پاکستان کی سیاست اور میڈیا کے کئی بڑے نام ماضی میں طلبہ تنظیموں کے رہنما رہ چکے ہیں۔ سابق فوجی صدر ضیا الحق نے تعلیمی اداروں میں طلبہ تنظیموں پر پابندی لگائی تھی اور مبصرین اس اقدام کو سیاست کی نرسری ختم کرنے سے تعبیر کرتے ہیں۔
وائس آف امریکہ یہ جاننے کی کوشش کر رہا ہے کہ طلبہ سیاست سے پاکستان کو کیا ملا؟ پابندی سے فائدہ ہوا یا نقصان؟ اور ضیا الحق کے بعد آنے والی حکومتوں نے اس پابندی کو ختم کیوں نہیں کیا۔
اس سلسلے میں بزرگ صحافی اور سابق طالب علم رہنما حسین نقی سے خصوصی گفتگو پیش کی جارہی ہے۔
سوال: آپ نے ایوب خاں کے دور میں یونیورسٹی میں داخلہ لیا۔ کیا اس وقت طلبہ یونینز ہوتی تھیں یا مارشل لا میں پابندی لگ گئی تھی؟
حسین نقی: میں انیس سو پچپن چھپن میں کراچی کے ڈی جے کالج میں تھا۔ اس کے بعد لاہور آ گیا اور سنہ اٹھاون سے ساٹھ تک اسلامیہ کالج میں پڑھا۔ ایوب خاں کے زمانے میں مارشل لا ہونے کے باوجود اسٹوڈنٹ یونینز پر پابندی نہیں لگی۔ اسلامیہ کالج سول لائنز میں اسٹوڈنٹ یونین کا پہلا الیکشن میرے داخلہ لینے کے بعد ہوا۔ میں اس کا سیکریٹری منتخب ہوا۔ حمید احمد خاں پرنسپل تھے۔ انھوں نے مجھ سے مشورہ کیا تھا کہ آئین کیسے بنایا جائے۔ پروفیسر ایرک سپرئین انگلش لٹریچر پڑھاتے تھے۔ ہم دونوں نے آئین کا مسودہ تیار کیا اور پرنسپل صاحب نے منظوری دی۔ اس کے تحت الیکشن ہوئے۔ گریجویشن کرنے کے بعد میں واپس کراچی چلا گیا۔ یونیورسٹی نئے کیمپس میں منتقل ہو چکی تھی۔ اس سے پہلے جامعہ کراچی لڑکیوں کے ایک مڈل اسکول میں قائم تھی۔ نئے کیمپس میں اسٹوڈنٹ یونین کا پہلا الیکشن ہوا تو فتح یاب علی خان صدر منتخب ہوئے۔ وہ این ایس ایف کے حمایت یافتہ امیدوار تھے۔ کراچی یونیورسٹی کے پہلے وائس چانسلر اے بی اے علیم صاحب نے این ایس ایف کی تشکیل ڈی ایس ایف کے مقابلے پر کی تھی۔ جب میں یونیورسٹی پہنچا تو این ایس ایف بنانے والے طالب علم رہنما ایم اے کر چکے تھے۔ ان کی قیادت نے مجھے اور عبدالودود سے کہا کہ تمھاری تنظیم ڈی ایس ایف پر پابندی لگ چکی ہے۔ اگر تم زیادہ ریڈیکل نہیں ہو تو این ایس ایف میں آ جاؤ تاکہ یہ تنظیم چلتی رہے۔ ہم نے این ایس ایف میں شمولیت اختیار کر لی۔
فتح یاب علی خان کے بعد میں نے اگلے الیکشن میں این ایس ایف کی طرف سے حصہ لیا۔ وائس چانسلر اشتیاق احمد قریشی ترقی پسندوں کے سخت خلاف تھے۔ وہ وزیر تعلیم بھی رہ چکے تھے۔ انھیں طلبہ کو سبق سکھانے کے لیے وائس چانسلر بنایا گیا تھا۔ انھوں نے میرے مقابلے پر ہمارے ہم جماعت مکرم علی خان شیروانی کو کھڑا کروایا۔ ہمارا مقابلہ ہوا اور میں منتخب ہو گیا۔ وائس چانسلر صاحب نے کہا کہ بیلٹ میں کچھ غلطی رہ گئی اس لیے الیکشن دوبارہ ہو گا۔ چنانچہ دوبارہ ہوا اور میں پھر منتخب ہو گیا۔
