پاکستان میں بعض حلقوں کی جانب سے یہ دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ سیلابی پانی کا رُخ کم پانی والے دریاؤں اور بند پڑی کئی نہروں کی جانب موڑ کر سیلاب سے بچا جا سکتا تھا۔ تاہم بعض آبی ماہرین کا کہنا ہے کہ سیلابی پانی میں مٹی کی مقدار بہت زیادہ ہوتی ہے، لہذٰا اس کا رُخ کسی اور دریا یا نہر کی جانب موڑنے سے نہری نظام متاثر ہو سکتا تھا۔
ایسے میں وائس آف امریکہ نے مختلف آبی ماہرین سے بات کر کے یہ سمجھنے کی کوشش کی ہے کہ کیا سیلابی صورتِ حال والے دریاؤں کے پانی کو دیگر دریاؤں میں منتقل کر کے سیلاب سے بچا جا سکتا تھا؟
فلڈ فورکاسٹنگ ڈویژن کے مطابق ملک میں سیلابی صورتِ حال کے باوجود دریائے جہلم، دریائے چناب، دریائے راوی اور دریائے ستلج معمول کے مطابق بہہ رہے ہیں جب کہ دریائے سندھ اور دریائے کابل کئی مقامات پر بپھرے ہوئے ہیں اور ملک کے طول و عرض میں تباہی کا باعث بن رہے ہیں۔
آبی ماہرین کہتے ہیں کہ ملک میں زیادہ تر نہروں کی گنجائش 10 ہزار کیوسک سے 15 ہزار کیوسک ہے اور زیادہ سے زیادہ پانی کے ذخائر بنا کر سیلاب سے بچا جا سکتا ہے۔
پاکستان میں آبی وسائل کے تقسیم کار ادارے انڈس ریور سسٹم اتھارٹی (ارسا)کے ڈائریکٹر آپریشنز اور ترجمان محمد خالد رانا بتاتے ہیں کہ سیلاب کے دِنوں میں نہروں کو بند کرنا پڑتا ہے، تاکہ مٹی والا سیلابی پانی ان میں داخل ہو کر نہروں کو نقصان نہ پہنچائے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُنہوں نے کہا کہ دریائے سندھ کا پانی جہاں تک دریائے جہلم میں لے جایا جا سکتا تھا لے جایا گیا کیوں کہ دریائے جہلم میں سیلابی صورتِ حال نہیں تھی۔
اُن کے بقول قواعد کے مطابق سیلاب کے دوران نہروں کو بند کیا جاتا ہے۔ اگر ایسا نہ کیا جائے تو سیلابی پانی میں موجود مٹی کی زیادہ مقدار سے نہریں بند ہو سکتی ہیں اور اُن کے کناروں کو بھی نقصان پہنچ سکتا ہے۔ اگر ایسا ممکن ہوتا تو ارسا تونسہ بیراج اور گُڈو بیراج کی طرف پانی منتقل نہ ہوتا۔ جہاں جہاں اور جیسے جیسے سیلابی پانی کو روکنا ممکن تھا اُسے روکنے کی کوشش کی گئی۔
محمد خالد رانا کہتے ہیں کہ پہلے مرحلے میں تونسہ بیراج، گُڈوبیراج اورسکھر بیراج اور دوسرے مرحلے میں کوٹری بیراج اور پنجند میں پانی کو روکنا پڑا۔ اِسی طرح کچھ پانی جو کہ دریائے چناب کا آ رہا تھا۔ اُس کو محفوظ کرنے اور پہاڑی نالوں میں آنے والے پانی کو ذخیرہ کرنے کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔
محکمہ آبپاشی پنجاب میں تعینات ایکسین محمد عدیل انجم بتاتے ہیں کہ نہری پانی میں مٹی کی مقدار بہت کم ہوتی ہے جب کہ سیلابی پانی میں مٹی بہت زیادہ ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سیلابی پانی کو نہری نظام میں شامل کرنے سے گریز کیا جاتا ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ رواں برس جولائی میں ہیڈ مرالہ میں ڈھائی سے پونے تین لاکھ کیوسک پانی آیا تھا اور اس میں مٹی کی مقدار بہت زیادہ تھی۔ اگر اُس پانی کو مرالہ راوی لنک کینال کے ذریعے دریائے راوی میں ڈالا جاتا تو نہر بند ہو جانی تھی۔
ڈیم بنانا ہی واحد حل
