واشنگٹن —
ایک نئی عالمی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بھوک اب بھی دنیا بھر میں ایک سنگین مسئلہ ہے اور لوگوں کی خوراک کی ضروریات پورا نہ ہونے کی بڑی وجہ زمین، پانی اور قدرتی وسائل کا غیر مستحکم استعمال ہے۔
یہ بات 2012ء کی 'گلوبل ہنگر انڈیکس ' نامی رپورٹ میں کہی گئی ہے جو ہر سال 'انٹرنیشنل فوڈ پالیسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ (آئی ایف پی آر آئی)'، 'کنسرن ورلڈ وائڈ' اور ایک نجی جرمن تنظیم 'ویلٹ ہونگر ہلفے' مشترکہ طور پر تیار کرتے ہیں۔
جمعرات کو جاری کی جانے والی 2012ء کی رپورٹ میں دنیا کے 17 ممالک میں بھوک کی صورتِ حال کو تشویش ناک قرار دیا گیا ہے جب کہ تین ممالک – برونڈی، اریٹیریا اور ہیٹی – میں خوراک کی کمی کو 'خطرے کے نشان' سے کہیں آگے بتایا گیا ہے۔
تاہم رپورٹ کے مطابق بحیثیت مجموعی افریقہ کے سب صحارا خطے میں گزشتہ 5 سے 10 برسوں کے دوران میں غذائی قلت پر قابو پانے کی جانب قابلِ ذکر پیش رفت ہوئی ہے۔ اس کے برعکس اس عرصے کے دوران میں جنوبی ایشیا میں اس ضمن میں ہونے والی پیش رفت کو ناکافی قرار دیا گیا ہے۔
رپورٹ میں ان ممالک کا بھی ذکر موجود ہے جنہوں نے بھوک پر قابو پانے اور اپنی عوام کی غذائی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے اہم اقدامات کیے ہیں۔ اس ضمن میں اعلیٰ کارکردگی دکھانے پر انگولا، بنگلہ دیش، ایتھوپیا، ملاوی، نکاراگوا، نائیجر اور ویتنام کی کوششوں کی تحسین کی گئی۔
رپورٹ کے مطابق دنیا میں بھوک میں اضافے کا بڑا سبب زمین، پانی اور قدرتی وسائل کا غیر مستحکم استعمال ہے۔ رپورٹ کے مصنفین کےمطابق دنیاکے غریب ترین طبقے، جیسے کسان اور ماہی گیر وغیرہ، اپنی گزر بسر کے لےر براہِ راست زمین اور پانی پر انحصار کرتے ہیں اور ان کی کمی یا زیادتی ان لوگوں پر براہِ راست اثر انداز ہو کر انہیں دستیاب وسائل کی کمی کا باعث بنتی ہے۔
رپورٹ کے مطابق آبادی میں اضافے اور اس کی نقل و حرکت، آمدنی میں کمی، حکومتوں کی ناکام پالیسیاں او غیر مستحکم اور کمزور ادارے بھی قدرتی وسائل میں کمی کا سبب بن رہے ہیں۔
رپورٹ میں 2007ء اور 2008ء میں خوراک کی قیمتوں میں ہونے والے ہوش ربا اضافے، سب صحارا افریقہ میں غیر ملکی اداروں اور کمپنیوں کی جانب سے زرعی زمینوں کا بڑے پیمانے پر حصول ، توانائی کی قیمتوں میں اضافے اور حیاتیاتی تنوع میں کمی جیسے مسائل کو قدرتی وسائل میں کمی کی علامات قرار دیا گیا ہے۔
یہ بات 2012ء کی 'گلوبل ہنگر انڈیکس ' نامی رپورٹ میں کہی گئی ہے جو ہر سال 'انٹرنیشنل فوڈ پالیسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ (آئی ایف پی آر آئی)'، 'کنسرن ورلڈ وائڈ' اور ایک نجی جرمن تنظیم 'ویلٹ ہونگر ہلفے' مشترکہ طور پر تیار کرتے ہیں۔
جمعرات کو جاری کی جانے والی 2012ء کی رپورٹ میں دنیا کے 17 ممالک میں بھوک کی صورتِ حال کو تشویش ناک قرار دیا گیا ہے جب کہ تین ممالک – برونڈی، اریٹیریا اور ہیٹی – میں خوراک کی کمی کو 'خطرے کے نشان' سے کہیں آگے بتایا گیا ہے۔
تاہم رپورٹ کے مطابق بحیثیت مجموعی افریقہ کے سب صحارا خطے میں گزشتہ 5 سے 10 برسوں کے دوران میں غذائی قلت پر قابو پانے کی جانب قابلِ ذکر پیش رفت ہوئی ہے۔ اس کے برعکس اس عرصے کے دوران میں جنوبی ایشیا میں اس ضمن میں ہونے والی پیش رفت کو ناکافی قرار دیا گیا ہے۔
رپورٹ میں ان ممالک کا بھی ذکر موجود ہے جنہوں نے بھوک پر قابو پانے اور اپنی عوام کی غذائی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے اہم اقدامات کیے ہیں۔ اس ضمن میں اعلیٰ کارکردگی دکھانے پر انگولا، بنگلہ دیش، ایتھوپیا، ملاوی، نکاراگوا، نائیجر اور ویتنام کی کوششوں کی تحسین کی گئی۔
رپورٹ کے مطابق دنیا میں بھوک میں اضافے کا بڑا سبب زمین، پانی اور قدرتی وسائل کا غیر مستحکم استعمال ہے۔ رپورٹ کے مصنفین کےمطابق دنیاکے غریب ترین طبقے، جیسے کسان اور ماہی گیر وغیرہ، اپنی گزر بسر کے لےر براہِ راست زمین اور پانی پر انحصار کرتے ہیں اور ان کی کمی یا زیادتی ان لوگوں پر براہِ راست اثر انداز ہو کر انہیں دستیاب وسائل کی کمی کا باعث بنتی ہے۔
رپورٹ کے مطابق آبادی میں اضافے اور اس کی نقل و حرکت، آمدنی میں کمی، حکومتوں کی ناکام پالیسیاں او غیر مستحکم اور کمزور ادارے بھی قدرتی وسائل میں کمی کا سبب بن رہے ہیں۔
رپورٹ میں 2007ء اور 2008ء میں خوراک کی قیمتوں میں ہونے والے ہوش ربا اضافے، سب صحارا افریقہ میں غیر ملکی اداروں اور کمپنیوں کی جانب سے زرعی زمینوں کا بڑے پیمانے پر حصول ، توانائی کی قیمتوں میں اضافے اور حیاتیاتی تنوع میں کمی جیسے مسائل کو قدرتی وسائل میں کمی کی علامات قرار دیا گیا ہے۔