ہالی وڈ ایک ایسی جگہ ہے جہاں کامیابی انتہائی مشکل ہے۔ لیکن، ارادے مضبوط ہوں تو کچھ بھی مشکل نہیں۔ یہ کہنا ہے ہالی وڈ میں کچھ بڑا کام کر دکھانے کا خواب لے کر آنے والے مسلمان، جنوبی ایشیائی اور پاکستانی فنکاروں کا، جن کے لیے مشکلات عام طور پر زیادہ ہوتی ہیں۔
ثاقب الاسلام نے ہالی وڈ میں کچھ جنوبی ایشیائی اور مسلمان فنکاروں سے ان کے ہالی وڈ تک کے سفر کے بارے میں بات کی، جن میں اداکار، موسیقار فلم اور ٹی وی ڈائریکٹرز بھی شامل ہیں۔
ہالی وڈ کے خواب کےلیے مذہب اور ثقافت کی قربانی نہیں۔ رومان قاضی
رومان قاضی لاس اینجلس میں ایک اداکار، موسیقار اور سٹینڈ اپ کامیڈین کے طور پر اپنا لوہا منوا رہے ہیں۔ رومان امریکی ریاست مزوری کے شہر سینٹ لوئس میں ایک پاکستانی امریکن خاندان میں پلے بڑھے۔ انھوں نے تعلیم حاصل کرنے کے بعد کارپوریٹ سیکٹر میں بھی کام کیا۔ لیکن، وہاں ان کا دل نہ لگا۔ اور پھر رومان سینٹ لوئس سے لاس اینجلس کے لیے نکل پڑے۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کے لیے سب سے مشکل مرحلہ ایک نئے شہر میں جانا اور اکیلے رہنا تھا۔ اپنی زندگی کو تبدیل کرنا تھا۔ لیکن ان تکالیف سے بڑا ان کا خواب تھا۔ ہالی وڈ میں اپنی کہانیاں بتانے کا۔ رومان کہتے ہیں کہ ہمیں سکرین پر مزید جنوبی ایشیائی چہروں کی ضرورت ہے۔ ہمیں اپنی کہانی بتانے والوں کی ضرورت ہے۔ یہاں ہالی وڈ میں ہر جگہ مجھے وہی بیس تیس لوگ نظر آتے ہیں۔ میرے جیسے مزید لوگوں کی ضرورت ہے۔ ہالی وڈ میں آنے والے جنوبی ایشیائی فنکاروں کے لیے ایک بڑا مسئلہ دقیانوسی اور گھسے پٹے کردار بھی ہیں۔ لیکن ہالی وڈ میں دوسرے جنوبی ایشیائی فنکاروں کے برعکس رومان کا نظریہ ذرا مختلف ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’’دہشت گرد، ٹیکسی ڈرائیور، عرب تاجر ریڑھی والا ایسے کردار ہوں گے اور اگر آپ نہیں کریں گے تو کوئی اور ان کرداروں کو نبھائے گا۔ تو میرے لیے یہ مشکل نہیں تھا۔ ایسے کردار کرکے ہی آپ اچھے کرداروں کے لیے اپنی جگہ بناتے ہیں‘‘۔
ہالی وڈ میں دقیانوسیت کا مقابلہ کیسے؟
اپنی کہانی بتاتے ہوئےانھوں کے انکشاف کیا کہ انکا پہلا کرادر ایک عراقی تاجر کا تھا، کریڈٹ میں اسکا نام مرچنٹ نمبر ون تھا۔ اگر میں گورا ہوتا تو شاید یہ کردار مجھے نہ ملتا۔ لیکن پھر مسلمان ہوتے ہوئے ایسے کردار نبھانا جو ثقافتی اور مذہبی طور پر مشرقی دنیا میں قابل قبول نہ ہوں، انکے کے بارے رومان کہتے ہیں کہ ’’میں مسلمان ہوں تو میں نے خدا سے دعا کی کہ میرے لیے آسانی پیدا کرے اور مجھے صرف ایسے کردار ملیں جو آپ کے نزدیک میرے لیے درست ہیں۔ اس طرح سے فیصلہ کرنے کا اختیار میرے ہاتھ میں نہیں رہا۔ تو جو کردار مجھے ملتے ہیں میں بھرپور طریقے سے کرتا ہوں۔ اور یہ محسوس نہیں کرتا کہ میں اسلام یا جنوبی ایشیائی کمیونٹی کو کچھ نقصان پہنچا رہا ہوں‘‘.