پاکستان میں ورلڈ بینک کے سابق مشیر اور جارج واشنگٹن یونیورسٹی سے فارغ التحصیل سلطان برق کہتے ہیں کہ پاکستان میں سیلاب سے بچنے کا واحد حل ہر دریا پر ڈیم بنانا ہے۔ کیوں کہ اگر ملک میں ڈیمز کی تعداد زیادہ ہو گی تو پانی کو ذخیرہ بھی کیا جا سکے گا۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اںہوں نے کہا کہ ندی نالوں کے قریب چھوٹے ڈیم بنائے جا سکتے ہیں جنہیں چیک ڈیم کہا جاتا ہے۔ ملک میں جتنے زیادہ ڈیم بنیں گے اتنےزیادہ لوگوں کو روزگار ملے گا۔ جہاں ڈیم بنتا ہے اُس کے ساتھ پورا شہر آباد ہوتا ہے۔ جیسے منگلا ڈیم کے قریب منگلا اور میرپور شہر اور تربیلا ڈیم کے قریب تربیلا کا شہر ہے۔ اِسی طرح وارسک ڈیم کے قریب بھی آبادی ہے۔
اُن کے بقول صرف بلوچستان میں چھوٹے بڑے دریاؤں کو ملایا جائے تو ان میں لاکھوں ایکڑ فٹ سالانہ پانی آتا ہے، لیکن اس کا ایک ملین بھی استعمال میں نہیں لایا جا سکا۔ وہاں صرف دریائے حب پر حب ڈیم بنایا گیا ہے۔
سلطان برق کہتے ہیں کہ امریکہ میں بارشیں بہت زیادہ ہوتی ہیں، لیکن اس کے باوجود وہاں اس نوعیت کے سیلاب نہیں آتے۔ اس کی وجہ صرف یہی ہے کہ وہاں سب سے پہلے دریاؤں پر ڈیم بنائے گے۔ امریکہ میں چھوٹے بڑے ڈیموں کی تعداد تین ہزار کے لگ بھگ ہے۔
اس برس پاکستان میں زیادہ تباہی کیوں ہوئی؟
پاکستان کی وفاقی وزیر برائے ماحولیاتی تبدیلی شیریں رحمان کے مطابق رواں برس پاکستان میں 400 فی صد زائد بارشیں ہوئیں۔
ارسا کے ڈائریکٹر آپریشنز محمد خالد کہتے ہیں کہ جو بارشیں ہوئیں وہ بلوچستان، سندھ اور پنجاب میں کوہِ سلیمان کے پہاڑوں پر ہوئیں جس کے باعث پہاڑی نالوں میں بہت زیادہ پانی آیا۔
اُن کے بقول دریائے سندھ اور دریائے کابل میں جو پانی آیا ہے اُس کو بہتر حکمتِ عملی سے روکا گیا۔ پہلے مرحلے میں تربیلا ڈیم میں واپڈا نے تھوڑی دیر کے لیے پانی کا اخراج بڑھایا جس سے تربیلا ڈیم میں کچھ جگہ پیدا ہوئی۔
اُن کے مطابق ملک میں سیلاب کے دوران وفاقی اور صوبائی اداروں نے آپس میں تعاون کر کے بہتر حکمت عملی بنائی اور نقصان کو کم سے کم کرنے کی کوشش کی۔ انہوں نے کہا کہ اگر خدانخواستہ واپڈا تربیلا ڈیم میں بہتر حکمت عملی نہ بناتا تو گُڈو بیراج پر پانی کی سطح انتہائی بلند ہو کر آٹھ لاکھ کیوسک سے اوپر جا سکتی تھی۔
اِسی طرح چشمہ بیراج پر بہتر حکمت عملی سے سیلابی پانی کو روکا گیا ہے۔ دریائے راوی اور نوشہرہ میں پانی کی سطح کو انتہائی سطح پر جانے سے قبل چشمہ بیراج میں پانی کی سطح کو نچلے درجے تک لے جایا گیا جس کے بعد اِسے بھرا گیا۔ اگر اِسے نہ بھرا جاتا تو چشمہ بیراج کی طرح گُڈوبیراج پر بھی پانی کی انتہائی اونچی سطح آٹھ لاکھ کیوسک ہوتی ، جسے ساڑھے پانچ لاکھ کیوسک اور چھ لاکھ کیوسک کے درمیان رکھا گیا۔
محمد عدیل انجم کہتے ہیں کہ پاکستان میں مسئلہ یہ بھی ہے کہ دریا کے اندر گھر بنے ہوئے ہیں اور کاشت کاری کے لیے دریا کی زمین استعمال ہو رہی ہے۔ لہذٰا جب سیلاب آتا ہے تو سب سے پہلے یہ لوگ متاثر ہوتے ہیں۔
محمد عدیل انجم کہتے ہیں کہ چاروں صوبوں کے درمیان 1991 میں طے پانے والے معاہدے میں یہ شق بھی شامل تھی کہ پاکستان میں پانی کے نئے ذخائر بنائے جائیں گے۔
اپنی گفتگو جاری رکھتے ہوئے اُنہوں نے کہا کہ زیادہ نقصان دریائے سوات اور دریائے کابل میں اُس جگہ ہوا ہے جہاں دریا کے اندر آبادیاں موجود تھیں کیونکہ پہاڑی نالوں کا پانی آخر میں دریا میں ہی شامل ہوتا ہے۔
محمد عدیل انجم بتاتے ہیں کہ اگر بارشیں زیادہ ہو جائیں اور دریاؤں میں پانی بھی زیادہ آ جائے تو اِس کا زیادہ نقصان ہوتا ہے جس کی وجہ یہ کہ دریاؤں کا پانی فصلوں کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ اگر فصلوں والی جگہوں پر پہلے ہی بارشیں ہو رہی ہوں ہو تو کسان نہری پانی کا استعمال بند کر دیتے ہیں۔