کرونا وائرس کا پھیلاؤ روکنے کے لیے دنیا کے مختلف حصوں میں لاک ڈاؤن جاری ہے اور شہریوں کے گھروں سے باہر نکلنے پر پابندیاں عائد کی جا رہی ہیں۔ ایسے میں ہمارے نمائندے ان مناظر کو بیان کر رہے ہیں جو انہیں اس صورتِ حال میں رپورٹنگ کے دوران دکھائی رہے ہیں۔ وہ اس بارے میں اپنے تاثرات بھی قلم بند کر رہے ہیں۔
عید تو ہے، مگر گلے مت ملیئے
نوید نسیم، لاہور۔۔۔۔۔۔ 25 مئی 2020
بازاری سحریاں، نہ ریستورانوں میں افطاریاں، درزیوں کی سنسان دکانیں اور دوپٹہ رنگنے والوں کی راہ تکتی نگاہیں، خواتین کی چوڑیوں کی دکانوں پر تکرار، نہ مہندی لگوانے والی لڑکیوں کی بھرمار، حلوائیوں کی رنگ برنگی مٹھائیوں کی مانگ اور نہ بیکریوں پر عید کیک کی طلب، مساجد میں نماز عید کے بعد گلے لگنے والا کوئی اور سب سے بڑھ کر گھر آنے کو کوئی تیار اور نہ کوئی اپنے گھر مدعو کرنے پر رضا مند۔
یہ احوال ہے، اس سال منائی جانے والی عید الفطر کا۔ اس صورت حال آغاز پچھلے سال دسمبر میں چین سے پھوٹنے والی وبا سے ہوا۔ تیزی سے پھیلنے والے اس مہلک وائرس نے دنیا بھر میں اتنا خوف و ہراس پھیلا دیا ہے کہ لوگ اپنے گھروں میں بند کر رہ گئے ہیں۔ اور ایک دوسرے سے ملنے سے احتیاط کرتے ہیں کہ کہیں وائرس نہ لگ جائے۔
ماہ رمضان کے بعد عید پر عمومی ایک ایسا ماحول ہوتا ہے کہ ہر شخص جیسے بھی ہو، نئے کپڑے پہن لیتا تھا۔ عید کی صبح کا آغاز میٹھی سویوں سے کرنے کے بعد رشتے داروں، عزیز و اقارب اور دوستوں سے گلے ملنے کا ختم نہ ہونے والا سلسلہ شروع ہو جاتا تھا۔ نماز عید کے بعد عید ملنے والے گلے ملے بغیر جاتے نہیں تھے۔
لیکن اس بار کرونا وائرس کے سبب حالات یہ ہیں کہ مسجد کے امام صاحب، جنہیں گلے ملنے والوں کی قطاریں لگی ہوتی تھیں۔ اس بار وہ ان سے پناہ مانگ رہے تھے۔ حتی کہ نماز کے بعد گلے لگ جانے والے بھائی اور باپ بیٹا، یہی کہتے ہوئے سنائی دیے۔ عید کا تو دن ہے۔ پر گلے مت ملیے۔
نماز عید کے دوران بلکہ ہر نماز کے دوران امام صاحب کی طرف سے نمازیوں کو صفیں باندھنے سے پہلے ہدایات دی جاتی ہیں کہ کندھے سے کندھا لگا کر کھڑے ہوں اور ایک دوسرے سے فاصلہ نہ رکھیں۔ لیکن اس بار امام صاحب نے نماز کی ادائیگی سے قبل احتیاطی تدابیر کو باور کراتے ہوئے ہدایات دی گئیں کہ ایک دوسرے سے دوری اختیار کریں اور بعد از دعا گلے ملنے سے اجتناب کیا جائے۔
اس عید کی ایک اور مختلف بات یہ تھی کہ شوال کا چاند نظر آنے کا جو اعلان رویت ہلال کمیٹی کے سربراہ مفتی منیب الرحمان رات گئے کرتے تھے۔ اس بار وہ اعلان سائنس و ترقی کے وفاقی وزیر فواد چوہدری نے دن دیہاڑے ہی کر دیا۔ جس کے بعد چاند دیکھنے کا جو روایتی جوش و جذبہ ہوتا تھا، اسے بھی کرونا کی نظر لگ گئی۔
ہر سال رویت ہلال کے اعلان کے بعد لاہور کے بازاروں میں گہما گہمی ہوتی تھی۔ امید کی جا رہی تھی کہ رویت ہلال کے اعلان کے بعد حکومت کی طرف سے مارکیٹوں کا وقت بڑھا دیا جائے گا۔ تاہم چاند کا اعلان ایسے وقت کیا گیا۔ جب مارکیٹیں بند ہو چکی تھیں۔ جس کی وجہ سے چاند رات کی رونقیں ویسی تو نہ تھیں، جیسی ہر سال ہوتی ہیں۔ تا ہم رات گئے جتنے لاہوری بازاروں کا رخ کر سکتے تھے، وہ پہنچ گئے۔
ویسے تو کہتے ہیں کہ عید تو ہوتی ہی بچوں کی ہے۔ لیکن اس عید پر بچے بھی کرونا وائرس کی وجہ سے شدید پریشان ہیں۔ لگ بھگ دو ماہ سے لاک ڈاؤن میں رہنے کی وجہ سے ان کی حالت اب یہ ہے کہ جب ان سے کہا گیا کہ اس بار عید پر نانی کے گھر بھی نہیں جا سکتے تو ان کی آنکھوں میں ایسا غصہ دکھائی دیا کہ پتہ نہیں کیا کر گزریں۔
