ٹرمپ انتظامیہ نے جرائم کی عالمی عدالت (آئی سی سی) کو دھمکی دی ہے کہ اگر اُس نے امریکی فوج اور انٹیلی جنس اہلکاروں کی طرف سے افغانستان میں مبینہ جنگی جرائم کی تحقیقات کیلئے قدم اُٹھایا تو اسے سنگین نتائج بھگتنا ہوں گے۔
تاہم، آج منگل کے روز جرائم کی عالمی عدالت نے ایک بیان میں کہا ہے کہ وہ کسی دباؤ میں آئے بغیر اپنا کام جاری رکھے گی۔ ہیگ میں قائم اس عالمی عدالت اپنے نے بیان میں کہا ہے کہ یہ ایک خود مختار اور غیر جانبدار عدالت ہے اور اسے دنیا کے 123 ممالک کی حمایت حاصل ہے۔
اس سے قبل امریکہ کے قومی سلامتی کے مشیر جان بولٹن نے پیر کے روز کہا کہ اگر عدالت نے تحقیقات جاری رکھنے کا فیصلہ کیا تو ’آئی سی سی‘ ججوں اور وکلائے استغاثہ کے امریکہ میں داخلے پر پابندی عائد کر دی جائے گی؛ امریکہ میں موجود آئی سی سی کے فنڈز منجمد کر دئے جائیں گے اور اُن پر امریکی عدالتوں میں مقدمات چلائے جائیں گے۔ اُنہوں نے کہا کہ عالمی عدالت کو امریکہ اور دیگر ایسے ممالک کے لوگوں کے خلاف تحقیقات کا اختیار نہیں ہونا چاہئیے جنہوں نے اس عدالت کے قیام کی توثیق نہیں کی تھی۔
امریکہ نے سابق صدر جارج ڈبلیو بش کے دور میں اُس بین الاقوامی معاہدے کی توثیق سے انکار کر دیا تھا جس کے تحت جرائم کی اس بین الاقوامی عدالت کا قیام عمل میں آیا تھا۔ اس کے بجائے امریکہ نے امریکی فوجی اہلکاروں کے تحفظ کا ایک ایکٹ منظور کیا تھا جس میں کسی بھی امریکی فوجی کو عدالت سے چھڑوانے کیلئے ہر ممکن اقدام کا اختیار دیا گیا تھا۔
انٹرنیشنل کریمنل کورٹ (آئی سی سی) کا قیام مستقل اور آزادانہ بنیادوں پر 2002 میں عمل میں آیا تھا، تاکہ وہ مختلف ممالک کے دباؤ سے آزاد رہتے ہوئے جنگی جرائم، انسانیت کے خلاف جرائم اور قتل عام کے واقعات کی تحقیقات کر سکے۔
آئی سی سی کے وکیل استغاثہ فیٹو بینسوڈا نے گزشتہ برس کہا تھا کہ اُن کے پاس ایسے شواہد موجود ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ افغانستان میں جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف جرائم کا ارتکاب کیا گیا۔ اُنہوں نے کہا تھا کہ اس تنازعے میں شامل تمام فریقین کے کردار کا بھرپور جائزہ لیا جائے گا جن میں امریکی فوج اور سی آئی اے بھی شامل ہیں۔
وکیل استغاثہ فاٹو بینسوڈا نے گزشتہ برس افغانستان میں امریکی فوجیوں اور خفہ ایجنسی سی آئی اے کی طرف سے نامناسب اقدامات کی تحقیقات کیلئے عدالت سے اجازت طلب کی تھی۔ ان مبینہ جنگی جرائم کا تعلق افغانستان کے ایک خفیہ حراستی مرکز سے باہر آنے والی ایک رپورٹ سے ہے۔