ان کا کہنا ہے کہ انکے والدین کو بھی ایسے ہی خدشات تھے جو کسی بھی پاکستانی یا مسلمان والدین کو ہو سکتے ہیں کہ میں اپنے بچے کو اس دنیا میں نہیں بھیج سکتا جہاں گناہ ہی گناہ ہے۔
لیکن، بقول رومان ’’والدین کو میں یہ کہوں گا اپنے بچوں پر بھروسہ رکھیں۔ کیونکہ آپ کو اسلام یا اپنے کلچر کی قربانی نہیں دینی پڑتی اگر آپ اس انڈسٹری میں ہیں۔ ہاں والدین پریشان ہوتے ہیں کہ یہ حرام کام ہے یا سوچتے ہیں کہ میں اپنے بچوں کو سیکس، ڈرگز یا راک اینڈ رول میں جاتا نہیں دیکھ سکتا۔ لیکن میں خود کارپوریٹ امریکہ سے یہاں آیا ہوں۔ وہاں بھی گناہ کرنے کے اتنے ہی مواقع ہیں جتنے یہاں۔ وہ کہتے ہیں کہ یہاں مجھے شراب پینے یا غلط طور طریقے اپنانے کا پریشر کم محسوس ہوتا ہے۔
ہالی وڈ میں کوشش ہی سب کچھ۔ فوزیہ مرزا
رومان جیسے ہزاروں ایسے لوگ ہیں جو ہالی وڈ میں اپنے نام کا ستارہ پانے کی جستجو میں آتے ہیں انہی میں اداکارہ، مصنفہ اور فلم اور ٹی وی ڈائریکٹر فوزیہ مرزا بھی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’یہ خوابوں کی سرزمین ہے۔ یہاں کوئی بھی آ سکتا ہے اور اپنے خوابوں کو سچ کر سکتا ہے‘‘۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستانی امریکن فوزیہ مرزا نے کینیڈا سے شکاگو اور پھر شکاگو سے لاس اینجلس تک اپنے خواب کو سچ کرنے کے لیے سفر کیا۔ فوزیہ نے اداکاری کی، کہانیاں لکھیں، مزاح نگار کے طور لوگوں کو محظوظ کیا اور ایک فلم بھی ڈائریکٹ کی۔ ان تمام چیزوں کے ساتھ ساتھ وہ ایک وکیل بھی ہیں۔ جو ان کے ماں باپ کی خواہش تھی۔ وہ کہتی ہیں کہ جب میں نے سکول میں تھیٹر اور فنون لطیفہ میں کام کیا تو میرے والدین نے میرا ساتھ دیا۔ لیکن کالج میں آتے ہی انھوں نے کہا کہ اب سنجیدگی سے کیا کرنا ہے؟
تو، بقول ان کے، ان کے پاس ڈاکٹر انجنئیر یا وکیل بننے کے علاوہ کوئی چارہ تھا بھی نہیں۔ لیکن انھوں نے والدین کی مرضی پوری کرنے کے بعد اپنی مرضی کی۔ وہ کہتی ہیں ’’یہاں سب سے مشکل وہ کرنا ہے جو آپ چاہتے ہیں۔ چاہے دوسرے اسے پسند کریں یا نہ کریں۔ یعنی دوست، خاندان، کمیونٹی۔ میرے پیرنٹس دیسی ہیں۔ جب کالج کا وقت آیا تو انھوں نے کہا اب تم سنجیدگی سے اپنی زندگی میں کیا کروگی‘‘؟
اگر آپ مختلف ہیں تو نڈر رہیں