اس عید پر والدین نے بچوں کو بہلانے پھسلانے کے لیے زیادہ عیدی کا لالچ بھی دیا۔ لیکن ان کا کہنا تھا کہ ایسی عیدی کا کیا فائدہ جو خرچ ہی نہ کی جا سکے۔
اس عید پر محلے گلیوں میں لگنے والے اسٹال اور ٹھیلے بھی غائب رہے۔ گلیوں میں چورن چھولے والا آیا اور نہ رنگ برنگ گولے غنڈے والا۔ بچے جو عیدی سے دھوپ والی عینکیں، رنگا رنگ پرس، جوسز، آئسکریم، بوتلیں اور طرح طرح کی ٹافیاں خریدتے تھے۔ اس سے بھی قاصر رہے۔
لاہور کے وہ علاقے جہاں اب بھی کچھ پرانی روایات باقی ہیں۔ وہاں بچے ان جھولوں کی راہ تکتے رہے۔ جن پر بیٹھ کر وہ اٹلی، اسپین، فرانس اور امریکہ کا تخیلاتی دورہ کرتے تھے۔
حکومت نے لاک ڈاؤن میں نرمی کرتے ہوئے مارکیٹیں اور شاپنگ مالز تو کھول دیے تھے۔ لیکن ابھی تک ریستوران اور پارکس نہیں کھولے گئے۔ جس کی وجہ سے والدین بچوں کو تفریح کے لیے پلے ایریاز یا ریستورانوں میں نہ لے جا سکے۔ جہاں کچھ دیر کے لیے وہ بہل جاتے تھے۔
ایسے میں بچوں کے پاس جو آپشن بچتا تھا، وہ نانو کا گھر ہے۔ جہاں جا کر بچے موبائل گیمز اور کارٹون بھول جاتے ہیں۔ مگر اس سال عید پر والدین بچوں کو نانو گھر جانے سے بھی گریزاں رہے اور نانو کے گھر میں رہنے والے ماموں بھی اپنے بھانجے بھانجیوں کو مدعو کرنے کے لیے اتنے پرجوش نہیں تھے، جتنے ہر عید پر ہوتے تھے۔
رپورٹرز ڈائری: تین دن کرونا اور چار دن عوام کے، سمجھوتا ہو گیا
سدرہ ڈار، کراچی-- 17 مئی 2020
23 مارچ کو جب حکومت کی جانب سے کرونا وائرس کے سبب لاک ڈاؤن کا اعلان ہوا تو لوگوں نے اسے ایک سادہ سا معاملہ سمجھا۔ لیکن باہر نکلنے پر انہیں معلوم ہوا کہ بات اتنی سادہ نہیں ہے۔ شہر میں جگہ جگہ سخت ناکے اور پولیس کے پہرے ایسے ہی نہیں لگائے گئے ہیں۔ دکھائی نہ دینے والا کوئی ایسا طاقت ور دشمن موجود ہے جو چھپ کر وار کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتا ہے۔
لیکن دوسری جانب ہم بھی وہ قوم ہیں جو چانس لینے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ لیکن جب دو دن کے بعد رینجرز کے ہاتھوں میں ڈنڈے اور کچھ نوجوانوں کی ٹھکائی ہوتی نظر آئی تو اندازہ ہوا کہ معاملہ زیادہ ہی گڑبڑ ہے۔ اب احتیاط کرنا ہی ہو گی۔
احتیاط کا آغاز ہوا۔ لیکن ہر گزرتے دن کے ساتھ عوام بے چینی سے دو ہفتوں کا لاک ڈاؤن ختم ہونے کا انتظار یوں کرنے لگے جیسے کرونا دو ہفتوں کے بعد فلائٹ پکڑ کر اور پاکستانیوں کو "گڈ بائے، سی یو اگین" کہہ کر رخصت ہو جائے گا۔ مگر ہوا یہ کہ لاک ڈاؤن کا دورانیہ بڑھتا ہی گیا اور کرونا جم کر کھڑا ہو گیا۔
لیکن اب لگتا یوں ہے کہ کرونا کے سرکار کے ساتھ معاملات طے پا گئے ہیں۔ تاجروں کے ساتھ مذاکرات میں حکومت نے کرونا کو بھی شامل کر کے یہ طے کیا ہے کہ اب پیر تا جمعرات چار دن تاجروں اور عوام کے ہوں گے اور ہفتے کے بقیہ تین دن یعنی جمعہ تا اتوار کرونا کو دے دیے جائیں گے۔ جس دوران دکانیں اور کاروبار بند اور لوگ گھروں کے اندر رہیں گے اور سنسان سڑکوں اور شاہراہوں پر کرونا راج کرے گا۔
تمام معاملات طے ہوتے ہی لوگ ہجوم در ہجوم سڑکوں پر نکل آئے۔ برینڈز کی دکانوں پر عورتوں کا رش بتا رہا ہے جیسے یہ عید کی خریداری کا آخری موقع ہے۔ پھر کچھ ملنے کا نہیں۔
