رسائی کے لنکس

ضیاءالحق نے طلبہ تنظیموں سے خوفزدہ ہو کر ان پر پابندی لگائی، افتخار احمد


پاکستان کی سیاست اور میڈیا کے کئی بڑے نام ماضی میں طلبہ تنظیموں کے رہنما رہ چکے ہیں۔ سابق فوجی صدر ضیاءالحق نے تعلیمی اداروں میں طلبہ تنظیموں پر پابندی لگائی تھی اور مبصرین اس اقدام کو سیاست کی نرسری ختم کرنے سے تعبیر کرتے ہیں۔

وائس آف امریکہ یہ جاننے کی کوشش کر رہا ہے کہ طلبہ سیاست سے پاکستان کو کیا ملا؟ پابندی سے فائدہ ہوا یا نقصان؟ اور ضیاءالحق کے بعد آنے والی حکومتوں نے اس پابندی کو ختم کیوں نہیں کیا۔

اس سلسلے میں سینئر صحافی اور سابق طالب علم رہنما افتخار احمد سے خصوصی گفتگو پیش کی جارہی ہے۔

طلبہ، کسانوں اور مزدور تنظیموں پر پابندی نہیں ہونی چاہیے
please wait

No media source currently available

0:00 0:01:37 0:00

سوال: جب آپ نے کالج میں داخلہ لیا، اس وقت کون سی طلبہ تنظیمیں سرگرم تھیں اور آپ کس تنظیم کا حصہ بنے؟

افتخار احمد: میں نے ساٹھ کی دہائی کے آخر میں کالج میں داخلہ لیا۔ اس زمانے میں تین تنظیمیں اسلامی جمعیت طلبہ، نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن اور مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن سرگرم تھیں۔ جمعیت جماعت اسلامی کی ذیلی تنظیم تھی جبکہ این ایس ایف آزاد خیال، لبرل اور پاکستان میں تبدیلی چاہنے والے طلبہ پر مشتمل تنظیم تھی جو سارے پاکستان میں پھیلی ہوئی تھی۔ میں کسی تنظیم کا حصہ نہیں بنا۔ لاہور اور راولپنڈی میں خود رو تنظیمیں تھیں جو پیپلز پارٹی کی حامی تھیں۔ جو نوجوان پیپلز پارٹی میں شامل ہو رہے تھے، انھوں نے خود ہی فیصلے کیے کہ ہم نے اپنی تنظیمیں بنانی ہیں۔ وہ خود ہی پیپلز پارٹی کی مقامی قیادت کے ساتھ منسلک ہو گئے جو بائیں بازو کے فلسفے اور تاریخ کو جانتے تھے اور نوجوانوں کی تربیت کرتے تھے۔ ہر ہفتے باقاعدگی سے اجلاس ہوتے تھے۔ لڑکوں نے ان سے سیکھا اور پھر ان کا کسانوں سے اور مزدوروں سے رابطہ ہوا۔ اس طرح یہ ایک علیحدہ دھڑا بن گیا۔ ہم نے اس زمانے میں اپنی تنظیم انڈیپنڈنٹ اسٹوڈنٹس لیگ بنائی تھی۔ اس میں وہ تمام طلبا شامل تھے جو جمعیت، این ایس ایف اور ایم ایس ایف سے اختلاف رکھتے تھے۔ پیپلز پارٹی کے بعد سب سے زیادہ گرفتاریاں بھی آئی ایس ایل نے دی تھیں۔

سوال: آپ نے طلبہ سیاست میں کیوں حصہ لیا اور آپ کا آئیڈیل کون تھا؟

افتخار احمد: میں نے طلبہ سیاست میں کسی کے کہنے پر حصہ نہیں لیا اور نہ ہی کسی پر احسان کیا۔ اس وقت ملک میں ظلم ہو رہا تھا۔ انسانی حقوق کے ساتھ مذاق کیا جا رہا تھا۔ جب شاعروں کو، ادیبوں کو گرفتار کیا جا رہا تھا، پریس پر چھاپے مار رہے تھے، اس وقت نوجوان اپنا کردار ادا نہ کرتے تو بہت ناانصافی ہوتی۔ تاریخی طور پر ہمارا یہ فرض تھا کہ ہم لوگوں کی آواز بنیں اور جدوجہد کریں۔ پاکستان کو بنے ہوئے بہت تھوڑا عرصہ ہوا تھا۔ عوام کے پاس اتنی ہمت نہیں تھی کہ سب سڑکوں پر آ کر مظاہرے کرتے۔ انھیں لیڈرز کی ضرورت تھی لیکن لیڈرز تو ایک دو ہی ہوتے ہیں۔ طلبہ لیڈرز کے متبادل کے طور پر سامنے آئے اور انھوں نے ایوب خان کے خلاف جدوجہد کی۔ ایوب خان کے خلاف تحریک میں جہاں بڑا کردار سیاسی جماعتوں کا تھا، وہاں طلبہ تنظیموں کے کردار کو آپ نظرانداز نہیں کر سکتے۔

