رسائی کے لنکس

ایران سے یورینیم کے نمونے برآمدگی کا دعویٰ


بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی ان نمونوں کی حقیقت جاننے کے لیے تحقیقات کررہی ہے اور ایران سے بھی اس پر وضاحت طلب کی ہے۔ (فائل فوٹو)
بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی ان نمونوں کی حقیقت جاننے کے لیے تحقیقات کررہی ہے اور ایران سے بھی اس پر وضاحت طلب کی ہے۔ (فائل فوٹو)

اقوام متحدہ کی بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی (آئی اے ای اے) کے دو سابق سفارت کاروں نے دعویٰ کیا ہے کہ ایران سے یورینیم کے نمونے برآمد ہوئے ہیں۔ جو ایٹمی بم کی تیاری میں استعمال کیے جاتے ہیں۔

خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کے مطابق بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی اِن نمونوں کی حقیقت جاننے کے لیے تحقیقات کررہی ہے اور ایران سے بھی اس حوالے سے وضاحت طلب کی ہے۔

جوہری ایجنسی کے سفارت کاروں کے مطابق مذکورہ نمونے یورینیم کے تھے۔ جو کہ ایٹمی بم کی تیاری کے لیے درکار دو عناصر میں سے ایک ہے۔

ایک سفارت کار کا کہنا ہے کہ تہران سے برآمد ہونے والے یورینیم کا معیار اس قابل نہیں تھا جو کہ ایٹمی ہتھیاروں کی تیاری میں استعمال ہوسکے۔ ایران نے یورینیم کے نمونوں سے متعلق کوئی وضاحتی بیان نہیں دیا۔ اس لیے نمونوں کی حقیقت کے بارے میں کچھ کہنا مشکل ہے۔

اقوام متحدہ کے سفارت کار کا یہ بھی کہنا ہے کہ یہ واضح نہیں ہے کہ یورینیم کے یہ نمونے 2015 کے جوہری معاہدے سے پہلے کے ہیں یا تازہ جوہری سرگرمیوں کے بعد کے ہیں۔

ایک سال قبل اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاھو نے جوہری ایجنسی سے تہران کا دورہ کرنے کا مطالبہ کیا تھا اور کہا تھا کہ تہران نے 15 کلو گرام نامعلوم نوعیت کا تابکاری مواد خفیہ طور پر رکھا ہوا تھا۔

'رائٹرز' کی طرف سے روّاں سال اپریل میں رپورٹ کیا گیا تھا کہ جوہری ایجنسی کی طرف سے تہران کی جوہری تنصیبات کا معائنہ کرلیا گیا تھا اور ماحولیاتی نمونے تجزیے کے لیے بھیج دیے گئے تھے۔ جس کے بعد امریکی اور اسرائیلی ذرائع ابلاغ نے ان نمونوں میں تابکاری مادے کی موجودگی سے متعلق خبریں نشر کی تھیں۔

'رائٹرز' کے مطابق جوہری ایجنسی نے ان نمونوں سے متعلق مؤقف نہیں دیا جب کہ ایرانی حکام بھی مؤقف دینے کے لیے دستیاب نہیں ہیں۔

اسرائیل کے اقوام متحدہ میں سفارت کار ڈینی ڈینسن کا اپنی ٹوئٹ میں کہنا ہے کہ جوہری ایجنسی کی طرف سے اسرائیلی مؤقف کی تصدیق ہوگئی ہے۔ ایرانی حکومت سے اس کا جواب طلب کیا جانا چاہیے۔

اسرائیلی وزیراعظم کا ردّعمل

اگلے ہفتے ہونے والے اسرائیلی انتخابات سے قبل فیس بُک لائیو ویڈیو میں اس رپورٹ سے متعلق پوچھے گئے سوال پر اسرائیلی وزیراعظم کا کہنا تھا کہ یہ معاملہ جوہری ایجنسی دیکھ رہی ہے اور اُن کے لیے اس پر کچھ کہنا ممکن نہیں ہے۔

نیتن یاہو کا مزید کہنا ہے کہ ہمارے مستقبل سے متعلق یہ معاملہ بہت اہم ہے اور میں اس معاملے پر ایک لمحے کے لیے بھی صبر نہیں کروں گا۔

یاد رہے کہ ایران اور عالمی طاقتوں کے درمیان 2015 میں ہونے والے جوہری معاہدے کی اسرائیلی وزیراعظم نے مخالفت کی تھی۔

جوہری ایجنسی اور امریکی خفیہ ایجنسیوں کا ماننا ہے کہ ایران نے جوہری معاہدے سے دس سال پہلے ہی جوہری پروگرام بند کردیا تھا۔

ایران 2015 میں امریکہ کے ساتھ جوہری معاہدے کے بعد سالہا سال کی اقتصادی تنہائی سے باہر آیا تھا۔ جوہری معاہدے کے ضامن برطانیہ سمیت یورپی ممالک بھی تھے. تاہم، گزشتہ سال امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اس جوہری معاہدے کو ناقص قرار دیتے ہوئے اس سے یکطرفہ طور پر علیحدگی اختیار کر لی تھی۔

صدر ٹرمپ نے رواں سال ایران سے تیل درآمد کرنے والے آٹھ بڑے ممالک کو بھی ایرانی خام تیل درآمد کرنے سے روک دیا تھا۔ ایران نے بھی ردعمل کے طور پر جوہری معاہدے سے دستبردار ہونے کی دھمکی دی تھی۔

ایران نے جوہری معاہدے کے ضامن یورپی ممالک پر زور دیا تھا کہ وہ اسے امریکی پابندیوں کے اثرات سے بچائیں اس ضمن میں ایران نے ان یورپی ممالک کو دو ماہ کا وقت دیا تھا جس میں مزید توسیع کر دی گئی ہے۔

XS
SM
MD
LG