حیدری مارکیٹ، طارق روڈ، پاپوش نگر، لیاقت آباد، زینب مارکیٹ کے باہر تل دھرنے کو جگہ نہیں ہے۔ گھنٹوں ٹریفک جام نے ان لوگوں کی چیخیں نکال دیں جو ان دنوں کسی اجنبی کی چھینک اور کھانسی سے ڈر جاتے ہیں۔ باہر سے گھر آئیں تو سب سے پہلے واش روم میں جاتے ہیں اور جب تک نہا دھو کر دوسرے کپڑے نہ پہن لیں، انہیں اطمینان ہی نہیں ہوتا۔
جن لوگوں نے کرونا کے ڈر سے اپنی ساری شاپنگ آن لائن کر لی تھی، درزی کو سلنے کے لیے کپڑے بھی ماسک اور دستانے پہن کر دیے تھے اور دوپٹے پیکو نہ ہونے پر صبر شکر کر لیا تھا، اب بازاروں میں جنگی منظر دیکھ کر سوچتے ہیں کہ شاید ان کا خوف نفسیاتی دباؤ کے باعث تھا۔
ہفتے کو مجھے اپنی بہن کے ساتھ جناح اسپتال میں زیرِ علاج اپنی نانی کی عیادت کے لیے جانا پڑا۔ رکشے والے نے کہا، "باجی آج سڑکیں خالی ملیں گی کیوں کہ سخت لاک ڈاؤن کا دوسرا روز ہے۔ اگر آپ پیر کو جائیں گی تو گھنٹوں تک ٹریفک جام میں پھنس سکتی ہیں۔"
جب ہم مرکزی شاہراہ پر پہنچے تو وہاں پولیس والے ایک درخت کے سائے میں کرسیاں بچھائے خوش گپیاں کرتے نظر آئے۔ میں نے حیرت سے کہا کہ لاک ڈاؤن اگر سخت ہے تو یہ کیوں اتنے آرام سے بیٹھے ہیں؟
مزید پڑھیے
رپورٹرز ڈائری: 'ہم مسلمان ہو گئے ہیں، کچھ راشن ہی دلوا دیں'
ثمن خان، لاہور -- 15 مئی، 2020
دنیا کے بیشتر ممالک کے شہریوں کی طرح ہم لاہور والوں کے لیے بھی لاک ڈاؤن کی اصطلاح اور تجربہ بالکل نیا تھا۔ حکومتِ پنجاب کی جانب سے لاک ڈاؤن کیے جانے کے بعد مجھے پہلی حیرت کا سامنا اس وقت کرنا پڑا جب میں نے دفتر سے گھر جاتے ہوئے اپنے علاقے کے بازار کو اندھیرے میں ڈوبا ہوا پایا۔
رات نو بجے کا وقت تھا جب میں لاک ڈاؤن کے پہلے روز دفتر سے گھر روانہ ہوئی تھی۔ میرے علاقے کا بازار جو رات گئے بھی روشن رہا کرتا تھا وہ اب مکمل طور پر اندھیرے میں تھا۔ ریستوران ہوں یا چھابڑی اور ٹھیلوں پر سامان بیچنے والے، جنرل اسٹور اور بیکریاں، دودھ دہی کی دکانیں اور نان بائی کا ہوٹل، سب ہی کے شٹر ڈاؤن تھے اور بجلی بند۔
دیر رات تک جاگنے والے لاہوریوں کی طرح میں بھی یہ سوچ رہی تھی کہ اگر اب نصف شب بچوں نے پیزا یا برگر کی فرمائش کی یا مجھے خود ٹھنڈی بوتل یا آئس کریم کی طلب ہوئی تو کس دکان کا دروازہ کھٹکھٹائیں گے۔
خیر اگلے چند روز صورتِ حال کو سمجھنے اور پابندی کے اطلاق کی حدود جاننے میں لگے۔ پھر ہمیں معلوم ہو گیا کہ بس جو بھی خریداری کرنی ہے شام پانچ بجے سے پہلے ہی کر لیں اور اپنی ذائقے کی حس کو بھی صبح ہی جگا کر پوچھ لیں کہ آپ شام یا نصف شب میں کیا تناول کرنا پسند فرما سکتی ہیں۔
اس دوران لاہور شہر کے وہ مناظر دیکھے جو اس سے پہلے شاید ہی کبھی دیکھے ہوں گے۔ روشنیوں سے جگمگاتی لبرٹی مارکیٹ کی تاریکی، تل دھرنے کی جگہ نہ رکھنے والے اچھرہ بازار کی تنہائی اور شور برپا کرتے انار کلی بازار کی خاموشی تو ڈرانے لگی تھی۔
ہم صحافی لوگ ہیں۔ صبح ہو یا شام، کہانیوں کی تلاش میں شہر گردی لگی رہتی ہے۔ بھاگتے دوڑتے لاہور کو سکون کا سانس لیتے دیکھنا آنکھوں کو تو شاید اچھا لگتا ہو لیکن دل کا کیا کریں جو کہتا ہے کہ لاہور جی! اب بہت آرام کر لیا، ناراضگی چھوڑو اور چلو کام پر لگ جاؤ۔
یوں تو اب پنجاب حکومت نے احتیاطی تدابیر کے طور پر لگائی گئی پابندیوں میں کافی حد تک نرمی کر دی ہے۔ لیکن اس لاک ڈاؤن نے لوگوں کی اکثریت کو معاشی طور پر خاصا پیچھے دھکیل دیا ہے۔
روایتی اور ثقافتی ماحول میں آنے والی تبدیلی تو پھر بھی قبول ہو جائے گی لیکن ان لوگوں کی بے بسی کا کیا کریں جو کرونا وائرس کی پاکستان آمد کے ساتھ ہی آئسولیشن میں جانے کے بجائے سڑکوں پر آ گئے۔
