|
سابق امریکی صدر جمی کارٹر کا آخری سفر ریاست جارجیا کے چھوٹے سے قصبے پلینز میں ان کے گھر پر ختم ہوگا جہاں مونگ پھلی کے فارم پر واقعہ اس مقام پر انہوں نے پرورش پائی تھی۔
ان کی اہلیہ روزلین کو گزشتہ سال اسی جگہ سپرد خاک کیا گیا تھا۔ دونوں نے برسوں پہلے اس جگہ کا انتخاب اپنی آخری آرام گاہ کے طور پر کیا تھا۔
لیکن رخصتی اور تدفین کے اس سارے عمل میں ایک باقاعدہ طور پر ترتیب گیا گیا طریقہ کار ہے جو کہ امریکہ میں ریاست کی سطح پر ہونے والی الوداعی تقریبات کی خصوصیت ہے۔
امریکہ کے قیام کے بعد سے ہی ملک نے سابق صدور کو اس طرح سے الوداع کہا ہے کہ اس پورے عمل میں دیرینہ روایات اور ذاتی روابط کی جھلک ایک ساتھ نظر آ سکے۔
جنازے اور تدفین کی منصوبہ بندی اکثر صدر خود ہی کرتے ہیں کیونکہ وائٹ ہاؤس میں فرائض ادا کرنے کے بعد ان کے پاس اپنی الوداعی تقریب کو یادگار بنانے کے لیے کئی سال سوچنے کا وقت ہوتا ہے۔
اس ضمن میں "وائٹ ہاوس ہسٹاریکل ایسو سی ایشن" کے سینیئر مورخ میتھیو کوسٹیلو کہتے ہیں کہ سابق امریکی صدر تدفین کی منصوبہ بندی کے عمل میں بہت زیادہ شامل ہوتے ہیں۔
کوسٹیلو، جو کتاب Mourning the Presidents: Loss and Legacy in American Culture.کے مصنف ہیں، کہتے ہیں کہ صدر کے اپنے آخری سفر کے متعلق فیصلے ظاہر کرتے ہیں کہ وہ کون ہیں، وہ صدارت کو کیسے دیکھتے ہیں، اور وہ امریکی عوام کی طرف سے کس طرح یاد رکھے جانے کی خواہش رکھتے ہیں۔
دوسرے صدور کے مقابلے میں کارٹر کو اپنے آخری سفر کی منصوبہ بندی کے لیے زیادہ وقت میسر رہا۔ وہ اپنی صدارت ختم ہونے کے بعد 43 سال تک زندہ رہے۔
اتوار کو 100 سال کی عمر میں جب ان کی وفات ہوئی تو وہ امریکی تاریخ میں صدارت ختم ہونے کے بعد سب سے طویل زندگی گزارنے والے صدر تھے۔
تاہم، کارٹر کے جنازے کی بہت سی تفصیلات ابھی عام نہیں کی گئ ہیں۔ اس بات کا دارومدار ان کے خاندان اور ان فوجی یونٹوں کی صوابدید پر ہے جو اس منصوبے کو انجام دینے کی ذمہ دار ہیں۔
زیادہ تر امریکی صدور کو انتقال کے بعد واشنگٹن میں کیپیٹل کی عمارت میں ریاست کے زیر اہتمام رکھا جاتا ہے اور عام طور پر ان کے لیے واشنگٹن نیشنل کیتھیڈرل میں دعایہ تقریب منعقد کی جاتی ہے۔
صدر جو بائیڈن نے اتوار کو کہا کہ ان کی ٹیم کارٹر کے اہل خانہ اور دوسرے متعلقہ لوگوں کے ساتھ مل کر اس سارے الوداعی عمل پر کام رہی ہے تاکہ کارٹر کو امریکہ اور پوری دنیا میں مناسب طریقے سے یاد کیا جائے۔
