ذرا تصور کریں کہ اگر سانپ کے بازو اور ٹانگیں ہوتیں اور وہ گرگٹ اور اسی طرح کے دوسرے جانداروں کی طرح بھاگتا پھر رہا ہوتا تو کیا ہوتا؟ ممکن ہیں کہ آپ کہیں کہ ایسا تو ہو ہی نہیں سکتا۔ لیکن سائنس دان آپ سے اتفاق نہیں کرتے۔
وہ کہتے ہیں کہ اپنے ماضی میں سانپ، چھپکلی کی طرح ایک رینگنے والا جانور تھا ۔ وقت کے سفر میں کرہ ارض پر جو بہت سی تبدیلیاں آئیں، اس دوران ارتقا کے فطری اصولوں کے تحت سانپ بھی اپنی ٹانگوں اور بازوؤں سے محروم ہوگیا۔
یہ بات ہے تقربیاً 15 کروڑ سال پہلے کی، سانپ، گرگٹ، مگر مچھ اور چھپکلی جیسا ایک جانور ہوا کرتا تھا اور انہی کی طرح اپنے اگلے دو بازوؤں اور پچھلی ٹانگوں کی مدد سے چلا کرتا تھا۔ لیکن وقت گذرنے کے ساتھ اس کا جین تبدیل ہوا، جس کے بعد اس کی آنے والی نسلوں میں بازو اور ٹانگیں باقی نہیں رہیں۔
ایک نئی سائنسی تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ سانپ کے ڈی این اے کے ایک حصے میں، جسے زی آر ایس کہا جاتا ہے، جس کا تعلق ہاتھ اور پاؤں کی حرکت کو کنڑول کرنے سے ہے، کی ساخت تبدیل ہوگئی، جس کے نتیجے میں وہ اپنے بازوؤں اور ٹانگیں کھو بیٹھا۔
سائنس کے ایک آن لائن جریدے’ جرنل سیل ‘میں شائع ہونے والی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ سائنس دانوں کی دو ٹیموں نے اپنے تجربات کے دوران چوہوں کے جنین کے ڈٰی این اے کے زی آرایس کو سانپ کے جین کے زی آر ایس سے تبدیل کر دیا۔ جب بچے پیدا ہوئے تو ان کے بازو اور ٹانگیں نہیں تھیں۔
امریکی ریاست کیلی فورنیا کی لارنس برکلے نیشنل لیبارٹری میں جینیات کے شعبے کے ایک سائنس دان اور اس تحقیق کے ایک سینیئر رکن ایکسل ویسل کا کہنا ہے کہ انسانوں اور دوسرے تمام جانوروں میں بازو اور ٹانگوں کی تشکیل میں ڈٰی این اے کا زی آر ایس بنیادی کردار ادا کرتا ہے۔ یہ جزو سانپ میں بھی موجود ہے، لیکن کروڑوں سال پہلے اس کا ساخت تبدیل ہو گئی۔ جس کی وجہ سے سانپ ٹانگوں اور بازوؤں سے محروم ہو گیا ہے۔
سائنس دانوں کی ٹیم نے جب سانپ کے ڈی این اے کا تفصیلی جائزہ لیا تو انہیں معلوم ہوا کہ ڈی این اے کے زی آر ایس حصے میں کروموسوم کے 17 بنیادی جوڑے غائب ہیں۔ جب انہوں نے اس حصے کی مرمت کرکے چوہے کے جنین میں ڈالا تو معمول کے مطابق بازو اور ٹانگیں بنیں۔
ریاست فلوریڈا کی یونیورسٹی آف فلوریڈا کے مائیکرو بیالوجی کے پروفیسر مارٹن کوہن نے سانپ کے ارتقائی حوالے سے تحقیق کی۔ ان کا کہنا ہے کہ اژدھا کے جنین میں ابتدائی طور پر کچھ وقت کے لیے بازو اور ٹانگیں بنانے والے جین مختصر وقت کے لیے کام کرتے ہیں لیکن پھر زی آر ایس کے اندر کروموسوم کے مطلوبہ جوڑوں کی وجہ سے یہ عمل رک جاتا ہے۔
ایک سائنسی جریدے ’ سائنس ایڈوانس ‘میں شائع ہونے والی ایک تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ 2015 میں سائنس دانوں نے سانپ کے تقریباً 9 کروڑ سال پرانے ڈھانچے پر تحقیق کرنے کے بعد بتایا تھا کہ یہ بات یقینی ہے کہ سانپ کے بازو اور ٹانگیں ہوا کرتی تھیں جو جس سے وہ اپنے ارتقائی مراحل کے دوران محروم ہوگیا۔
سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ تقربیاً ہر جاندار نے کرہ ارض کے بدلتے ہوئے حالات اور اپنے زندہ رہنے کے تقاضوں کے تحت خود کو فطری طور پر تبدیل کیا ہے اور یہ تبدیلیاں اس کے جین کے ڈی این اے میں آئیں جس سے اس کی آنے والی نسلیں تبدیل ہو گئیں۔ جو جاندار خود کو حالات کے مطابق ڈھال نہ سکے وہ فنا ہو گئے۔
سائنس دان کہتے ہیں کہ بدلے ہوئے حالات میں بازو اور ٹانگیں خوراک کی تلاش کی راہ میں رکاوٹ بن رہے تھے، اس لیے فطری تقاضوں نے اس کے جین کو تبدیل کر دیا ۔
سانپوں کی بعض اقسام، مثلاً اژدھوں کی ریڑھ کی اطراف میں ان مقامات پر، جہاں بازو اور ٹانگیں ہوتی ہیں، دونوں جانب بہت چھوٹے سائز کے ابھار آج بھی موجود ہیں۔
آج کے بے مثال سائنسی ترقی کے اس دور میں، جب کہ جین پر بہت تحقیق ہو رہی ہے اور موروثی بیماریوں کا علاج جین کی خرابیاں دور کرنے میں ڈھونڈا جا رہا ہے، وہاں کئی سائنس دان جانوروں کی ابتدائی نسلوں اور ان کے جین پر بھی تحقیق کررہے ہیں۔ تاہم اس سلسلے میں کچھ قانونی حد بندیاں بھی موجود ہیں، اگر ضابطوں نے مدد دی تو بہت ممکن ہے کہ آنے والے برسوں میں آپ پاؤں پر چلتے ہوئے سانپوں کے ساتھ ساتھ کروڑ وں برس پہلے ختم ہو جانے والے کئی جانداروں کو بھی اپنی اصل حالت میں دوبارہ دیکھ سکیں۔