لاک ڈاؤن کی شروعات میں تو صرف مزدور پیشہ لوگ اپنے اڈے چھوڑ کر بیلچے، رنگ و روغن اور دیگر ساز و سامان کے ساتھ اہم شاہراہوں اور ہاؤسنگ سوسائیٹیز کے باہر بیٹھے نظر آتے تھے۔ لیکن جوں جوں وقت گزرتا رہا لوگوں کی مشکلات زیادہ ہوتی گئیں۔
لاک ڈاؤن میں نرمی سے قبل تو شہر میں یہ صورتِ حال تھی کہ جہاں سے بھی گزر ہوتا، تھوڑے تھوڑے فاصلے پر کچھ خاندان دکھائی دیتے تھے۔ وہ ہر آنے جانے والی گاڑی کو دیکھ اپنا ہاتھ سر تک لے جا کر سلام کرتے تھے کہ شاید کوئی ان کے ان کہے سوال کو سمجھ جائے۔
مزید پڑھیے
رپورٹرز ڈائری: 'بلوچستان میں ایسے حالات پہلے نہیں دیکھے'
مرتضیٰ زہری، کوئٹہ -- 13 مئی، 2020
اگر یہ کہیں کہ پاکستان میں کرونا وائرس براستہ تفتان اور بلوچستان داخل ہوا تو یہ غلط نہیں ہو گا۔ کیوں کہ پاکستان میں ابتدائی طور پر رپورٹ ہونے والے کرونا وائرس کے زیادہ تر کیسز ایران سے آنے والے زائرین میں سامنے آئے تھے جو براستہ تفتان پاکستان پہنچے تھے۔
بلوچستان میں ہم نے بہت سے واقعات کی رپورٹنگ کی ہے۔ دہشت گردی اور ٹارگٹ کلنگ سے لے کر لاپتا افراد کی کہانیوں تک۔ مگر سب سے زیادہ مشکلات اس عالمی وبا کی کوریج کے دوران ہی پیش آئیں۔ کیوں کہ ایسے حالات ہم نے پہلے کبھی نہیں دیکھے۔
جب بلوچستان میں کرونا وائرس سے متاثرہ افراد کی کوریج کی بات آئی تو میں کوئٹہ سے تفتان روانہ ہوا۔ تفتان جو ضلع چاغی کی تحصیل اور ایک چھوٹا سا گاؤں ہے، کوئٹہ شہر سے 632 کلو میٹر کی مسافت پر قائم ہے۔
روانگی سے قبل کچھ دوستوں نے بتایا تھا کہ تفتان میں وبائی مرض پھیلنے کا خدشہ ہے۔ اس لیے وہاں سے کھانے پینے کی اشیا ہرگز نہ خریدیں۔ لہٰذا ہم نے احتیاطاً کوئٹہ سے ہی کھانے پینے کا بندوبست کیا۔
رات آٹھ بجے کے قریب ڈرائیور کے ہمراہ تفتان کے لیے روانہ ہوئے۔ لیکن نوشکی پہنچ کر ہمیں معلوم ہوا کہ ہم براستہ سڑک تفتان تک کا سفر نہیں کر سکتے۔ کیوں کہ راستے میں تمام پیٹرول پمپ بند ہیں۔ آدھی رات کے وقت اگر کہیں بھی گاڑی کا فیول ختم ہوا تو ہم آگے نہیں جا سکیں گے۔ اس لیے ہم نوشکی ہی سے کوئٹہ واپس آ گئے۔
بعد ازاں ہم نے تفتان میں موجود لوگوں سے واٹس ایپ پر ویڈیوز منگوائیں اور کرونا وائرس سے متعلق خوب کوریج کی۔ اس وقت کوئٹہ اور ملک بھر میں کچھ حلقے کرونا وائرس کو مذاق سمجھتے ہوئے ایک سازش قرار دے رہے تھے۔ لیکن بعد میں جب کوئٹہ میں قرنطینہ مراکز بنے اور متاثرہ افراد کو یہاں لایا گیا تو ہم نے اکثر لوگوں کی رائے بدلتے دیکھی۔
شہروں میں تو لوگوں نے کرونا کے خوف سے ماسک لگانا شروع کر دیے۔ ہر ایک کو سینیٹائزر کے استعمال اور 20 سیکنڈز تک ہاتھ دھونے سے متعلق آگاہی مل گئی۔ مگر بلوچستان کے دیہی علاقوں میں بسنے والے لوگ عالمی وبا اور اس کے نقصانات سے بے خبر اور بے خوف ہی رہے۔
کوریج کے دوران میں نے ایک دیہی علاقے میں کچھ دیہاتیوں کو دیکھا جو کھیتوں کے پاس درخت کے سائے میں بیٹھ کر قہوہ چائے پی رہے تھے۔ جب ان سے بات کی تو پتا چلا کہ وہ کرونا وائرس کے بارے میں کچھ بھی نہیں جانتے اور بے خوف ہو کر اپنے کھیتوں میں کام کر رہے ہیں۔
انہیں حکومت سے صرف یہ گِلہ تھا کہ ان کے علاقے میں صحت کا بنیادی مرکز بنایا جائے جہاں بخار اور سردرد کی دوا موجود ہو۔
مزید پڑھیے
رپورٹرز ڈائری: میری گریجویشن کی 'ورچوئل' تقریب
نورین شمس، واشنگٹن ڈی سی -- 11 مئی، 2020
