تاجکستان کے دارالحکومت دو شنبے میں ہارٹ آف ایشیا استنبول پروسیس کی نویں وزارتی کانفرنس منگل کو اختتام پذیر ہو گئی ہے۔ کانفرنس کے اختتام پر جاری کردہ ایک مشترکہ اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ کانفرنس کے رکن ممالک نے افغانستان کے امن و استحکام کے لیے علاقائی کوششوں کو تیز کرنے پر اتفاق کیا ہے۔
مشترکہ بیان میں افغانستان میں جاری تشدد کے واقعات پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے فوری اور جامع جنگ بندی پر زور دیا گیا ہے۔ تاکہ فریقین کے درمیان سیاسی تصفیے کے حصول کے لیے سازگار ماحول پیدا کیا جائے۔
مشترکہ اعلامیے میں رکن ممالک نے افغانستان میں قیام امن کے لیے افغان حکومت اور طالبان کے امن مذکرات کے عمل کو جاری رکھنے کی حمایت کا اظہار بھی کیا ہے۔
یاد رہے کہ افغانستان میں امن و استحکام اور افغان تنازع کے پائیدار حل کے لیے ترکی نے 2011 میں ہارٹ آف ایشیا استنبول پراسس کی ابتدا کی تھی۔ اس عمل میں 15 ممالک شامل ہیں جب کہ 17 دیگر ممالک اور 12 علاقائی تنظیمیں اس عمل کی حمایت کرتی ہیں۔
ہارٹ آف ایشیا کے مشترکہ اعلامیے میں افغانستان میں طالبان اور دیگر شدت پسند گروہوں کی طرف سے جاری تشدد، عام شہریوں، انسانی حقوق کے کارکنوں اور صحافیوں کو جان بوجھ کر نشانہ بنانے کی کارروائیوں کی شدید مذمت کی ہے۔
واضح رہے کہ افغانستان میں تشدد کی حالیہ لہر کے دوران صحافیوں کو نشانہ بنا گیا ہے جن میں خواتین بھی شامل ہیں لیکن طالبان ان واقعات سے لاتعلقی کا اظہار کر چکے ہیں۔
منگل کو جاری ہونے والے مشترکہ اعلامیے میں طالبان اور بین لاقوامی شدت پسند گروہوں بشمول القاعدہ کے درمیان مبینہ راوبط پر بھی تشویش کا اظہار کیا ہے۔
طالبان شدت پسند تنظیموں سے اپنے روابط کو مسترد کرتے ہیں اور وہ اپنے جنگجوؤں کو متنبہ کر چکے ہیں کہ اپنی صفوں میں غیر ملکی شدت پسندوں کو شامل نا کریں۔
ہارٹ آف ایشیا کانفرنس کے مشترکہ اعلامیے کے مطابق اس بات کو یقینی بنانا ضروری ہے کہ افغانستان کی سرزمین غیر ملکی دہشت گردوں بشمول داعش، القاعدہ اور دیگر علاقائی اور بین الاقوامی دہشت گرد گروہوں اور ان کے حامیوں کے لیے محفوظ پناہ گاہ نہ بن سکے۔
اعلامیے میں دہشت گردی کے خاتمے کے لیے عزم کا اظہار کرتے ہوئے رکن ممالک نے اس کے تدارک کے لیے علاقائی تعاون اور کوششوں پر اتفاق کیا ہے۔
ہارٹ آف ایشیا کانفرنس کے رکن ممالک نے افغانستان میں افیون کی کاشت اور منشیات کی غیر قانونی اسمگلنگ پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ اعلامیہ کے مطابق یہ صورتِ حال ناصرف افغانستان بلکہ خطے اور دنیا کی سماجی و اقتصادی ترقی کے لیے خطرہ ہے۔
افیون کی کاشت کے روکنے کے لیے متبادل ذرائع آمدن کے فروغ اور اس مسئلے کے تدارک کے لیے مشترکہ کوششوں پر زور دیتے ہوئے بین الاقوامی برداری سے کہا گیا ہے وہ اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے افغانستان کی حکومت کی مدد جاری رکھے۔
ہارٹ آف ایشیا کانفرنس کے رکن ممالک نے گزشتہ چار دہائیوں سے افغان مہاجرین کی میزبانی پر ہمسایہ ممالک خاص طور پر پاکستان اور ایران کو سراہا ہے۔
ہارٹ آف ایشیا کانفرنس کے رکن ممالک کے وزائے خارجہ اور نمائندوں نے 30 مارچ کو مشترکہ اعلامیے پر اتفاق کیا ہے۔ ان ممالک میں افغانستان، آذربائیجان، پاکستان، چین، بھارت، ایران، روس ،سعودی عرب، تاجکستان، ترکی، قزاقستان، کرغزستان، ترکمانستان، متحدہ عرب امارات اور ازبکستان شامل ہیں۔
امریکہ، برطانیہ، آسڑیلیا، کینیڈا، ڈنمارک، مصر، فن لینڈ، فرانس جرمنی ،عراق، اٹلی جاپان، پولینڈ، ناروے، اسپین، سوئیڈن اور نیٹو سمیت 10 سے زائد تنظیموں نے اس اعلامیے کی حمایت کی ہے۔