دو ہزار سے زائد ہندوؤں پر مشتمل یاتریوں کا پہلا قافلہ منگل کی صبح بیس کیمپ جموں سے روانہ ہوا اور سخت حفاظتی پہرے میں مسلم اکثریتی وادی کشمیر میں داخل ہونے ہی والا ہے۔عہدے داروں کے مطابق، قافلے میں 421خواتین اور 110بچے بھی شامل ہیں۔
جب کہ ہراول دستے کے طور پر بسوں اور موٹروں میں سوار تقریباً 200سادھو بھجن اور مذہبی نعرے لگاتے ہوئے وادی کشمیر کی طرف رواں دواں ہیں، تقریباً 300کلومیٹر لمبی جموں سری نگر شاہراہ پر دونوں جانب جگہ جگہ پولیس اور نیم فوجی دستوں کی بھاری تعداد تعینات نظر آرہی ہے، جب کہ قافلے کے آگے پیچھے بھی جدید اسلحے سے لیس حفاظتی اہل کار سفر کر رہے ہیں۔
یاترا ڈیڑھ ماہ تک جاری رہے گی جِس کے دوران پانچ لاکھ کے قریب ہندویاتری تقریباً 13000فٹ کی بلندی پر واقع امرناتھ گُفا میں پوجا پاٹھ اور شِو لنگھم کے درشن کریں گے۔
امرناتھ یاترا کئی صدیوں سے ہرسال جون اور اگست کے دوران کی جاتی ہے اور اِس میں ہندو عقیدت مندوں کو مقامی مسلمانوں کا بھرپور تعاون حاصل رہا ہے۔
تاہم، 2008ء میں صوبائی حکومت کی طرف سے امرناتھ شرائین بورڈ کو جنگلات کی اراضی کی منتقلی کے خلاف مقامی مسلمانوں کی ایجی ٹیشن اور پھر ہندوؤں کی پُر تشدد جوابی تحریک کے نتیجے میں دونوں فرقوں کے درمیان تلخیاں پیدا ہوئی تھیں جو عارضی ثابت ہوئیں۔
بھارتی کشمیر کی مختلف سیاسی اور مذہبی جماعتوں نے یاتریوں کا خیرمقدم کیا ہے۔ کشمیر کے میر واعظ مولوی عمر فاروق نے کہا کہ جتنے بھی ہندو عقیدت مند وادی کشمیر کا رُخ کرتے ہیں اُن کا نہ صرف پُرتپاک استقبال کیا جائے گا بلکہ اُن کے سفر اور یہاں قیام کا آسان اور پُر لطف بنانے کے لیے مقامی مسلمان کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کریں گے۔