گزشتہ منگل کی دوپہر میں بڑے عرصے بعد تھوڑا سا تیار ہوئی تھی۔ ہلکا پھلکا میک اپ کر کے اور بال سنوار کر اپنے اپارٹمنٹ کے برآمدے میں بیٹھی اپنے لیپ ٹاپ کو دیکھ رہی تھی۔
میں تیار تو ہوئی لیکن صرف اتنی کہ 'زوم' کے آئینے میں میرا چہرہ اور میری جیکٹ اچھی نظر آئے۔ باقی حقیقتاً تو میں عام گھریلو لباس اور اسپنج کی چپل پہنے ہوئے تھی۔ کیوں کہ وہ کہاں 'زوم' میں نظر آنی تھی۔
جیکٹ پہننے اور میک اپ کرنے کی واجبی سی ہمت بھی بس اس لیے کی تھی کیوں کہ آج میری 'فل برائٹ ہمپفری فیلوشپ' کی گریجویشن تقریب تھی۔ اور وہ بھی ورچوئل۔
ایک سال بیت چکا ہے لیکن مجھے ابھی کل ہی کی بات لگتی ہے جب میں فل برائٹ ہمفری فیلوشپ پر گزشتہ برس امریکہ پہنچی تھی۔ اس فیلوشپ میں، میں واحد پاکستانی صحافی تھی جو ابلاغ اور صحافت کے پروگرام کے لیے منتخب ہوئی تھی۔
امریکہ آنے کا مقصد اپنے اندر چھپی ہوئی 'لیڈر شپ کوالٹیز' کو جگانا تھا۔ اپنی صحافتی کارکردگی کو مزید نکھارنے کا جذبہ مجھے امریکہ کی گرم ترین ریاست ایریزونا کے شہر فینکس کے صحافتی اسکول 'والٹر کرونکائٹ اسکول آف جرنلزم' لے آیا تھا۔
سال بھر پڑھنے، سمجھنے اور سیکھنے کے بعد کسی بھی طالب علم کے لیے اس کی گریجویشن تقریب بہت اہمیت رکھتی ہے۔ سو مجھے بھی اس دن کا بہت انتظار تھا۔
لیکن کرونا وائرس نے تو دنیا ہی بدل کر رکھ دی ہے۔ اسکول اور یونیورسٹیاں بند ہونے کے بعد مجھ سمیت بہت سے طالب علم اپنی زندگی کا سب سے بڑا سنگ میل، جو اسکول سے فارغ التحصیل ہونا ہوتا ہے، اس کی تقریب میں بھی شرکت نہ کر سکے۔
لیکن شکریہ اس ٹیکنالوجی کا کہ ہمیں یہ 'ورچوئل تقریب' دیکھنا تو نصیب ہوئی۔ اگرچہ ہم نے 'زوم ایپلی کیشن' کے ذریعے اس 'ورچوئل' تقریب میں غائبانہ شرکت تو کر لی، لیکن ہمارے کئی ارمان ادھورے بھی رہ گئے۔
نہ ہم نے گریجویشن کیپ پہنی اور نہ ہی گریجویشن روب۔ اس تقریب میں کوئی کیک بھی شامل نہیں تھا۔ مگر یہ تجربہ منفرد اور مختلف رہا۔
ہمارے پروفیسر اور اساتذہ، سب ہی اس تقریب میں شریک تھے۔ ابتداً انہوں نے رسمی خطاب کیے اور ہماری حوصلہ افزائی کی۔ کچھ بین الاقوامی طلبہ جو تعلیمی سال میں تو ساتھ تھے مگر 'کووڈ 19' کے پیشِ نظر جلد ہی اپنے ملکوں کو رخصت ہو گئے تھے، انہوں نے بھی اس تقریب میں شرکت کی۔
یہ تقریب براہِ راست یوٹیوب پر بھی نشر کی جا رہی تھی جس پر تمام طلبہ کے والدین اور عزیز و اقارب سماجی دوری برقرار رکھتے ہوئے تقریب میں شریک تھے۔
تقریب کا رن ڈاؤن پہلے ہی سب کو ای میل کے ذریعے موصول ہو چکا تھا جس کے باعث کسی قسم کی بدانتظامی نہیں ہوئی۔
دوران تقریب میرا پورا تعلیمی سال میری آنکھوں کے سامنے ایک فلیش بیک کی طرح گردش کر رہا تھا۔
جب بھی کلاسز کے دوران یونیورسٹی کے پروفیسرز سے ہماری بات ہوتی تھی، یہ ضرور سننے کو ملتا تھا کہ اس سال امریکہ میں موجود ہونا ہمارے لیے بڑا منفرد اور تاریخی تجربہ ہو گا۔ کیوں کہ ایک طرف تو صدر ٹرمپ کے خلاف مواخذے کی کارروائی جاری تھی تو دوسری طرف الیکشن کی گہما گہمی بھی دیکھنے کو مل رہی تھی۔
مگر کس نے سوچا تھا کہ یہ سال ان وجوہات کے باعث نہیں بلکہ وائرس کی عالمی وبا کی وجہ سے تاریخی قرار پائے گا اور وقت ایسی کروٹ لے گا کہ دنیا اس سال کو کرونا کی وجہ سے یاد رکھے گی۔
گزشتہ چند ماہ میں پوری دنیا نے اس وبا کے باعث بہت نقصانات اٹھائے ہیں۔ لاکھوں لوگ اس بیماری میں اپنی زندگی ہار بیٹھے ہیں۔ بہت سے گھرانے اپنے پیاروں کے چلے جانے سے غمگین ہیں تو کروڑوں لوگ بے روزگار ہو گئے ہیں۔
