گاڑیاں بنانے والی معروف بین الاقوامی کمپنی 'ہونڈا' نے سائبر حملوں کے بعد بھارت، ترکی اور برازیل میں اپنے پلانٹس بند کر دیے ہیں۔ ہونڈا کا کہنا ہے کہ مختلف ملکوں میں قائم اس کے پلانٹس پر سائبر حملے ہوئے ہیں اور کمپنی اس سے ہونے والے نقصانات کا اندازہ لگانے کی کوشش کر رہی ہے۔
'ہونڈا' کی ایک خاتون ترجمان نے بدھ کو خبر رساں ادارے 'اے ایف پی' کو بتایا کہ رواں ہفتے کے آغاز میں کمپنی کے 'انٹرنل سرورز' پر سائبر حملے ہوئے تھے جن کے ذریعے کمپنی کے سسٹم میں وائرس داخل کیا گیا۔
ترجمان کا کہنا تھا کہ حملوں کے بعد ترکی میں قائم 'فور وہیل' گاڑیوں کا ایک پلانٹ اور بھارت اور برازیل میں موٹر سائیکلوں کے پلانٹ بند کیے گئے تھے جو تاحال بند ہیں۔
ترجمان نے کہا کہ کمپنی سائبر حملوں کی تحقیقات کر رہی ہے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق 'ہونڈا' کے 11 پلانٹس سائبر حملوں سے متاثر ہوئے ہیں جن میں امریکہ میں واقع پانچ پلانٹس بھی شامل ہیں۔ البتہ ہونڈا کی ترجمان کا کہنا ہے کہ امریکہ کے پانچوں پلانٹس دوبارہ فعال ہو گئے ہیں۔
خیال رہے کہ کرونا کی وبا کے باعث پیدا ہونے والی صورتِ حال سے 'ہونڈا' سمیت دنیا بھر کی آٹو کمپنیاں بری طرح متاثر ہوئی ہیں۔ ایک طرف لاک ڈاؤن کے باعث گاڑیوں کی فروخت بری طرح متاثر ہوئی ہے تو دوسری طرف فیکٹریوں اور پلانٹس کی بندش نے بھی آٹو کمپنیوں کو خاصا نقصان پہنچایا ہے۔
'ہونڈا' کے مطابق کمپنی کو رواں سال مئی میں ہونے والا منافع مئی 2019 کے مقابلے میں 25.3 فی صد کم رہا تھا۔
اس صورتِ حال میں ہونڈا کے سرورز پر سائبر حملے کمپنی کے لیے مزید نقصان کا سبب بن سکتے ہیں۔ البتہ ہونڈا کی ترجمان کے بقول ان حملوں سے کمپنی کے دنیا بھر میں پھیلے ہوئے کاروبار پر زیادہ اثر نہیں پڑے گا۔
عالمی وبا کے دوران سائبر حملوں میں اضافہ
واضح رہے کہ کرونا وائرس کے بعد پیدا ہونے والی صورتِ حال میں سائبر حملوں کا خطرہ بڑھتا جا رہا ہے۔ کیوں کہ دنیا کی بیشتر معاشی سرگرمیاں آن لائن محدود ہو کر رہ گئی ہیں۔ رپورٹس کے مطابق عالمی سطح پر بھی سائبر حملوں میں اضافہ ریکارڈ کیا جا رہا ہے۔
مختلف ممالک بھی یا تو ایک دوسرے پر سائبر حملوں کا الزام عائد کر رہے ہیں، یا خود پر لگے الزامات کی تردید۔ کرونا وائرس پر تحقیق کرنے والے عالمی ادارے بھی سائبر حملوں سے محفوظ نہیں رہے۔
عالمی ادارہ صحت نے بھی کہا ہے کہ متعدد بار اس کے کمپیوٹر کا ڈیٹا چرانے کی کوشش کی جا چکی ہے۔
ادارے نے متنبہ کیا ہے کہ مختلف ممالک الگ الگ کرونا وائرس کے انسداد کے لیے ویکسین پر تحقیق کر رہے ہیں۔ اس لیے اس بات کا امکان بڑھ گیا ہے کہ سائبر حملوں میں اضافہ ہو گا اور یہ کوشش کی جائے گی کہ ایک دوسرے کی تحقیقاتی کوششوں سے متعلق مواد حاصل کیا جائے۔