یونیورسٹی میں تین بلوچ طلبہ کا کسی سے جھگڑا ہو گیا۔ ان میں ایک ہماری کابینہ کے رکن طاہر محمد خان تھے جو بعد میں ڈپٹی چیئرمین سینیٹ اور پیپلز پارٹی کے وفاقی وزیر اطلاعات بھی رہے۔ جھگڑا ہوا تو وائس چانسلر صاحب نے انھیں جامعہ سے خارج کرنے کا حکم دے دیا۔ وہ لوگ حکومت بلوچستان کے وظیفے پر پڑھنے آئے تھے۔ میں نے وائس چانسلر صاحب سے کہا کہ امتحان قریب ہیں، آپ ان کا سال برباد نہ کریں۔ انھوں نے کہا کہ انھیں خارج نہیں کرتا، آپ کو کر دوں؟ میں نے کہا، بے شک کر دیجیے۔
اس طرح میں یونیورسٹی سے نکال دیا گیا۔ میں نے پی پی آئی نیوز ایجنسی میں نوکری کر لی اور تب سے لگ بھگ پچاس برس صحافت میں کام کرتا رہا۔ اب یہ وقت آ گیا ہے کہ کوئی مجھ سے کچھ لکھواتا نہیں کیونکہ میرا موقف کسی کو پسند نہیں آتا۔
سوال: یونیورسٹی سے نکال دیا گیا تو کیا دوبارہ داخلہ نہیں لیا؟ یا کوشش نہیں کی؟
حسین نقی: اس سے پہلے ایک اور واقعہ سن لیں۔ لاہور کے اسلامیہ کالج میں ہیڈ کلرک قاضی صاحب انجمن حمایت اسلام کے بہت چہیتے تھے۔ وہ کچھ لڑکوں کے ساتھ بہت بدتمیزی سے پیش آئے۔ میں یونین کا سیکٹری تھا۔ میں نے ان سے کہا کہ آپ کو ایسے نہیں کرنا چاہیے تھا۔ انھوں نے پرنسپل سے کہا کہ اس لڑکے کو کالج سے خارج کریں۔ اس نے مجھ سے ایسے بات کرنے کی جرات کیسے کی۔ حمید احمد خان صاحب نئے نئے پرنسپل بنے تھے۔ انھوں نے کہا کہ نقی صاحب، میں استعفیٰ دے دوں یا آپ کو خارج کر دوں۔ میں نے کہا، کالج کو بہت مشکل سے کوئی اچھا پڑھا لکھا پرنسپل ملا ہے۔ آپ کی سخت ضرورت ہے۔ مجھے خارج کر دیں۔ انھوں نے خارج کر دیا۔ بعد میں وہ حکم منسوخ کیا لیکن مجھے یونین سے ہٹا دیا۔ میں نے وہیں سے گریجویشن کیا۔
جب مجھے کراچی یونیورسٹی سے نکالا گیا تو وہ مجھے لے کر وائس چانسلر کے پاس پہنچے۔ میں نے منع بھی کیا کہ یونیورسٹی میں میرا داخلہ ممنوع ہے لیکن انھوں نے کہا کہ میں نے وائس چانسلر صاحب سے پوچھ لیا ہے کہ میں ایک دوست کو ساتھ لے آؤں؟ انھوں نے کہا ہے کہ ضرور لائیں۔ اس طرح ہم وائس چانسلر صاحب سے ملے۔
انھوں نے مجھ سے کہا کہ میں تمھارا رسٹیگیشن ختم کروا دیتا ہوں، تم پنجاب یونیورسٹی چلو۔ اس وقت وہ پنجاب یونیورسٹی کے وائس چانسلر بن چکے تھے۔ انھوں نے پیشکش کی کہ ایم اے کر لو گے تو وہیں پڑھانا شروع کر دینا۔ میرے صحافت میں جانے سے وہ بہت نالاں تھے۔ میں نے ان سے پوچھا کہ آپ صحافت کے اس قدر خلاف کیوں ہیں؟ انھوں نے بتایا کہ وہ مولانا ظفر علی خاں کے سوتیلے بھائی ہیں۔ ان کے سلوک کی وجہ سے صحافیوں کے بارے میں ان کی رائے اچھی نہیں رہی تھی۔
سوال: آپ طالب علم تھے تو یونیورسٹی سے خارج کیے گئے۔ صحافی بنے تو حکمرانوں کو پریشان کرتے رہے۔ کیا یہ بات آپ کے خلاف نہیں جاتی؟