ہم بھی کرونا وائرس کی وجہ سے گریجویشن تقریب سے محروم رہ جاتے۔ لیکن 'ایریزونا یونیورسٹی' کا بھلا ہو کہ ان کی بدولت ورچوئل ہی سہی، آخرکار ہم فارغ التحصیل تو ہوئے۔
رپورٹرز ڈائری: 'عید کا جوڑا نہیں چاہیے، بس راشن دے دیں'
سدرہ ڈار، کراچی -- 09 مئی، 2020
یہ رمضان گزشتہ رمضان کی نسبت خاصا مختلف ہے۔ نہ کوئی رونق ہے نہ کوئی سرگرمی۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ لاک ڈاؤن کا اثر اب ذہنوں پر اتنا ہے کہ اس مہینے کی پرجوش روایتیں کچھ ماند سی پڑ گئی ہیں۔
بازار بند ہیں تو گہما گہمی، عید کی تیاری کا جوش اور ولولہ بھی اب نظر نہیں آتا۔ گزشتہ برس ان ہی دنوں میری درزی سے اس بات پر بحث ہو رہی تھی کہ اب وہ مزید کوئی سوٹ کیوں نہیں سی سکتا کیوں کہ اس کے بقول تو 10 رمضان تک بکنگ بند ہوگئی تھی۔
اب یہ حال ہے کہ درزی کا روز ہی فون آ رہا ہے کہ کوئی سوٹ ہے تو دے دیں تاکہ میں کچھ کما سکوں۔ لاک ڈاؤن سے دکان بند ہے اور گھر کا چولہا چلانا بھی مشکل ہو رہا ہے۔
ان حالات میں کیا عید منائیں؟ لیکن ہر ایک کی ضرورت تو ایک دوسرے سے جڑی ہے۔ سو یہ سوچ کر کہ عید پر نہ سہی، جب یہ وبا ختم ہو گی تب نئے کپڑے پہن کر اپنے پیاروں اور عزیزوں کے ہمراہ کہیں باہر جانا تو ہوگا، ایک دو نئے جوڑے سلوانے میں کوئی حرج نہیں۔
چلو مشہور برانڈ نے تو کپڑوں کی سیل کے ساتھ آن لائن ڈلیوری کا سلسلہ جاری رکھا ہی ہے۔ پر وہ کپڑے جو ملتے ہی دکان پر ہیں یا کسی برانڈ کے نہیں، میچنگ ہے یا کوئی دوپٹہ، وہ کیسے آن لائن منگوائے جائیں؟
وہ دکان دار جو رمضان کا سارا سال انتظار کرتے تھے کہ اس ماہ وہ کوئی اسٹال لگائیں یا کوئی بھی مال بیچیں گے تو خوب منافع ہو گا۔ وہ اب ڈھونڈنے سے بھی نہیں مل رہے۔ نہ جانے ان کا گزارہ کیسے ہو رہا ہو گا؟
گھر میں کام کرنے والی نے بھی پہلی بار وہ کہا جو کبھی سنا ہی نہیں تھا کہ "باجی عید کا جوڑا نہیں چاہیے۔ بس راشن دے دیں۔ تاکہ عید گزر جائے۔"
کرونا وائرس نے جہاں سماجی فاصلے بڑھائے ہیں وہیں اپنوں کو ایک دوسرے کے قریب بھی کیا ہے۔ اب بہت سے گھرانوں کو اپنے ہی گھر میں رہنے والوں کو مزید جاننے کا موقع بھی مل رہا ہے۔
لیکن تنازعات اور لڑائی جھگڑوں میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ میرا خیال ہے کہ سماجی فاصلوں کے ساتھ ساتھ جذباتی فاصلوں کی بھی ضرورت ہے۔ تاکہ ایک عام اور سیدھی سی بات لڑائی جھگڑے تک نہ جا سکے۔
رپورٹرز ڈائری: لاک ڈاؤن میں رمضان اور پرانے دلی کی ویرانی
سہیل انجم، نئی دہلی -- 07 مئی، 2020
آج کل دہلی کی تاریخی جامع مسجد کی ایک فضائی تصویر خوب وائرل ہو رہی ہے۔ اسے پہلی بار دیکھا تو دل کو کچوکے سے لگے۔ جامع مسجد کے اس وسیع و عریض صحن میں جہاں عام دنوں میں نمازیوں اور سیاحوں کا میلہ لگا رہتا تھا، ہو کا عالم ہے۔ نہ آدم نہ آدم زاد۔ سارے در مقفل۔
جامع مسجد کے مشرقی دروازے کے سامنے واقع تاریخی مینا بازار میں غبار اڑ رہا ہے۔ جنوبی دروازے کے سامنے مٹیا محل اور اردو بازار میں جہاں عام دنوں میں کھوے سے کھوا چھلتا تھا اور رمضان المبارک میں جہاں کی رونق دیدنی ہوتی تھی، ویرانی چھائی ہوئی ہے۔
شمالی دروازے کے سامنے دریبہ کلاں کا صرافہ بازار خاموش ہے جہاں یومیہ اربوں کا کاروبار ہوتا تھا۔ مغربی دیوار کی پشت پر واقع چاوڑی بازار میں جہاں تل دھرنے کی بھی جگہ نہیں ہوتی تھی، ایسا عالم ہے کہ ہاتھی دوڑتا چلا جائے۔
