انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ’ہیومن رائٹس واچ‘ نے بھارتی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ 1984ءمیں سکھوں کے قتل عام کے ذمہ دار افراد کو کیفر ِکردار تک پہنچائے۔
بھارتی وزیر اعظم اندرا گاندھی کے ان کے سکھ باڈی گارڈ کے ہاتھوں قتل کے بعد انڈیا کے کئی علاقوں میں سکھ مخالف فسادات پھوٹ پڑے تھے جن میں کم از کم تین ہزار سکھ ہلاک ہوئے تھے اور کروڑوں کی مالیت کی جائیدادوں اور دکانوں کو جلا دیا گیا تھا۔
نیو یارک میں پیر کو جاری کی گئی ایک پریس ریلیز میں ہیومن رائٹس واچ کا کہنا ہے کہ حال ہی میں بھارت میں ایسے نئے شواہد سامنے آئے ہیں جن کی روشنی میں اس معاملے کا دوبارہ اٹھایا جانا اہم ہے۔
اِس سال جنوری میں بھارتی ریاست ہریانہ میں ہُند-چِلڑ نامی گاؤں میں 32 سکھوں کو 1984 میں جلانے اور ہلاک کرنے کے شواہد ملے تھے۔ اس کے بعد مارچ میں ہریانہ ہی کے پٹودی گاؤں میں مزید 17 سکھوں کی ہلاکت کی نشانیاں ملیں تھیں۔
اس کے علاوہ سکھوں کے حقوق کی تنظیم سکھ برائے انصاف یا Sikhs for Justice اور آل انڈیا سکھ سٹوڈنٹس فیڈریشن نے چند روز قبل دارالحکومت دلّی میں بھی ایک ایسے گردوارے کی نشاندہی کی ہے جہاں 1984 میں کم از کم 65 سکھوں کو زندہ جلا دیا گیا تھا۔
سکھ برائے انصاف کے قانونی مشیر گرپت ونت پنون کے مطابق 26 سال پہلے ہونے والے سکھ مخالف فسادات کوئی عام نسلی فسادات نہیں تھے بلکہ اندرا گاندھی کے قتل کے بعد کانگریس پارٹی کی ایما پر اور مقامی پولیس اور سرکاری مشینری کے تعاون سے باقاعدہ منصوبہ بندی کے ساتھ سکھوں کو نشانہ بنایا گیا تھا۔
ہریانہ کی حکومت نے ہُند-چِلڑ کیس کی تحقیقات کے لیے عدالتی کمیشن قائم کر دیا ہے۔
اس سے پہلے بھارت کی مرکزی حکومت بھی اس معاملے کی تحقیقات کے لیے کئی کمیشن بناچکی ہے جن میں سب سے مشہور کمیشن مئی 2000 میں سپریم کورٹ آف انڈیا کے سابق جسٹس جی ٹی ناناوتی کی سربراہی میں قائم کیا گیا تھا جس نے فروری 2005 میں اپنی رپورٹ پیش کی تھی۔
ہیومن رائٹس واچ کی جنوبی ایشیاء پروگرام کی ڈائریکٹر میناکشی گانگولی کے مطابق : ’’تین دہائیاں گزرنے کے بعد بھی سکھوں کے قتل عام کے مزید شواہد سامنے آنے سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اگرچہ اس معاملے میں کئی انکوائری کمیشن بنے ہیں لیکن دراصل مختلف بھارتی حکومتیں سچّائی تک پہنچنے اور اس معاملے کے ذمّہ دار افراد پر مقدّمہ چلانے سے کتراتی رہی ہیں۔ ‘‘
واشنگٹن میں بھارتی سفارت خانے کے پریس آفس نے وائس آف امریکہ کے رابطہ کرنے پر اس پریس ریلیز کا کوئی جواب نہیں دیا۔ البتہ ماضی میں کانگریس پارٹی کے ترجمان وائس آف امریکہ کو بتا چکے ہیں کہ اس معاملے میں نہ صرف بھارتی وزیر اعظم معافی مانگ چکے ہیں بلکہ یہ یقین دہانی بھی کرائی جا چکی ہے کہ ذمہ دار افراد کو قرار واقعی سزا دی جائے گی۔ اور چند افراد کو سزا بھی ہو چکی ہے۔
نانا وتی کمیشن کی رپورٹ کے بعد بھارتی وزیر اعظم من موہن سنگھ نے 12 اگست 2005 کو پارلیمان کے سامنے اس واقعے کی معافی مانگتے ہوئے کہا تھا: ’’مجھے سکھ برادری سے معافی مانگنے میں کوئی ہچکچاہٹ نہیں۔ میں نہ صرف سکھ برادری سے بلکہ پوری بھارتی قوم سے معافی مانگتا ہوں۔ کیونہ 1984ء میں جو ہوا تھا وہ قومیت کے اس تصوّر کے خلاف ہے جو ہمارے آئین کا حصّہ ہے۔‘‘
مستقبل میں اس قسم کے نسلی فسادات سے بچنے کے لیے انڈیا میں انسانی حقوق کی تنظیمیں حکومت کے ساتھ مل کر ایک نیا بل متعارف کرانے پر کام کر رہی ہیں۔