اور فوزیہ کی کہانی میں مشکلات کچھ اس لیے بھی زیادہ تھیں کہ ایک مسلمان اور پاکستانی ہوتے ہوئے، بقول ان کے، اپنی ہم جنس پرستی کا اظہار بھی کھل کر کیا۔ اور اپنی ذاتی کہانی بتاتے ہوئے معاشرے میں مختلف شناخت، رنگ، نسل، مذہب اور ہم جنس پسندی جیسے موضوعات پر بات کرنے کی کوشش کی ہے۔ فوزیہ کہتی ہیں کہ ’’میرے خیال سے ہمارے کلچر میں ایسی کہانیاں سب سے پرانی ہیں۔ بہت سے بے خوف لوگ مغلیہ دور میں تھے۔ مجھے لگتا ہے کہ ہم واپس آرہے ہیں اپنی کہانیوں کو کھل کر کہنے کے لیے‘‘۔ اسی موضوع پر فوزیہ نے اپنی لکھی ہوئی فیچر فلم ’سگ نیچر موو‘ میں شبانہ اعظمی کے ساتھ ایک مسلمان پاکستانی لڑکی کا کردار نبھایا جو اپنی ماں سے اپنے ایسے ہی رشتے چھپاتی ہے اور اس کی ماں آہستہ آہستہ اس بات کو سمجھنے کی کوشش کرتی ہے۔ اس فلم کی سکریننگ دنیا بھر میں ایک سو بیس فلم فیسٹیولز میں ہوئی جہاں اس نے تیرہ ایوارڈز جیتے ہیں۔ لیکن انھیں شدید منفی رد عمل کا سامنا بھی رہا۔ فوزیہ کہتی ہیں کہ ’’میں یہ کہانی جی بھی رہی ہوں۔ آپ سب کو خوش نہیں کرسکتے۔ کچھ کو پسند آئے گا کچھ کا نہیں۔ لیکن آپ کی کہانی میں سچائی ہونی چاہیے‘‘۔
اس کے علاوہ فوزیہ نے ’دی مسلم ٹرمپ‘ نامی ایک مزاحیہ ڈاکیومنٹری میں ڈونلڈ ٹرمپ کی بیٹی کا کردار کیا، جبکہ ’براون گرل پرابلمز‘ نامی ٹی وی شو اور ’سپنکل‘ نامی شارٹ فلم بھی کی۔
لیکن کیا انھیں محسوس ہوتا ہے کہ انہیں انکے رنگ و نسل کے باعث ایک جیسے کردار دیے جاتے ہیں؟ برعکس رومان کے فوزیہ اس بات پر خوش نہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ’’ہم اپنا رنگ چھپا نہیں سکتے۔ میں دیسی ہوں نظر آتا ہے۔ اور اسی لیے کبھی کبھی ایک جیسے کردار ملتے ہیں۔ لیکن ہر بندے کی کہانی اہم ہے۔ ہم سب کہانیاں سنا سکتے ہیں‘‘۔
ہالی وڈ میں کامیابی کا نسخہ
رومان کہتے ہیں کہ ’’بہترین بنیں۔ اب صرف اچھا ہونا کافی نہیں۔ محنت کریں، تھیٹر میں کام کریں۔ اگر آپ تھیٹر پلے میں ایک کردار پوری طرح سے نہیں نبھا سکتے ہیں تو آپ کے لیے اس انڈسٹری میں مشکلات ہوں گی‘‘۔ اور فوزیہ کہتی ہیں کہ آپ کہیں سے بھی آئیں، پاکستان سے بھارت سے یا دنیا میں کہیں سے بھی۔ ہالی وڈ میں آپ اہم ہیں۔ آپ کی کہانی اہم ہے ۔ بلا خوف و خطر نڈر ہو کر اپنی کہانی بتائیں، سنائیں اور بانٹیں، کیونکہ ان سب باتوں میں آپ سب سے زیادہ اہم ہیں۔