کارٹر کے فرزند چپ ان کے خاندان کے بنیادی رابطہ کار ہیں۔ صدر بائیڈن نے کہا کہ انہوں نے سابق صدر کے تمام بچوں سے بات کی ہے۔
چپ کے مطابق کارٹر کے لیے الوداعی سروس واشنگٹن ڈی سی میں صدر بائیڈن کے طے کردہ شیڈول کےمطابق 9 جنوری کو ہوگی۔
امریکہ میں سابق صدر بعض اوقات تدفین اور آخری سفر کی چھوٹی چھوٹی تفصیلات طے کرنے میں بھی مدد کرتے ہیں۔
اس موضوع پر بات کرتے ہوئے شہر ڈیلاس میں "سدرن میتھوڈسٹ یونیورسٹی" میں صدارتی تاریخ کے مرکز کے ڈائریکٹر جیفری اینجل سابق صدر جارج ایچ ڈبلیو بش سے اپنی ایک ملاقات کا حوالہ دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ سابق صدر نے اپنے جنازے کے لیے شرکا کے بیٹھنے کے چارٹ پر نظر ثانی کی۔
جیفری اینجل نے یاد کیا کہ انہوں نے سابق صدر بش کو کہا، 'کیا یہ عجب سی بات نہیں ہے؟ آپ جانتے ہیں کہ یہ آپ کی اپنی موت (کی بات) ہے۔"
انہوں نے جواب میں کہا "آپ جانتے ہیں، آپ یہ ہر تین ماہ بعد کرتے ہیں۔ آپ کو اس کی عادت سی پڑ جاتی ہے۔"
دوسری جنگ عظیم کے دوران اتحادی فوجوں کی کمانڈ کرنے والے سابق صدر ڈوائٹ آئزن ہاور حکومت کی طرف سے جاری کردہ 80 ڈالر کے تابوت میں دفن ہونا چاہتے تھے۔
ان کا تابوت کسی دوسرے فوجی کے تابوت سے الگ نہیں تھا۔ صرف اس کے ڈیزائن میں شیشے کی مہر کا اضافہ کیا گیا تھا۔
سابق صدور کے جنازوں کی تفصیلات ان کی زندگی کے پہلوؤں کی بھی عکاس ہوتی ہیں۔
رونالڈ ریگن کے تابوت کو امریکی کیپیٹل کی عمارت کی مغربی سیڑھیوں سے اوپر لے جایا گیا تھا جن کا رخ ان کی آبائی ریاست کیلی فورنیا کی طرف تھا ۔
جیرالڈ فورڈ کا جب انتقال ہوا تو ان کا تابوت عمارت کے ایوان نمائندگان کی طرف سے لایا گیا جو کہ ایک قانون ساز کے طور پر ان کی وہاں برسوں پر محیط موجودگی کا اظہار تھا۔
صدارتی جنازوں کو انجام دینے کا کام مشترکہ ٹاسک فورس-نیشنل کیپیٹل ریجن کے ذمہ ہوتا ہے، جس میں 4000 فوجی اور سویلین اہلکار شامل ہیں۔ یونٹ نے ایک بیان میں کہا کہ اسے "قوم کی جانب سے یہ مدد فراہم کرنے کا اعزاز حاصل ہے۔"
امریکہ میں صدارتی جنازے امریکی شعور پر دیر پا نقش چھوڑ سکتے ہیں۔
ملک کے پہلے صدر جارج واشنگٹن کے کارناموں کو ایک یولوجی میں ان یاد گار الفاظ کے ساتھ بیان کیا گیا: "جنگ میں سب سے پہلے ، امن میں سب سے پہلے، اور اپنے ہم وطنوں کے دلوں میں سب سے پہلے۔"
یہ ایک ایسا خراج تحسین تھا جسے بعد ازاں بڑے پیمانے پر دوبارہ شائع کیا گیا۔
