پاکستان کے قبائلی علاقوں میں رواں سال کی تیسری سہ ماہی کے دوران تشدد کے واقعات میں قابل ذکر کمی واقع ہوئی لیکن دیسی ساختہ بم یا بارودی سرنگوں کو اب بھی یہاں کی آبادی کے لیے ایک بڑا خطرہ قرار دیا جا رہا ہے۔
قبائلی علاقوں سے متعلق کام کرنے والے ایک غیر سرکاری مرکز "فاٹا ریسرچ سنٹر" کی جاری کردہ تازہ رپورٹ میں بتایا گیا کہ جولائی سے ستمبر کے دوران گزشتہ سہ ماہی کی نسبت تشدد کے واقعات میں 44 فیصد کمی دیکھی گئی۔
اپریل سے جون کے دوران قبائلی علاقوں میں تشدد کے 100 واقعات رپورٹ ہوئے لیکن تیسری سہ ماہی میں ان واقعات کی تعداد 56 بتائی گئی۔
ان میں عسکریت پسندوں کے حملے اور ان کے خلاف سکیورٹی فورسز کی کارروائیاں دونوں ہی شامل ہیں۔
اس مرکز سے وابستہ سلامتی کے امور کے سینیئر تجزیہ کار عرفان الدین نے ہفتہ کو وائس آف امریکہ سے گفتگو میں بتایا کہ تشدد پر مبنی واقعات میں ماضی کی نسبت کمی خوش آئند ضرور ہے لیکن یہاں کی مقامی آبادی کے لیے صورتحال اب بھی خطرناک ہے۔
"فاٹا میں سلامتی کی صورتحال بہتر ضرور ہوئی ہے تاہم بارودی سرنگیں اب بھی یہاں کی آبادی خصوصاً جنوبی وزیرستان کے محسود علاقے کے لیے ایک بڑا خطرہ ہیں۔ یہ بم عسکریت پسندوں اور ان کے خلاف برسرپیکار سکیورٹی فورسز دونوں ہی کی جانب سے لگائے گئے ہیں۔"
ان کے بقول تیسری سہ ماہی میں تشدد کے زیادہ تر واقعات افغان سرحد سے ملحقہ علاقوں میں ہوئے اور ان میں دیسی ساختہ بموں کا ہی استعمال کیا گیا۔
پاکستان کی سکیورٹی فورسز نے حالیہ برسوں اور خصوصاً رواں برس قبائلی علاقوں میں بھرپور فوجی کارروائیاں کر کے عسکریت پسندوں کی آماجگاہوں اور ٹھکانوں کو تباہ کرنے کا بتایا ہے اور حکام کے بقول یہاں موجود دہشت گردوں کے نیٹ ورکس اب ختم کر دیے گئے ہیں۔
عرفان الدین کے خیال میں سکیورٹی فورسز کی کارروائیوں سے امن و امان کی صورتحال بہتر ہوئی اور بڑی تعداد میں عسکریت پسندوں کا خاتمہ بھی ہوا لیکن یہ نہیں کہا جا سکتا کہ شدت پسند ان علاقوں میں کارروائیاں کرنے کے قابل نہیں رہے۔
"تشدد میں 44 فیصد کمی آئی ہے لیکن یہ آپ کو یہ نہیں بتاتی کہ فاٹا میں امن پورا آ گیا ہے ابھی عسکریت پسندوں کی استعداد کم ہوئی ہے لیکن یہ خطرہ برقرار ہے اور آگے بھی ہم دیکھتے ہیں مستقبل قریب میں اس میں دوبارہ اضافہ ہو سکتا ہے۔"
ان کا کہنا تھا کہ جو عسکریت پسند قبائلی علاقوں یا افغان علاقوں میں روپوش ہیں وہ یہاں کارروائیاں کر سکتے ہیں۔