اسرائیل کے وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو پر بدعنوانی کے الزامات کی فردجرم عائد کرنے کے مطالبے کو لے کر سیکڑوں مظاہرین ہفتہ کو دیر گئے اٹارنی جنرل کے گھر کے باہر جمع ہوئے۔
ہفتہ وار یہ مظاہرے نیتن یاہو کے خلاف مبینہ مالی بے ضابطگیوں اور میڈیا، بین الاقوامی کاروبار اور ہالی ووڈ کی اہم شخصیات کے ساتھ غیر قانونی تعلقات کے تناظر میں ایک تحریک کی صورت اختیار کرتے جا رہے ہیں۔
نیتن یاہو تواتر سے ان الزامات کو مسترد کرتے ہوئے مُصر رہے ہیں کہ یہ الزامات ان کے خلاف میڈیا کے ایک حصے کی طرف سے تیار کی گئی سازش ہے۔ بظاہر یہ الزامات وزیراعظم کے طویل دور حکومت کے لیے تو خطرہ نہیں ہیں لیکن اس سے نیتن یاہو کی عوامی مقبولیت کا گراف نیچے آیا ہے۔
ہفتہ کو دیر گئے ہونے والے یہ مظاہرے ایک ایسے وقت ہوئے جب ایک ہفتے قبل ہی مظاہروں کے دو اہم منتظمین کو اسرائیل کی سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے بعد گرفتار کر لیا گیا تھا کہ مظاہرے صرف اسی صورت میں کیے جا سکتے ہیں کہ ان کے شرکا کی تعداد 500 سے زائد نہ ہو اور وہ رہائشی علاقوں میں لاوڈ اسپیکر کا استعمال نہ کیا جائے۔
لیکن اسرائیل کی پولیس کا کہنا ہے کہ ہفتہ کو تقریباً دو ہزار افراد اس مظاہرے میں شریک تھے اور انھوں نے لاوڈ اسپیکر کے استعمال سمیت عدالت کی طرف سے وضع کردہ دیگر قواعد کی بھی خلاف ورزی کی۔
یہ مسلسل چالیسواں ہفتہ تھا جب بہتر طرز حکمرانی کے لیے آواز بلند کرنے والے کارکنان مظاہرے کی شکل میں اٹارنی جنرل کے گھر کے باہر جمع ہو رہے ہیں اور اسرائیلی ذرائع ابلاغ میں انھیں قابل ذکر کوریج دی جا رہی ہے۔
اسرائیلی قوانین کے مطابق وزیراعظم کو پارلیمنٹ کے ذریعے ہی ہٹایا جا سکتا ہے لیکن سپریم کورٹ کے ایک فیصلے کے مطابق وزرا اور میئرز پر اگر فرد جرم عائد ہو جائے تو انھیں مستعفی ہونا ہو گا۔
وزیر انصاف یہ کہہ چکے ہیں کہ اس عدالتی فیصلے سے وزیراعظم متاثر نہیں ہوتے۔ لیکن اگر اٹارنی جنرل فرد جرم عائد کرتے ہیں تو پھر نیتن یاہو کے لیے قانونی چیلنجز اور عوامی دباو بڑھ سکتے ہیں۔