حسین نقی: ضیا الحق کے زمانے میں مجھے قلعہ میں رکھا گیا لیکن وہ فوجی مارشل لا تھا۔ اس سے پہلے بھٹو صاحب کے دور میں مجھ پر پابندی لگ گئی تھی کہ نہ میں ایڈیٹر بن سکتا تھا، نہ پبلشر یا پرنٹر ہو سکتا تھا۔ وہ سویلین مارشل لا تھا۔ بھٹو صاحب پہلے بہت تقریریں کرتے تھے۔ جب اقتدار میں آئے تو سختی شروع کر دی۔ ایک ہفت روزہ ’’پنجاب ٹائمز‘‘ کے مالکان نے صفدر میر سے رابطہ کیا جنھوں نے مجھے ایڈیٹر بنانے کی سفارش کی۔ میں اس میں تنقیدی مضامین چھاپتا تھا۔ پیپلز پارٹی کی نسیم اکبر، جو جنرل اکبر کی اہلیہ تھیں، انھوں نے وہ اخبار خرید کر بند کر دیا تاکہ تنقید رکے۔ اس وقت دو لیڈر تھے یعنی بھٹو صاحب اور شیخ مجیب۔ ہم نے دونوں کی سیاست اور اقدامات پر تنقید چھاپی۔ میں مجیب بھٹو مذاکرات کے لیے دونوں بار ڈھاکا گیا۔ میرا خیال تھا کہ کوئی تصفیہ ہو جائے گا لیکن پھر صورتحال کا اندازہ ہو گیا۔
شیخ مجیب نے سنہ 70ء میں لاہور میں ایک تقریر کی تھی جو کہیں شائع نہیں ہوئی۔ انھوں نے کہا تھا کہ الیکشن ہماری پارٹی جیتے گی اور ہم اکثریت میں ہوں گے۔ ہم حکومت بنائیں گے اور آئین تشکیل دیں گے۔ ہم نے مشرقی بنگال میں بنیادی زرعی اصلاحات کی تھیں۔ ہم مغربی پاکستان میں بھی زرعی اصلاحات کریں گے۔ دوسری بات انھوں نے یہ کی کہ جب تک نوکرشاہی اور فوج میں 56 فیصد ملازمین کا تعلق مشرقی بنگال سے نہیں ہو جائے گا، تب تک مغربی پاکستان سے کوئی بھرتی نہیں ہو گی۔ میں نے بھٹو صاحب سے کہا کہ آپ کا فوج اور بیوروکریسی سے اتحاد شیخ مجیب کے ارادوں کی وجہ سے ہوا ہے۔ اس وجہ سے پاکستان ٹوٹ سکتا ہے۔ آپ کی زمینداری بچ جائے گی اور ان کی ترقیاں۔ ایسا ہی ہوا۔ ہماری نگاہوں کے سامنے پاکستان ٹوٹ گیا۔
سوال: جیسی آپ کی طبیعت تھی، آپ کو سیاست میں آنا چاہیئے تھا۔ کیا کسی لیڈر نے پیشکش نہیں کی؟
حسین نقی: مجھے بھٹو صاحب نے خود پیشکش کی۔ دوسرے سیاسی رہنماؤں نے بھی کہا۔ میں سیاست کیسے کرتا؟ میرا کوئی مستقل ذریعہ معاش نہیں تھا۔ میرا تعلق ایک منقسم خاندان سے ہے۔ میری بڑی بہن کی شادی ایک کزن کے ساتھ ہوئی تھی۔ میں ان کے ساتھ پاکستان آیا اور واپس نہیں گیا۔ باقی بھائی بہن انڈیا میں رہے۔ میں شام کے اسکول میں پڑھاتا تھا جو ایک ترقی پسند اسٹوڈنٹ لیڈر کا تھا۔ پانچ پیریڈ پڑھانے کے پچپن روپے ملتے تھے۔ پچیس روپے کا ایک ٹیوشن تھا۔ اس طرح میں نے کراچی یونیورسٹی میں داخلہ لیا۔ بھٹو صاحب نے پیشکش کی تو میں نے کہا کہ اگر پیپلز پارٹی جوائن کروں تو مجھے آپ کے یا کسی اور وڈیرے کے خرچے پر رہنا پڑے گا۔ اس طرح سیاست نہیں کر سکوں گا۔ یا پھر کسی اور طریقے سے پیسے کماتا جو مجھے منظور نہیں تھا۔ میں آزاد رہنا چاہتا تھا۔ البتہ میں پنجاب یونین آف جرنلسٹس کا صدر منتخب ہوا، کراچی یونیورسٹی کی ایگزیکٹو کا رکن رہا اور پریس کلب کا بھی صدر رہا۔
سوال: جنرل ضیا الحق نے طلبہ یونینز پر پابندی کیوں لگائی؟
