پاکستان کی طرح سعودی عرب میں بھی سینما انڈسٹری ایک نئے دور سے گزر رہی ہے۔ ایک وقت تھا کہ یہاں فلموں کا تذکرہ تک نہیں ہوتا تھا لیکن اب وہاں سینما گھروں کی تعمیر میں اضافہ ہو رہا ہے۔
ملکی سطح پر تو سعودی عرب میں فلمیں نہیں بن رہیں، البتہ پاکستان، بھارت اور مصر سمیت کئی دیگر ممالک کی فلمیں وہاں نمائش کے لیے پیش کی جا رہی ہیں۔ جب کہ سینما انڈسٹری میں بھی غیر ملکی سرمایہ کاروں اور کمپنیوں کا کردار بڑھ رہا ہے۔
کینیڈا کی ایک فرم "آئی میکس" بھی ایسی ہی کمپنیوں میں شامل ہے جو سعودی عرب کی سینما انڈسٹری میں سرمایہ کاری کا ارادہ رکھتی ہیں۔
"آئی میکس" کے چیف آپریٹنگ آفیسر رچ گیلفونڈ ان دنوں فرانس میں جاری کان فلم فیسٹیول میں موجود ہیں جہاں ایک تقریب سے خطاب میں ان کا کہنا تھا کہ سعودی عرب میں نمائش کے لیے پیش کی جانے والی فلموں کو پذیرائی مل رہی ہے۔
ان کے بقول سعودی عرب کی فلمی صنعت میں سرمایہ کاری کے وسیع تر مواقع موجود ہیں۔
سعودی عرب میں دبئی کی فرام واکس کے اشتراک سے آئی میکس کے پہلے ہی دو سینما گھر کام کر رہے ہیں، تاہم آئی میکس براہ راست سعودی عرب میں کام کرنا چاہتا ہے۔
اس وقت سعودی عرب میں اے ایم سی، واکس، سنے پولس اور ایمپائر نامی کمپنیاں سینما گھر بنا رہی ہیں۔
فلمی صنعت سے وابستہ افراد کے مطابق سعودی عرب میں تھیٹرز کی کامیابی کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ رواں سال کے آغاز پر جدہ میں ملک کا پہلا سینما گھر قائم ہوا تھا۔ جس سے چار ماہ کے دوران 15 لاکھ ڈالر کی آمدنی ہوئی۔ جب کہ اب اس کاروبار میں ہر نئے دن کے ساتھ اضافہ ہو رہا ہے۔
سینما انڈسٹری سے منسلک افراد کے مطابق سعودی عرب کا مقابلہ متحدہ عرب امارات، بحرین، کویت، مصر اور لبنان کی فلم انڈسٹری سے ہو گا جہاں فلمی صنعت کی جڑیں کافی مضبوط ہیں۔
تجزیہ کاروں کے مطابق سعودی عرب میں فلمی صنعت کی ترویج و ترقی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کی مرہون منت ہے جو ملک میں تفریحی سرگرمیوں کو فروغ دینا چاہتے ہیں۔
سعودی عرب دنیا کے دیگر ممالک کو خام تیل برآمد کرنے والا ایک بڑا ملک ہے، تاہم ولی عہد محمد بن سلمان متبادل صنعتوں کو فروغ دے کر انہیں معاشی دھارے میں لانا چاہتے ہیں۔ سینما انڈسٹری بھی ان میں سے ایک ہے۔
ماضی میں سعودی عرب کے شہری ملک میں سخت قوانین نافذ ہونے کے باعث تفریحی سرگرمیوں کے لیے متحدہ عرب امارات یا بحرین کا رخ کرتے تھے تاہم اب ملکی سطح پر ان سرگرمیوں کو فروغ دیا جا رہا ہے۔
ایک محتاط اندازے کے مطابق سعودی شہری ہر سال تفریحی سرگرمیوں کی مد میں کروڑوں ڈالر دیگر ممالک میں جا کر خرچ کر دیتے تھے۔ جس پر قابو پانے کے لیے ملکی سطح پر تفریح کے مواقع فراہم کیے جا رہے ہیں۔