انسانی حقوق کی ایک بین الاقوامی تنظیم کا کہنا ہے کہ سعودی قیادت میں یمن میں گزشتہ ایک سال کے دوران ہونے والی فضائی کارروائیوں میں کئی تجارتی و کاروباری مراکز کو بھی نشانہ بنایا گیا ہے جن میں 130 افراد ہلاک جب کہ سینکڑوں لوگ بے روزگار ہو گئے۔
پیر کو جاری ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق ’’ہیومن رائٹس واچ‘‘ نے کہا کہ اُن کارخانوں اور گوداموں کو نشانہ بنایا گیا ہے جہاں خوراک اور ادویات کو رکھا جاتا تھا۔‘‘
ہیومن رائٹس واچ کا کہنا ہے کہ 13 اہم کارخانوں پر ہونے والے 10 حملے بظاہر ’’غیر قانونی‘‘ تھے کیونکہ تنظیم کے مطابق ان کے اردگرد کوئی فوجی تنصیب نہیں تھی۔ تنظیم کا کہنا ہے کہ ان میں سے کچھ فضائی کارروائیاں جنگی جرائم کے زمرے میں آتی ہیں۔
ہیومن رائٹس واچ کی ایک عہدیدار اور رپورٹ کی مصنف پریانکا موٹاپارتھی کا کہنا ہے کہ ’’کارخانوں پر تواتر سے اتحادی ممالک کی فضائی کارروائیوں کا بظاہر مقصد یمن کی خراب حال معیشت کو نقصان پہنچانا ہے تاکہ یہ مستقبل میں بھی ایسی ہی رہے۔‘‘
رواں سال جون میں ہیومن رائٹس واچ اور ایمنسٹی انٹرنیشنل نے مطالبہ کیا تھا کہ جب تک سعودی فورسز یمن میں فضائی کارروائیوں نہیں روکتی اس وقت تک اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی کونسل سے اس کی رکنیت معطل کر دی جائے۔
سعودی عرب کی قیادت میں قائم خلیجی ممالک کے اتحادی کی فضائی کارروائیوں میں اب تک کی رپورٹس کے مطابق 900 سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
ان فضائی کارروائیوں کے علاوہ یمن کی بحری اور فضائی ناکہ بندی بھی جاری ہے جس کی وجہ سے یمن میں خوراک اور ایندھن کی کمی ہو گئی ہے۔
اقوام متحدہ کے دفتر برائے انسانی حقوق کی طرف سے حال ہی میں جاری ہونے والے اعداد و شمار کے مطابق مارچ 2015 سے حوثی باغیوں کے خلاف شروع ہونے والی سعودی عرب کی کارروائیوں کے دوران تین ہزار پانچ سو سے زائد افراد ہلاک جب کہ چھ ہزار تین سو زخمی ہو چکے ہیں۔