حسین نقی: طلبہ یونین پر پہلی بار پابندی بھٹو صاحب نے لگائی تھی۔ ملک بھر میں نہیں، کسی ایک تعلیمی ادارے میں۔ اس طرح کی سب سے زیادہ پابندیاں عدالتوں نے لگائی ہیں۔ ضیا الحق نے جب پابندی لگائی تو شرم ناک بات ہے کہ ڈان جیسے اخبار میں اس پابندی کے حق میں اداریہ بھی چھپا۔
پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ شروع سے جمہوری ادارے نہیں چاہتی تھی۔ اسی لیے انھوں نے ماشا اللہ ملک کو توڑنے تک کا کام کیا۔ اسٹیبلشمنٹ نے، ہماری فوج نے، ہماری سول سروس نے۔ وہ کوئی بھی جمہوری ادارے نہیں چاہتے تھے، چاہے آزاد عدلیہ ہو، چاہے پارلیمان ہو، چاہے طلبہ یونین ہوں۔ طلبہ یونینز اس لیے ختم کیں کہ وہ سیاست دانوں کا بریڈنگ گراؤنڈ تھیں۔ جب تک طلبہ یونین رہیں، اس وقت تک قتل و غارت نہیں ہوتی تھی۔ ظفر عباس کا جو چھوٹا بھائی ہے، جو اے ایف پی کے لیے کام کرتا ہے، کیا نام ہے اس کا (اب اے ایف پی کے لیے کام نہیں کرتے، مظہر عباس) ہاں مظہر نے ایک مضمون بھی لکھا تھا کہ جب طلبہ یونینز تھیں تو کتنے قتل ہوئے اور جب نہیں رہیں تو کتنے قتل ہوئے۔ ہمارے زمانے میں کوئی آدمی کراچی یونیورسٹی میں چاقو چھری بھی لے کر نہیں آ سکتا تھا۔ طلبہ یونینز بہت اچھا کام کر رہی تھیں۔ آپ دیکھیں کہ فتح یاب ہوں، معراج محمد خان ہوں، سعید حسن ہوں، اس زمانے کے بہت سے لوگ طلبہ یونین کا حصہ رہے۔ وہ سیاست میں گئے تو اچھا کردار ادا کیا۔ طلبہ یونینز نہ ہونے کے بعد غنڈہ گردی اور قتل و غارت گری کی باقاعدہ سرپرستی کی گئی۔ چاہے ضیا الحق ہوں، چاہے دوسرے لوگ ہوں، سب نے جرائم پیشہ افراد کی سرپرستی کی۔ ایک مذہبی جماعت کی طلبہ تنظیم کو کھلی آزادی تھی کہ قتل کرے، اس کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوتی تھی۔ ہمارے ہاں لاقانونیت کو فروغ دینے میں سب سے زیادہ کردار قانون نافذ کرنے کے ذمے دار اداروں کا ہے۔
سوال: طلبہ یونینز کے جی دار رہنما صحافت میں آ گئے لیکن اب وہ کیوں خاموش ہیں؟ بہادر صحافی برادری سناٹے میں ہے۔ آپ کی میڈیا کے بارے میں کیا رائے ہے؟
حسین نقی: میڈیا کی یہ حالت ہے کہ مجھ سے کوئی نہیں لکھواتا۔ پہلے میں مشرقی پاکستان کے انگریزی اخبارات میں بھی لکھتا تھا۔ ایک ہفت روزہ پنجاب پنچ بھی ایڈٹ کیا۔ اس کے تیس پینتیس شمارے نکلے لیکن لوگ آج تک یاد کرتے ہیں۔ ضمیر نیازی کی کتاب پریس ان چینز میں اس کا ذکر ہے۔
اب دوسرے طریقے کا کاروبار ہو رہا ہے۔ بعض اینکرز ایسے ہیں جو چالیس لاکھ روپے تنخواہ یا کمیشن لیتے ہیں۔ صحافی برادی اب رہی نہیں۔ رہنے نہیں دی گئی۔ ڈان کتنا آزاد اخبار رہ گیا ہے، اس کا اندازہ اس کی خبروں اور ایڈیٹوریل سے کیا جا سکتا ہے۔ بہرحال وہ کوشش کرتے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ ہماری اسٹیبلشمنٹ کافی تجربہ کار ہو گئی ہے۔ وہ ایک دو ایسی جگہیں کھلی رکھتے ہیں کہ دنیا کو بتا سکیں کہ دیکھو بھئی، یہاں ڈان چھپتا ہے۔ یہاں وسعت اللہ خان لکھتا ہے۔ ’’ذرا ہٹ کے‘‘ جیسا پروگرام چلتا ہے۔