دلی کی جامع مسجد کی زندگی میں ایسے کئی مواقع آئے جب اس کے دروازے نمازیوں کے لیے بند ہو گئے تھے۔ لیکن شاید ایسا کبھی نہیں ہوا ہوگا کہ رمضان کے مہینے میں بھی وہ غیر آباد رہی ہو اور اس کے قرب و جوار میں وحشت کا عالم ہو۔ ایسا پہلی بار ہو رہا ہے۔
کرونا وائرس بھی تو پہلی بار آیا ہے اور پہلی بار لاک ڈاؤن نافذ ہوا ہے۔ ایسا لاک ڈاؤن جس نے سب کچھ بند کر دیا ہے۔ نہ صرف جامع مسجد کے علاقے کو بلکہ پورے ملک کو۔
کرونا کی وبا اور لاک ڈاؤن نے ماہِ رمضان کی عبادتیں اور اس کے معمولات بھی تبدیل کر دیے ہیں۔
کیا کسی نے کبھی سوچا تھا کہ رمضان المبارک میں لوگ مسجدوں میں نہیں جائیں گے بلکہ گھروں میں تراویح کا اہتمام کریں گے؟ کیا کسی نے سوچا تھا کہ مسجدوں میں زیادہ سے زیادہ حاضری کی تلقین کرنے والے اب سختی کے ساتھ یہ ہدایت جاری کریں گے کہ لوگ مسجدوں کا رخ نہ کریں؟
کیا کسی نے سوچا تھا کہ اگر کہیں مسجدوں میں لوگ اکٹھا بھی ہوں گے تو بالکل نئے ضابطے کے ساتھ۔ یعنی مل مل کر صف بندی کرنے کے بجائے چار چار اور چھ چھ فٹ کے فاصلے پر کھڑے ہوں گے۔
یہ کرونا پیریڈ کی عبادت ہے۔ لہٰذا اس کو نئی شکل و صورت عطا کی گئی ہے۔
بھارت میں پہلا لاک ڈاؤن 25 مارچ سے شروع ہوا تھا۔ اب لاک ڈاؤن کا تیسرا مرحلہ چل رہا ہے جو 17 مئی کو ختم ہوگا۔ لیکن اس میں مزید کوئی توسیع نہیں کی جائے گی، اس کی کوئی گارنٹی نہیں ہے۔
مزید پڑھیے
رپورٹرز ڈائری: کرونا وائرس، لاک ڈاؤن اور پہلا روزہ
شمیم شاہد، پشاور -- 24 اپریل، 2020
پاکستان سمیت تمام مسلم ممالک میں ماہِ رمضان کا بہت جوش و خروش سے استقبال کیا جاتا ہے۔ لیکن ماضی کے برعکس اس بار کرونا وائرس کے باعث رمضان کی رونقیں نظر نہیں آ رہیں۔
نہ تو رمضان کا چاند دیکھنے کا جوش دکھائی دے رہا ہے نہ ہی پہلی سحری اور پہلے روزے کی وہ خصوصی تیاریاں جو ماضی میں دکھائی دیتی تھیں۔
کرونا وائرس کے باعث پاکستان کے دیگر صوبوں کی طرح خیبر پختونخوا میں بھی تمام نجی و سرکاری اداروں سمیت معاشی، کاروباری، سماجی، مذہبی اور سیاسی سرگرمیاں بری طرح متاثر ہو رہی ہیں۔
مارچ کے وسط سے ملک بھر میں لاک ڈاؤن کا سلسلہ جاری ہے۔ بازار اور تجارتی مراکز بند اور تعلیمی اداروں میں تدریس معطل ہے۔ سرکاری اور نجی اداروں کے دفاتر میں ملازمین کی حاضری برائے نام رہ گئی ہے۔
لوگوں کا رہن سہن بدل رہا ہے۔ عادات اور روایات تبدیل ہو رہی ہیں۔ دوستوں کا ایک دوسرے کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا ختم، حتیٰ کہ لوگوں سے مصافحہ کرنا بھی ممنوع قرار دیا گیا ہے۔
پشاور شہر کے چوک فوارہ، قصہ خوانی بازار، چوک یادگار اور یونیورسٹی روڈ پر قائم بازار اور دکانیں خریداری کے مصروف ترین مراکز ہوا کرتے تھے۔ مگر اب ایسا نہیں۔ ان تمام بازاروں میں گنے چنے افراد اور چند ایک دکانیں ہی کھلی ہیں۔ دکان دار اور چھابڑی فروش گاہگوں کی راہ تک رہے ہیں۔
اس عالمی وبا نے مذہبی اجتماعات اور عبادات کو بھی متاثر کیا ہے اور اب رمضان کی رونقیں بھی ماند پڑتی دکھائی دے رہی ہیں۔
جمعرات کو پشاور کی تاریخی مسجد قاسم علی خان کے خطیب مفتی شہاب الدین پوپلزئی کی سربراہی میں غیر سرکاری رویت ہلال کمیٹی نے رمضان کے چاند سے متعلق اجلاس کیا اور خیبر پختونخوا مختلف اضلاع اور علاقوں سے چاند دیکھنے کی شہادتوں کی اطلاع دی۔
ویسے تو نماز مغرب سے چند منٹ قبل ہی ضلع مردان، چار سدہ، ہنگو اور شمالی وزیرستان میں رمضان کا چاند نظر کی اطلاعات موصول ہو رہی تھیں۔ لیکن مفتی شہاب الدین پوپلزئی کی سربراہی میں چاند دیکھنے والی کمیٹی نے کچھ علاقوں میں چاند دیکھنے والوں کو مسجد قاسم علی خان طلب کیا اور ان سے تصدیق کی۔