سوال: طلبہ تنظیموں کے بارے میں سوچیں تو لڑائی جھگڑے اور گولیاں چلنے کا تصور آتا ہے۔ کیا آپ کے وقت میں بھی ایسا ہی تھا؟

افتخار احمد: شروع میں ایسا نہیں تھا۔ جب نظریاتی جنگ تیکھی ہوتی گئی، جماعت اسلامی پر دباؤ بڑھتا گیا، جماعت اسلامی کے امیر کا جہاز مشرقی پاکستان میں اترنے نہیں دیا گیا تو اس نے جارحانہ مؤقف اپنانا شروع کردیا۔ جماعت اسلامی نے ذیلی تنظیمیں بنا لیں اور ان تنظیموں نے جارحانہ سیاست شروع کر دی۔ دوسری تنظیموں نے ان کے سامنے مزاحمت کرنے کے لیے جارحانہ رویہ اپنایا۔ چاقو چھری کا استعمال بہت بعد میں شروع ہوا۔

سوال: ذوالفقار بھٹو سے آپ کی ملاقات کیسے ہوئی اور آپ پیپلز پارٹی کا حصہ کیسے بنے؟

افتخار احمد: ابھی پیپلز پارٹی نہیں بنی تھی جب میری بھٹو سے ملاقات ہوئی۔ یہ ملاقات گورنمنٹ کالج اسٹوڈنٹ یونین کے صدر امان اللہ خان نے لاہور کے فلیٹیز ہوٹل میں کروائی۔ میں نے بھٹو کی باتوں کو سنا اور اس نتیجے پر پہنچا کہ ایوب خان کے خلاف کوئی جدوجہد کامیاب ہو سکتی ہے تو وہ اسی لیڈر کی قیادت میں ہو سکتی ہے۔ باقی لیڈرز کی ایسی کرشماتی شخصیت نہیں تھی۔ وہ ہمیں قائل کر گیا کہ ایک نئی سیاسی جماعت کی کیوں ضرورت ہے۔ میں نے پیپلز پارٹی میں شامل ہونے کے لیے چار آنے کی پرچی جمع کروائی جس پر بھٹو نے دستخط بھی کیے۔

سوال: طلبہ سیاست میں حصہ لیتے ہوئے آپ کو سب سے پہلے کب اور کیوں گرفتار کیا گیا؟

افتخار احمد: یہ پیپلز پارٹی کے ابتدائی دنوں کی بات ہے کہ مجھے، شیخوپورہ کے صادق مسیح اور لاہور جی او آر کے علاؤالدین، ہم تین کو گرفتار کیا گیا اور تھانہ مزنگ میں رکھا گیا۔ اگلے دن عبدالستار نجم اور ایس ایم مسعود مرحوم ہماری ضمانتیں کرانے کے لیے آئے۔ ہم پر الزام عائد کیا گیا کہ ہم لوگوں کو ریاست کے خلاف بغاوت پر اکسا رہے تھے۔ ان دنوں نعرہ لگانے پر دفعہ 144 کی خلاف ورزی کرنے کے الزام میں گرفتار کر لیا جاتا تھا۔

سوال: آپ نے عملی سیاست کی بجائے صحافت کا پیشہ کیوں اختیار کیا؟

افتخار احمد: میں نے سوچا کہ یہ اظہار کا بہترین طریقہ ہو گا۔ چونکہ میرا عوام کے ساتھ گہرا تعلق تھا اور میں عوامی مسائل کو سمجھتا تھا تو میں نے سوچا کہ عوامی مسائل کے بارے میں لکھنا چاہیے۔ اس کے علاوہ میں صحافی ہونے کے باوجود سیاست میں رہنا چاہتا تھا تاکہ سیاسی معاملات کو دیکھ سکوں، سیکھ سکوں اور سمجھ سکوں۔ میں نے اپنی تین دہائیوں سے زیادہ صحافت کے تجربے میں سیاست کے بارے میں بہت کچھ سیکھا ہے۔ میں پاکستانی سیاست کے بہت سے واقعات کا عینی شاہد ہوں۔ اس کے علاوہ مجھے روزگار بھی مل گیا۔

