کراچی ... سمندری ہواؤں کے تیز تھپیڑے، گہرے پانیوں میں بل کھاتی چھوٹی بڑی کشتیاں، گدھا گاڑیوں پر مچھلیوں کی ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقلی، کنارے کنارے آباد جھوپڑا ہوٹل اور اپنی ہی مگن میں مست لوگ ۔۔۔ کٹے ہوئے درختوں کے دیو ہیکل تنے، بڑی بڑی آرا مشینیں۔۔ یہ ذکر ہی اس بات کا پتہ دیتا ہے ہم کراچی کی ایک قدیم بستی ’ابراہیم حیدری‘ کی بات کررہے ہیں۔
ابراہیم حیدری کی سب سے بڑی پہچان ماہی گیری ہے۔ دن کے کسی بھی حصے میں چلے جائیے شکار پر جاتی کشتیاں اور شکار کے لئے جال بنتے لوگ نظر آہی جائیں گے۔
ماہی گیری کے علاوہ یہ ساحل کشتیوں کی تعمیر اور ان کی مرمت کے لئے بھی شہر بھر میں مشہور ہے۔ کشتی بنانے کا فن صدیوں پرانا ہے۔ اسلامی تاریخ میں حضرت نوح علیہ سلام کے زمانے کا ذکر بھی کشتی سے خالی نہیں۔ لیکن، گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ کشتی سازی کی تکنیک اور اس میں استعمال ہونے والے اوزاروں نے جدت اختیار کرلی ہے۔ مثلاً پرانے زمانے میں لکڑی کو چھیلنے کے لئے بازوں کی طاقت سے چلنے والا ’رندا‘ استعمال ہوتا تھا، مگر اب یہی کام بجلی کی مدد سے چلنے والے جدید رندے سے لیا جارہا ہے۔
ہو سکتا ہے کسی دور میں کشتی کو سجانے کے لئے کوئی اور محنت طلب طریقہ استعمال کیا جاتا ہو۔ لیکن، آج کشتی کی سجاوٹ کے لئے پھول بوٹے اس قدر جدید اوزاروں سے بنائے جاتے ہیں کہ جیسے لکڑی ’گودنا‘ گویا برف کے گولے بنانے جیسا آسان ہوا۔ لیکن، یہ کام انتہائی مہارت اور اچھا خاصہ تجربہ مانگتا ہے۔
یورپ اور دیگر ترقی یافتہ ملکوں کے برعکس جہاں کشتی سازی کے لئے کمپیوٹر اور جدید آلات کی مدد لی جاتی ہے، وہیں پاکستان میں کشتی بنانے کے فن میں ماہر کاریگر آج بھی اپنے ہاتھوں اور نسل در نسل منتقل ہونے والے طریقہ کار پر انحصار کرتے ہیں۔
لیکن، اس کے باوجود، کشتی سازی کے فن سے جڑے کاریگروں کا کہنا ہے پاکستان میں تیار ہونے والی کشتیاں بین الاقوامی معیار کی ہوتی ہیں جن کا مقابلہ دنیا کے کسی بھی ملک میں بننے والی کشتیوں سے کیا جاسکتا ہے۔
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق پاکستانی خاص کر ابراہیم حیدری میں بنی کشتیاں دبئی، سعودی عرب اور ایران سمیت دنیا کے کئی ممالک کو برآمد کی جاتی ہیں۔
پاکستان یہاں کی مقامی لکڑی کیکر، لاچی، سارس اور انڈونیشیا سے برآمد کی جانے والی سب سے شاندار لکڑی ’برماٹیک‘ سے کشتی سازی کے لئے مشہور ہے۔ کشتیوں کی قیمتوں کا تعین کشتی کی قسم، سائز اور لکڑی کی قیمت کی مناسبت سے ہوتا ہے۔ یعنی جتنی مہنگی لکڑی، اتنی ہی مہنگی کشتی۔
کشتی کی دوسری سب سے اہم چیز انجن ہے۔ یہ انجن زیادہ تر سنگاپور، افغانستان اور چین سے منگوائے جاتے ہیں۔انجن کی معیاد یوں تواس کے استعمال سے مشروط ہے۔ لیکن، ابراہیم حیدری میں کئی کئی عشروں پرانے انجن مرمت کرکے ایک مرتبہ پھر ان کی معیاد میں کئی سال کا اضافہ کردیتے ہیں۔۔ رہی بات ’رسک‘ کی تو اسے ’قسمت‘ پر چھوڑ دیا جاتا ہے۔
ابراہیم حیدری مچھلی کا جال بنانے اور اس کی خرید و فروخت کے لئے بھی ملک بھر میں مشہور ہے۔ یہاں کی خواتین اور مرد سب جال بننا جانتے ہیں وہ بھی نہایت مہارت کے ساتھ۔ کراچی کے علاوہ ملک بھر کے تمام ساحلی علاقوں کے لوگ جال خریدنے کے لئے ابراہیم حیدری کو ہی ترجیح دیتے ہیں۔
مچھلی پکڑنے کے جال کو مقامی زبان میں ’راش‘ کہتے ہیں۔ مچھیروں کا ذریعہ آمدنی یہی دو چیزیں ہیں۔ یعنی ماہی گیری اور جال بننا۔ کسی زمانے میں جال مختلف قسم کی گھاس سے بنائے جاتے تھے۔ زمانہ بدلا تو کاٹن کے جال بننے لگے اوراب یہ جال ’نائیلون‘ سے بنائے جاتے ہیں۔ایک جال بننے میں کتنا وقت لگتا ہے۔ اس کا انحصار جال کی لمبائی، چوڑائی، مضبوطی اور وزن پر ہوتا ہے۔
مقامی زبانوں میں جال کے بھی کئی نام ہیں جیسے ’ٹھکری‘ ، ’لاٹھی جوبان‘، ’کاٹرو‘، ’گجو‘ اور’بیلو‘۔ جال کی کچھ قسمیں صرف جھینگے پکڑنے کے لئے استعمال ہوتی ہیں جبکہ کچھ جال ایسے بھی ہی جو خطرناک تو ہوتے ہی ہیں۔ حکام اعلیٰ اور ارباب اختیار نے ان پر پابندی بھی لگا رکھی ہے۔ کیوں کہ یہ جال سمندری حیات کے لئے خطرناک اور نقصان دہ ہیں۔
بے شک معاشرے کی ناانصافیوں اور عدم اعتدال کے سبب یہ بستی غریب مچھیروں اور تنگ دستی سے پریشان ماہر کاریگروں کے سر چھپانے کا ٹھکانہ ہے مگر اس حقیقت سے بھی کسی کو انکار نہیں ہوسکتا کہ یہ ملکی معیشت کو آکسیجن پہنچانے والی صنعتوں کا ایک اہم حصہ ہے۔
زیر نظر رپورٹ سے منسلک ویڈیو میں وائس آف امریکہ کے نمائندے نے اس بستی اور یہاں رہنے والے ’عام آدمی‘ کی ’عام زندگی‘ کے کچھ حقیقی منظر پیش کرنے کی چھوٹی سی سعی کی ہے، ملاخطہ کیجئے:
ابراہیم حیدری کی سب سے بڑی پہچان ماہی گیری ہے۔ دن کے کسی بھی حصے میں چلے جائیے شکار پر جاتی کشتیاں اور شکار کے لئے جال بنتے لوگ نظر آہی جائیں گے۔ ماہی گیری کے علاوہ یہ ساحل کشتیوں کی تعمیر اور ان کی مرمت کے لئے بھی شہر بھر میں مشہور ہے