضائی آلودگی کے اثرات کے بارے میں تعلیمی مہمات کے باوجود امریکہ میں ہر 12 افراد میں سے ایک دمے کا مریض ہے۔
جدید تحقیق سے یہ بھی ظاہر ہوا ہے کہ بچپن میں غذا ور ماحولیاتی عناصر سے الرجی کی شکایت پیدا ہونےو الوں کو بالغ عمر میں دمے میں مبتلا ہونے کا خدشہ زیادہ ہوتا ہے ۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ دمہ پیدا کرنے والے ماحولیاتی عناصر سے دور رہنے اور دمے کی علامات سے نمٹنےکے بارے میں معلومات کے ذریعے اس بیماری کا مقابلہ کیا جا سکتا ہے۔
پال گارب کہتے ہیں کہ ہم دمے کی وجوہات نہیں جانتے، اس لیے ہم اس کو پھیلنے سے روک بھی نہیں سکتے۔ ہم یہ ضرور جانتے ہیں کہ ایک مرتبہ کسی کو دمہ ہو جائے اور ڈاکٹر اس کی تشخیص کر لے، تو ہم دمے کی علامات کو ظاہر ہونے سے روک سکتےہیں۔ مریض دمے کے ساتھ گزارا کرنا سیکھ سکتےہیں۔ لیکن طبی امداد تک ان کی رسائی اور ڈاکڑ کے ساتھ باقائدہ رجوع کرنے کی سہولت بھی ہونی چاہیے۔ تاکہ ڈاکٹر ان کی علامات کو مد نظر رکھتے ہوئے درست ادویات تجویز کر سکے، اور بچے اور بچے کے والدین کو علامات کا مقابلہ کرنے کی تعلیم دے سکے۔
ڈاکٹرو ں کے مطابق دمے کا کوئی علاج نہیں۔ اور اس کی علامات کا مقابلہ کرنے کےلیے بہت کم ادویات موجود ہیں۔ جن میں inhaler، گولیاں اور ٹیکے شامل ہیں۔
غذا اور ادویات سے منسلک امریکی سرکاری ادارے فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن کا منظور کردہ ایک نیا طریقہ علاج Bronchial Thermoplasty کہلاتا ہے جس میں تپش کے ذریعے مریض کی ہوا کی نالیوں کو بڑا کیا جا سکتا ہے۔
کلیولینڈ کلینک ایک طبی سینٹر کی معالج سمیتا کھتری یہ طریقہ علاج آزمانے والے چند ڈاکٹروں میں سے ایک ہیں۔ یہ کہتی ہیں کہ ان کے بعض مریضوں کو اس علاج سے فائدہ ہوا ہے۔
وہ کہتی ہیں کہ اس علاج کا بنیادی تصور یہ ہے کہ سانس کی نالیوں کو بڑا کرنے سے کھانسی کے دورے اور سانس کی نالیوں میں دباو کو کم کیا جا سکتا ہے۔
لیکن ڈاکٹر کھتری کا کہنا ہے کہ اس علاج کی وجہ سے پھیپھڑوں میں سوزش ہو سکتی ہے، اور دمہ مزید شدت بھی اختیار کر سکتا ہے۔ یہ کہتی ہیں کہ Bronchial thermoplasty کا علاج ان مریضوں کےلیے نہیں جنہیں دمے کی بہت معمولی شکایت ہو۔ اور صرف ان لوگوں کے لیے استعمال کیا جانا چاہیے جن کے لیے دمے کا کوئ دوسرا طریقہ علاج موثر ثابت نہیں ہورہا۔