سابق صدر جان ایف کینیڈی کے قتل کے بعد ان کے بیٹے جان جونئیر کی اپنے والد کے تابوت کو سلامی دیتے ہوئے ایک یادگار تصویر لی گئی۔
کینیڈی کے تابوت کو واشنگٹن ڈی سی کے پنسلوینیا ایونیو کے راستے اسی گاڑی پر لے جایا گیا جس پر ابراہم لنکن کو ایک صدی قبل قتل کیے جانے کے بعد لے جایا گیا تھا۔ جلوس میں بغیر سوار کے گھوڑے کو شامل کیا گیا تھا۔
یہ پہلا موقع تھا کہ کسی امریکی صدر کا جنازہ ٹی وی پر براہ راست دکھایا گیا تھا۔
مورخ میتھیو کوسٹیلو کہتے ہیں کہ ٹیکنالوجی نے سابق صدور کے انتقال پر سوگ کے عمل کو ایک طرح سے زیادہ قابل رسائی اور زیادہ جمہوری بنا دیا ہے۔ اب زیادہ سے زیادہ لوگ ایک لمحہ کے لیے اس بات پر غور کر سکتے ہیں کہ اس شخص کا ان کی زندگیوں میں کیا مطلب تھا۔
ان کے بقول انہیں ایسا لگتا ہے کہ ٹیکنالوجی سے مزید لوگ اس غمگین موقع پر شامل ہو سکتے ہیں۔
بہت سے جمہوری ممالک میں سربراہ مملکت اور سربراہ حکومت دو مختلف لوگ ہوتے ہیں۔ امریکہ میں یہ دونوں عہدے ایک ہی شخصیت یعنی صدر کے پاس ہوتے ہیں۔
مورخ جیفری اینجل وضاحت کرتے ہیں کیونکہ امریکہ کے پاس صدر کے علاوہ کوئی قومی شخصیت نہیں ہے، "اس لیے ہم نے بنیادی طور پر وہ تمام روایتی اہمیت اور شہری جذبات جو موت یا پیدائش یا کسی بادشاہ یا بادشاہ کی شادی کے لیے ہوتے ہیں، لے لیے ہیں اور انہیں (امریکی) صدور کے لیے وقف کر دیا ہے۔"
وہ کہتے ہیں کہ چونکہ چند لوگ ہی صدر بن باتے ہیں لہذا ان میں سے جب کوئی جہاں سے کوچ کر جاتا ہے تو امریکہ میں یہ ایک "غیر معمولی اور بڑی بات" ہوتی ہے۔
وہ صدور کے جنازوں اور تدفین کے عمل کو ایک ایسے لمحے کے طور پر بیان کرتے ہیں جو احساس دلاتا ہے کہ "ہم سب اس میں ایک ساتھ ہیں" اور "یہ شخص ہم سب کے لیے صدر تھا، چاہے آپ ریپبلکن ہوں یا ڈیموکریٹ۔"
تاہم، آج کی منقسم سیاست کے دور میں، ریاستی جنازے تناؤ کے لمحات بھی پیدا کر سکتے ہیں۔
جارج ایچ ڈبلیو کے جنازے کے دوران 2018 میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ بھی شامل تھے۔ انہوں نے اپنے پیشرو سابق صدر باراک اوباما سے مصافحہ کیا۔ تاہم، انہوں نے ہلیری کلنٹن، جنہیں انہوں نے 2016 کے انتخابات میں شکست دی تھی، یا ان کے شوہر سابق صدر بل کلنٹن سے بات چیت نہیں کی۔
اینجل ریاست کی سطح پر صدور کے جنازوں کو ایک سیاسی موقع قرار دیتے ہیں۔
وہ کہتے ہیں،"کارٹر کی آخری رسومات میں جو کچھ ہوگا وہ بھی سیاسی ہو گا، چاہے کارٹر کے خاندان کے ارد گرد کے لوگ چاہیں یا نہ چاہیں۔"
(یہ تحریر اے پی کی رپورٹ پر مبنی ہے)
فورم