انسانی حقوق کی ایک موقر بین الاقوامی تنظیم 'ہیومن رائٹس واچ' نے پاکستان پر شدید الزام عائد کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ ملک اپنے ہاں سے لاکھوں افغان پناہ گزینوں سے وطن واپسی کے لیے زبردستی کر رہا ہے۔
پیر کو جاری کی گئی رپورٹ میں تنظیم نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے پناہ گزین 'یو این ایچ سی آر' کی طرف سے پناہ گزینوں کو واپسی کی مد میں دی جانے والی چار سو ڈالر فی کس امداد منتقلی کے لیے رضامند نہ ہونے والوں کے لیے ایک طرح سے رشوت کے مترادف ہے۔
پاکستان اور اقوام متحدہ دونوں ہی ایسے الزامات کو مسترد کرتے ہیں۔ امریکی خبر رساں ایجنسی 'ایسوسی ایٹڈ پریس' کے مطابق یو این ایچ سی آر کی پاکستان کے لیے نمائندہ اندریکا رتوتے نے ایک انٹرویو میں کہا کہ گزشتہ سال کے وسط میں افغان پناہ گزینوں کو خاص طور پر صوبہ خیبرپختونخواہ میں پولیس کی طرف سے ہراساں اور گرفتار کیے جانے کے واقعات رونما ہوتے رہے ہیں لیکن یہ سلسلہ ختم ہو گیا تھا اور جو پناہ گزین واپس گئے وہ رضاکارانہ طور پر گئے۔
لیکن اس کے باوجود رپورٹ میں پاکستان سے افغان پناہ گزینوں کی مبینہ زبردستی واپسی کی مذمت نہ کیے جانے پر یو این ایچ سی آر کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔
پاکستان اپنے ہاں ہونے والی دہشت گردی کے تناظر میں ان افغانوں کی وطن واپسی کا خواہاں ہے کیونکہ اس کے خیال میں متعدد مہلک واقعات میں ملوث عسکریت پسند مبینہ طور پر افغان بستیوں اور سرحد پار افغانستان میں چھپے ہیں۔
ایک اندازے کے مطابق تقریباً تیرہ لاکھ افغان پناہ گزین باقاعدہ اندراج کے ساتھ پاکستان میں مقیم ہیں جب کہ حکام کے بقول لگ بھگ اتنی ہی تعداد میں افغان شہری غیر قانونی طور پر بھی ملک کے مختلف حصوں میں رہ رہے ہیں۔
رپورٹ کے ایک مصنف گیری سمپسن نے ایسوسی ایٹڈ پریس کو ای میل کے ذریعے دیے گئے ایک انٹرویو میں واپس جانے والوں کو یو این ایچ سی آر کی طرف سے دیئے جانے والے 400 امریکی ڈالر کے اقدام کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ " پناہ گزینوں کی حوصلہ افزائی کے لیے مزید رقم خرچ کرنے کی بجائے اب ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان کو زیادہ رقم دی جائے کہ وہ اپنے ہاں پناہ گزینوں کو تحفظ فراہم کرے۔"
رتوتے کے مطابق گزشتہ سال تین لاکھ 80 ہزار رجسٹرڈ اور ایک اندازے کے مطابق ڈھائی لاکھ غیرقانونی افغان پاکستان سے اپنے وطن واپس گئے۔
پاکستان اپنے ہاں رجسٹرڈ افغان پناہ گزینوں کے قیام کی مدت میں رواں سال کے اواخر تک توسیع بھی کر چکا ہے۔ لیکن ہیومن رائٹس واچ اس میں 2019ء تک توسیع کرنے کا مطالبہ کرتی ہے۔
گزشتہ سال ہی افغان صدر اشرف غنی نے پاکستان میں رہنے والے اپنے شہریوں سے کہا تھا کہ وہ وطن واپس آجائیں اور انھوں نے ان لوگوں کی آبادکاری کے لیے اقدام کرنے کا عزم بھی ظاہر کیا تھا۔
لیکن افغانستان میں صورتحال اب بھی واپس جانے والوں کے سازگار نہیں اور اکثریت اسی وجہ سے واپسی کے لیے رضامند دکھائی نہیں دیتی۔
واپس جانے والے ہزاروں افغان پناہ گزین مشرقی افغان صوبے ننگرہار کے کیمپوں میں رہ رہے ہیں۔
پشاور میں ایک افغان پناہ گزینوں کے لیے قائم ایک اسکول کے پرنسپل امان اللہ نصرت کہتے ہیں کہ "وہ (افغان حکام) چاہتے ہیں کہ ہم صحرا میں واپس آجائیں۔ حکومت پناہ گزینوں سے کہہ رہی ہے کہ وہ آجائیں، مگر کیسے؟ وہاں نہ تو سر چھپانے کے لیے کچھ ہے نہ پانی اور نہ سکیورٹی۔"
پناہ گزینوں سے متعلق پاکستانی حکومت کے رابطہ کار وقار معروف خان کہتے ہیں کہ اب تک واپس جانے والے پناہ گزین رضاکارانہ طور پر واپس گئے۔ ان کے بقول پاکستان عزت و وقار کے ساتھ ان افراد کی اپنے وطن واپسی چاہتا ہے۔