سوال: آپ کو کبھی الیکشن لڑنے یا سینیٹر بننے کی پیشکش کی گئی؟

افتخار احمد: میرے پاس انیس سو تہتر چوہتر میں ایک موقع تھا جب سمن آباد سے رکن پنجاب اسمبلی کی وفات ہو گئی۔ اس وقت میں الیکشن لڑ سکتا تھا۔ یہ موقع مجھے مل سکتا تھا۔ لیکن ہمارے سینئر ایس ایم مسعود کو پارٹی ٹکٹ دیا گیا۔ اگر وہ موقع مجھے مل جاتا تو میں کسی صوبے کا کم عمر ترین وزیر اعلیٰ بن جاتا۔

سوال: ضیا الحق نے کن وجوہ پر طلبہ تنظیموں پر پابندی لگائی؟

افتخار احمد: اس پابندی کا ایک پس منظر ہے۔ ویت نام کی جنگ کے بعد امریکہ میں طلبہ کا جو اپ سیٹ ہوا، وہ ایک تاریخی واقعہ ہے۔ اس کے علاوہ اسی عشرے میں تاشقند معاہدہ ہونے کے بعد سب سے پہلا ردعمل بھی طلبہ کی طرف سے سامنے آیا۔ لاہور میں مظاہرے شروع ہو گئے اور دو طلبہ مارے گئے۔ اس کے بعد بھٹو نے فیصلہ کر لیا کہ اس نے ایوب خان کے ساتھ نہیں چلنا۔ ایک طرف امریکہ میں ویت نام جنگ کے بعد کا ماحول تھا، ادھر پاکستان میں تاشقند کا مسئلہ آ گیا۔ دونوں واقعات میں طلبا کا کلیدی کردار تھا۔ ضیاءالحق نے طلبہ تنظیموں پر پابندی ساٹھ کی دہائی میں طلبہ کی جدوجہد اور قربانیوں کو مدنظر رکھتے ہوئے لگائی۔ ضیا الحق کو خوف تھا کہ جو نوجوان پیپلز پارٹی میں ہیں اور وہ ان ساری چیزوں سے متاثر ہو رہے ہیں، وہ نئی تحریک نہ شروع کر دیں۔

سوال: کیا آپ طلبہ تنظیموں کے حق میں ہیں اور کیا آپ سمجھتے ہیں کہ یہ پابندی ہونی چاہیے؟

افتخار احمد: میں طلبہ تنظیموں پر پابندی کے سخت خلاف ہوں۔ میں کسان تنظیموں پر پابندی کے سخت خلاف ہوں۔ میں مزدوروں کی تنظیموں پر پابندی کے سخت خلاف ہوں۔ معاشرے کے ان تین طبقات کو قومی دھارے میں شامل ہونے کی اجازت نہ دے کر قوم کے ساتھ ظلم کیا جا رہا ہے۔ انتخابات میں ووٹر ٹرن آؤٹ چالیس پنتالیس فیصد ہوتا ہے۔ پچپن فیصد لوگ پارلیمانی دھارے سے باہر بیٹھے ہیں۔ یہ تنظیمیں گلی گلی محلے محلے میں ہوتی ہیں۔ یہ تنظیمیں اپنے شعور سے لوگوں کو آگاہ رکھتی ہیں۔ جہاں ایک تنظیم کا آدمی ہو گا تو وہاں دوسری تنظیم کا بھی آدمی ہو گا۔ اس طرح بحث و مباحثہ جنم لے گا۔ مباحثہ کیے بغیر آپ ملک کا کوئی مسئلہ حل نہیں کر سکتے۔ آپ دیکھ لیں کہ نجی یونیورسٹیاں کتنی فیسیں لے رہی ہیں۔ وہ کبھی طلبا تنظیمیں نہیں بننے دیں گی۔ اگر طلبہ کو شعور آ گیا تو وہ فیسیں کم کرنے کا مطالبہ کریں گے۔ جو مالکان یونیورسٹیاں چلا رہے ہیں اور کہتے ہیں کہ وہ تعلیم کی خدمت کر رہے ہیں، ان کے لیے مشکلات پیدا ہو جائیں گی۔

سوال: آپ کا کیا خیال ہے کہ اگر طلبہ تنظیموں پر پابندی نہ لگتی تو آج پاکستان کے حالات مختلف ہوتے؟

افتخار احمد: سو فیصد۔ پاکستان زیادہ ترقی پسند ہوتا۔ پاکستان میں قوانین زیادہ مضبوط ہوتے۔ لوگوں میں زیادہ سیاسی شعور ہوتا۔ لوگ سیاسی جماعتوں میں شامل ہو کر بھرپور طریقے سے اپنا کردار ادا کرتے۔

XS
SM
MD
LG