رسائی کے لنکس

کیا ہم دنیا کی غذائی ضروریات پوری کرسکتے ہیں؟


بھوکا بچہ
بھوکا بچہ

’ہاں، ہم ایسا کر سکتے ہیں، لیکن اس کے لیے ہمیں کچھ شرائط پوری کرنا ہوں گی‘: سر گورڈن کونوے کی کتاب بعنوان ’ایک ارب بھوکے‘

دنیا کے بہت سے حصوں میں سبز انقلاب آئے کئی عشرے گذر چکےہیں لیکن غذائی اشیاٴ کی اونچی قیمتوں، اور بھوک اور غربت کے مسائل آج بھی موجود ہیں ۔ اندازہ لگایا گیا ہے کہ دنیا میں شدید بھوک سے دوچار لوگوں کی تعداد تقریباً ایک ارب ہے ۔ اب ایک نئی کتاب میں یہ سوال اٹھایا گیا ہے کہ کیا ہم دنیا کے لوگوں کا پیٹ بھر سکتے ہیں؟

وائس آف امریکہ کے نامہ نگار جو ڈی کیپوئا کہتے ہیں کی سر گورڈن کونوے کی کتاب کا عنوان ہے One Billion Hungry۔ وہ کہتےہیں کہ اس سوال کا جواب کہ کیا ہم دنیا کے لوگوں کا پیٹ بھر سکتےہیں، یہ ہے کہ ہاں، ہم ایسا کر سکتے ہیں، لیکن ہمیں اس کے لیے کچھ شرائط پوری کرنا ہوں گی۔

اُن کے الفاظ میں: ’ہم دنیا کا پیٹ بھر سکتےہیں بشرطیکہ ہم اپنی کوششوں کو مرکوز کریں۔ اگر ہم کافی امداد اور سرمایہ فراہم کریں۔ اگر ہم نئی ٹکنالوجی استعمال کریں۔اگر ہم منصفانہ اور اچھی طرح کام کرنے والی منڈیاں قائم کریں۔ اگر ہم صحیح معنوں میں کاشتکاروں، ماؤں، غذائیت کی ماہرین کی حیثیت سے عورتوں کی طاقت کو صحیح معنوں میں استعمال کریں، اور اگر ہم آب و ہوا کی تبدیلی کےمسئلے سے نمٹیں‘۔

کونوے کہتے ہیں کہ بھوکے ہونے کا مطلب یہ ہےکہ غذائیت سے بھر پور کھانا اتنی مقدار میں موجود نہ ہو جو چاق و چوبند زندگی گذارنے کے لیے ضروری ہے ۔ لیکن وہ یہ بھی کہتےہیں کہ،’ آپ مرد ہیں یا عورت، آپ بوڑھے ہیں یا جوان، اس لحاظ سے آپ کی غذا مختلف ہو گی‘ ۔

’میرے خیال میں بھوک کی بد ترین شکل بچوںمیں غذائیت کی کمی ہے ۔ دنیا میں تقریباً 17 سے 18 کروڑ ایسے بچے ہیں جن کی عمر پانچ برس سے کم ہے، اور جن کی نشو و نما رک گئی ہے ۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ان کی عمر کےلحاظ سے ان کا قد کم ہے۔ اور اس کی وجہ یہ ہے کہ انہیں کافی غذائیت نہیں ملتی ۔ انہیں وٹامن اے کافی مقدار میں نہیں ملتا۔ ان کی غذا میں زنک اور فولاد کافی مقدار میں شامل نہیں ہے‘۔
سبز انقلاب کے زمانے میں زرعی تحقیق اور ٹکنالوجی میں اضافہ ہوا اگرچہ اس سلسلے میں بیشتر کام سنہ1960 کی دہائی کے آخری برسوں میں ہوا۔ زیادہ پیداوار دینے والی فصلوں، کاشتکاری کے جدید طریقوں، مختلف اقسام کی کھاد اور بیجوں کی وجہ سے ایک ارب سے زیادہ لوگوں کی جانیں بچانے میں مدد ملی ہے ۔ کونوے کا کہنا ہے کہ ،سبز انقلاب کامیاب ہوا کیوں کہ اس کی وجہ سے بڑھتی ہوئی آبادی کے ساتھ ساتھ غذائی پیدا وار بڑھتی رہی ۔ خاص طور سے بھارت میں اور جنوبی ایشیا میں سبز انقلاب بہت کامیاب ہوا ۔یہ وہ وقت تھا جب بھارت کو بڑی مقدار میں اناج امریکہ سے در آمد کرنا پڑتا تھا ۔ بھارت چاہتا تھا کہ وہ اپنی ضرورت کا اناج خود پیدا کرے اور سبز انقلاب کی وجہ سے ایسا کرنا ممکن ہو گیا۔

