توانائی کا بین الاقوامی ادارہ اس بات کی تصدیق کرے گا آیا ایران اپنے جوہری پروگرام کی سطح میں کمی لانے کے عزم پر عمل درآمد کر رہا ہے، تاکہ اُس پر بین الاقوامی تعزیرات ہٹانے کی راہ ہموار ہو۔
گذشتہ جولائی میں اسلامی جمہوریہ اور عالمی طاقتوں کے درمیان جوہری سمجھوتا طے پایا تھا جس کی رو سے ایران یورینئیم کی افزودگی کی سرگرمیاں گھٹائے گا اور اُنھیں معائنے کے لیے کھول دے گا، جس کے عوض اُس کے خلاف پابندیاں ہٹا دی جائیں گی۔
وائٹ ہاؤس کے ترجمان، جوش ارنیسٹ نے جمعے کے روز کہا ہے کہ امریکہ اس بات سے آگاہ ہے کہ ایران نے سمجھوتے میں کئے گئے وعدے کو پورا کرنے میں اہم پیش رفت دکھائی ہے۔ لیکن، ایران کو تب تک تعزیرات میں نرمی نہیں دی جائے گی، جب تک توانائی کا بین الاقوامی ادارہ عمل درآمد کی تصدیق نہ کرے۔
اُنھوں نے کہا کہ اس میں وہ تمام راہیں شامل ہیں جن سے ایران اپنا قابل ِانشقاق مواد حاصل کرتا ہے، اور ساتھ ہی ساتھ وہ یورینیئم کے ذخیرے کا 98 فی صد کو تلف کرے گا۔ بقول اُن کے، ’ہم تعزیرات کو دوبارہ عائد کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں‘۔
اسرائیلی وزیر اعظم بینجامن نیتن یاہو اس سمجھوتے کے اعلانیہ مخالف ہیں، جو امریکہ اور دیگر عالمی طاقتوں کی جانب سے طے کیا گیا تھا۔ اُن کا کہنا ہے کہ اس سے جوہری ہتھیار بنانے کی ایران کی کوششیں کم نہیں ہوں گی، جن سے اسرائیل کو خطرہ لاحق رہے گا۔ مارچ میں، دورہٴ امریکہ کے دوران، ریپبلکن پارٹی کے اکثریت والے ایوان ِنمائندگان سے خطاب کرتے ہوئے، اُنھوں نے اِس کے بارے میں اپنی تشویش ظاہر کی تھی۔ دورے میں اُنھوں نے امریکی صدر براک اوباما سے ملاقات نہیں کی تھی۔
سفارتی ذرائع نے جمعے کے دِن فرانسیسی خبر رساں ادارے کو بتایا کہ ہر طرح کی کوشش کی جارہی ہے جس سے امریکہ اور اقوام متحدہ کے ساتھ یورپی یونین ایران کے خلاف تعزیرات ختم کر سکیں، جسے جولائی کے سمجھوتے پر ’عمل درآمد کا دِن‘ قرار دیا جا رہا ہے۔
اس بیان سے ایک ہی روز قبل ایران نے کہا ہے کہ اُس نے ارک کے بھاری پانی کے جوہری ری ایکٹر کو بندکردیا ہے اور اس کے کچھ حصے کو سیمنٹ سے بھر دیا ہے، جس کا مطلب یہ ہوا کہ اب یہ جوہری ہتھیار بنانے کے قابل نہیں رہا۔
ایران اس بات پر مصر رہا ہے کہ اس کا جوہری پروگرام پُرامن مقاصد کے لیے ہے۔ تعزیرات کے نتیجے میں ایران کا کم از کم 50 ارب ڈالر کا اثاثہ منجمد ہے۔