رسائی کے لنکس

جانوروں کی بیماریوں کی انسانوں کو منتقلی کا سبب جنگلی حیات کی اسمگلنگ


یہ خدشات موجود ہیں کہ کرونا وائرس پینگولین کی وجہ سے پھیلا۔
یہ خدشات موجود ہیں کہ کرونا وائرس پینگولین کی وجہ سے پھیلا۔

کووڈ 19 کے پھیلاؤ نے دنیا کو ایک بار پھر یاد دلایا ہے کہ جنگلی حیات کی اسمگلنک نہ صرف ماحولیات کے لیے ایک خطرہ ہے بلکہ جانوروں کی غیر قانونی منتقلی انسانی صحت کے لیے بھی مضر ثابت ہو رہی ہے۔

اقوام متحدہ کے ادارے ورلڈ وائلڈ لائف کی 2020 کی رپورٹ برائے جرائم کے مطابق جنگلی جانوروں کو ذبح کر کے ان کے گوشت کی غیر قانونی خرید و فروخت سے جانوروں سے انسانوں میں منتقل ہونے والی بیماریوں کی شرح میں اضافہ ہوتا ہے۔

اعداد و شمار کے مطابق جانوروں سے انسانوں میں منتقل ہونے والی بیماریاں دنیا میں پھیلنے والی متعدی بیماریوں کا 75 فی صد ہیں اور ان میں کرونا وائرس بھی شامل ہے جس نے عالمی وبا کی صورت اختیار کر کے پوری دنیا کو متاثر کیا ہے۔

اقوام متحدہ کے نشہ آور ادویات اور جرائم سے متعلق ادارے کے سربراہ غدا ولی کہتے ہیں کہ بین الاقوامی سطح پر جرائم میں ملوث گروہ جنگلی حیات کی سمگلنگ سے پیسے بنا رہے ہیں لیکن ان کے جرائم کی قیمت غریب عوام ادا کر رہے ہیں۔

یو این او ڈی سی کے نام سے موسوم ادارے نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ پینگولن دنیا میں سب سے زیادہ اسمگل کیا جانے والا جانور ہے اور یہ وہی جانور ہے جو ماہرین کے مطابق ممکنہ طور پر کرونا وائرس پھیلانے کا سب سے بڑا ذریعہ بنا ہے۔

عالمی ادارہ صحت کے ماہرین چین جا کر کووڈ 19 کے پھیلنے کا باعث بننے والے جانوروں کے سلسلے میں مزید تحقیق کریں گے۔

سال 2012 اور 2018 کے دوران پینگولن کی کھال کی سمگلنگ کی روک تھام کے لیے کوششیں دس گنا تیز کی گئیں جس سے پتہ جلا کہ جنگلی حیات میں یہ سب سے زیادہ اسمگل کیا جانے والا جانور ہے۔

گزشتہ ایک دہائی میں چھ ہزار اقسام کے جانوروں کی غیر قانونی منتقلی کی روک تھام کر کے انہیں بچایا گیا۔ ان میں رینگنے اور دودھ پلانے والے جانوروں کے علاوہ پرندے، مچھلیاں اور سمندری حیات شامل ہیں۔

اس غیر قانونی تجارت میں ملوث افراد کا تعلق دنیا کے 150 ممالک سے ہے جس سے اس بات کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ یہ اسمگلنگ عالمی سطح پر کتنے وسیع پیمانے پر پھیلی ہوئی ہے۔

جہاں تک ماحولیات کا تعلق ہے تو ایک طرف تو جنگلی حیات میں کمی سے جانوروں کی مختلف اقسام کم ہونے سے قدرتی توازن کو خطرہ ہے۔ اور دوسری جانب جرائم پیشہ گروہوں کی روز ووڈ یعنی گلاب لکڑی کی اسمگلنگ سے ماحول پر منفی اثرات بڑھ رہے ہیں۔

اس کے علاوہ مضبوط لکڑی کے فرنیچر میں بڑھتے ہوئے استعمال کی وجہ سے بھی ماحول پر اثرات میں اضافہ ہو رہا ہے۔

رپورٹ کا ایک روشن پہلو یہ ہے کہ ہاتھی دانت اور گینڈوں کے سینگوں کی تجارت میں کمی واقع ہوئی ہے۔ کئی سمگلر شیروں اور چیتوں جیسے بڑے جانوروں میں دلچسبی رکھتے ہیں۔ اور اب تو ان کی غیر قانونی تجارت انٹرنیٹ کے ڈیجیٹل ذرائع سے بھی ہونے لگی ہے جن میں ایسی ایپس شامل ہیں۔ جنہیں استعمال کرنے والوں کے علاوہ کوئی اور نہیں پڑھ سکتا۔

ادارے کے سربراہ ولی کہتے ہں کہ ایسے حالات میں بین الاقوامی تعاون مزید بڑھانے اور مضبوط کرنے کی ضرورت ہے تا کہ دنیا بھر میں جنگلی حیات اور ماحول کو درپیش خطرات سے بچایا جا سکے۔

XS
SM
MD
LG