لیکن وہ کہتے ہیں کہ سبز انقلاب کی اپنی کچھ حدود تھیں۔

اِس میں تمامتر توجہ بھارت کی بہترین زمینوں کو دی گئی تھی ۔ اس میں کرم کش ادویات اور کیمیائی کھادوں پر بہت زیادہ انحصار کیا گیا تھا ۔ جن لوگوں کو فائدہ ہوا ان میں غریب لوگوں کی تعداد بہت کم تھی ۔ بھارت میں، اور جنوبی ایشیا میں، بہت سے غریب لوگ سبز انقلاب کی برکتوں سے محروم رہے ۔ اور اس میں افریقہ کو نظر انداز کر دیا گیا ۔

کونوے کا کہنا ہے کہ اب ایک نئے سبز انقلاب کی ضرورت ہے جس میں غذائی پیدا وار میں اضافے کے ساتھ ساتھ کچھ اور باتوں کا بھی خیال رکھا جائے ۔

اُن کے الفاظ میں، اِس بات کو یقینی بنایا جائے کہ پیداوار میں اضافے سے غریبوں کو فائدہ ہو اور اس سے ماحول پر برے اثرات نہ پڑیں۔ یعنی یہ دو معنوں میں سبز انقلاب ہو گا۔ اس میں گیہوں اور چاول کے سبز کھیت ہوں گے، اور یہ سبز ہوگا کیوں کہ یہ ماحول کے لیے مفید ہو گا۔

سبز انقلاب کے دوران، ساری اہمیت پیداوار کو دی گئی تھی اور ماحول کو پس پشت ڈال دیا گیا تھا ۔ Conway کہتے ہیں کہ غذا کی فراہمی کویقینی بنانے کے لیے چار راہیں اپنائی جانی چاہئیں، یعنی ایجاد و اختراع، منڈیاں، غریب لوگوں پر توجہ، اور سیاسی قیادت۔ ان کے بقول، ایجاد و اختراع سے ہماری مراد ایسے طریقے ہیں جن سے پیدا وار میں اضافہ ہو لیکن ان کے دوسرے نقصان دہ اثرات نہ ہوں جن کا تجربہ ماضی میں ہو چکا ہے ۔ہم منصفانہ اور اچھی طرح کام کرنے والی منڈیاں چاہتے ہیں۔ جہاں تک لوگوں پر توجہ کا تعلق ہے، تو ہم خاص طور سے یہ چاہتےہیں کہ عورتوں پر توجہ دی جائے کیوں افریقہ میں اور ترقی پذیر ددنیا میں کاشتکاری کا کا بہت سا کام عورتیں کرتی ہیں۔ سیاسی قیادت سے ہماری مراد یہ ہے کہ یہ انقلاب صر ف اسی صورت میں کارگر ہو گا جب ملک کے لیڈر زرعی ترقی اور غذا کی سیکورٹی پر صحیح معنوں میں توجہ دیں۔

کونوے جو لندن کے امپیریل کالج میں پروفیسر ہیں، کہتے ہیں کہ اس زرعی انقلاب کا انحصار اس بات پر بھی ہے کہ آب و ہوا میں تبدیلی کے اثرات کو ختم کیا جائے اور زرعی طریقوں میں مناسب تبدیلیاں کی جائیں۔

وہ کہتے ہیں کہ، اگر آپ افریقہ کو لیں، تو پیش گوئی یہ ہے کہ 2050 تک فصلیں اگانے کی مدت پانچ فیصد کم ہو جائے گی ۔ گذشتہ سال میں شمالی گھانا میں تھا اور وہاں فصلیں اگانے کا سیزن بہت مختصر تھا ۔ دوسرے الفاظ میں، وہاں بارشیں ایک مہینے تاخیر سے شروع ہوئیں اور ایک مہینہ پہلے ختم ہو گئیں ۔ دوسری بات یہ ہے کہ درجۂ حرارت بڑھتا جا رہا ہے ۔ افریقہ میں جب درجۂ حرارت 30 ڈگری سیلسیس سے اوپر جاتا ہے تو مکئی کی فصل خراب ہونے لگتی ہے ۔

دنیا کی آبادی بڑھنے کے ساتھ ساتھ، گھرانے، ملک اور عالمی سطح پر غذا کی یقینی فراہمی اور بھی اہم ہو جاتی ہے ۔ اقوامِ متحدہ کے انداز ے کے مطابق، 2050 تک دنیا کی آبادی نو ارب سے زیادہ ہو جائے گی ۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ آج کل کے مقابلے میں ، دنیا میں دو ارب مزید انسان رہ رہے ہوں گے۔

کونوے کی کتاب، One Billion Hungry: Can We feed the World? ، نو اکتوبر کو شائع ہو گی۔
XS
SM
MD
LG