مجموعی طور پر 22 افراد نے چاند دیکھنے کی گواہی دی جن میں سے آٹھ افراد مسجد قاسم علی خان آئے اور کمیٹی کے سامنے پیش ہو کر گواہی دی۔ بعد ازاں رات کے پونے گیارہ بجے کے قریب مفتی شہاب الدین پوپلزئی نے 24 اپریل بروز جمعہ کو پہلا روزہ رکھنے کا اعلان کیا۔
مگر اس اعلان کو خاموشی سے سنا گیا۔ ماضی میں چاند نظر آنے کی خوشی میں منچلے ہوائی فائرنگ کرتے تھے اور بازاروں میں رش نظر آتا تھا۔ لیکن اس بار ایسا کچھ نہیں ہوا۔
جمعرات اور جمعہ کی درمیانی شب پہلی سحری کے دوران نہ تو سرکاری سائرن کی آواز سنائی دی، نہ ہی کہیں ڈھول بجا کر جاگو کی آواز لگانے والے سحری کے لیے جگانے آئے۔
اسی طرح پہلے رمضان کے پہلے روزے اور پہلے جمعے کے باوجود پشاور سمیت صوبے بھر کی مساجد میں نمازیوں کی تعداد انتہائی کم نظر آئی۔ البتہ نماز جمعہ کے بعد مختلف مساجد میں کرونا وائرس کے خاتمے کے لیے دعائیں کی گئیں۔
امریکہ میں پھنسے 800 پاکستانی واپسی کے منتظر
گیتی آرا، واشنگٹن ڈی سی -- 20 اپریل، 2020
امریکہ میں اس وقت جہاں کرونا وائرس سے ہلاکتوں کی تعداد 40 ہزار سے زائد ہو چکی ہے وہیں مرحلہ وار معمولات زندگی کی طرف واپسی کا ہدایت نامہ بھی جاری ہو چکا ہے۔ اس پر کیسے عمل یا کب ہو گا۔
اس سوال سے میرا شاید کوئی سروکار نہیں کیونکہ میں خود امریکہ میں پھنسے 800 پاکستانیوں کی اس فہرست میں شامل ہوں جو ہر روز طویل ہوتی جا رہی ہے۔
ان پاکستانیوں کو ایک ماہ گزر جانے کے بعد بھی یہ نہیں معلوم کہ امریکہ سے پاکستان واپسی کب اور کیسے ہو پائے گی۔
فرازے سید ان چند پاکستانیوں میں سے ایک ہیں جنہیں مارچ میں اس وقت جہاز سے آف لوڈ کیا گیا تھا جب وہ نیویارک سے پاکستان جانے کے لیے طیارے میں سوار ہوئے۔
آف لوڈ کرنے کی وجہ وہی سرکاری مخمصہ تھا جس میں فوری کرونا ٹیسٹ کروا کر ہی جہاز میں چڑھنے کی ہدایت کی گئی۔ جہاز چلا گیا اور دو دن بعد پاکستان نے تمام پروازیں بند کر دیں۔ نتیجہ یہی ہے کہ فرازے اسی نیو یارک میں پھنسی ہوئی ہیں جہاں اس وقت وبا سے 13 ہزار افراد کی موت ہو چکی ہے۔
فرازے کہتی ہیں کہ انہیں ایک ماہ گزر جانے کے بعد بھی یہ نہیں معلوم کہ کب تک انہیں اپنی بیٹی سے دور شدید پریشانی میں گزارہ کرنا ہو گا۔
میں جو کہ واشنگٹن ڈی سی سے ملحقہ ریاست ورجینیا میں ہوں، ان کی اس ذہنی اذیت کو اس لیے بھی سمجھ سکتی ہوں کیونکہ میری بات چیت روزانہ ان افراد سے ہوتی ہے جو اسی پریشانی کا سامنا کر رہے ہیں جس کا سامنا مجھے یا فرازے کو ہے۔
ان میں وہ افراد بھی شامل ہیں جن کے پاس امریکہ کے علاوہ کینیڈا کا وزٹ ویزا بھی موجود ہے لیکن وزٹ ویزا رکھنے والے افراد کسی طور امریکہ کی سرحد پار کر کے ٹورنٹو سے پی آئی اے کی کوئی خصوصی پرواز نہیں پکڑ سکتے۔
اگر آپ یہ سوچ رہے ہیں کہ امریکہ سے واپس آنے کے لیے کینیڈا جانے کی بات کچھ عجیب سی ہے تو اس کی وضاحت کے لیے بتایا جا سکتا ہے کہ پاکستان کی خصوصی پرواز امریکہ نہیں آ رہی۔
کیسے یقین دلاؤں کہ رپورٹر ہوں
سدرا ڈار، کراچی -- 19 اپریل، 2020
لاک ڈوان کے سبب شہر میں لگے مختلف ناکوں سے گزرنا اور بحث کرنا اب معمول بن چکا ہے لیکن مجھے ایسا لگتا ہے کہ باہر نکلنے کی وجہ جاننے کی دلیل پولیس کی نسبت رینجرز کو ذرا مشکل سے سمجھ آتی ہے۔
یوں تو اب زیادہ تر کام گھر سے ہی کرنا پڑ رہا ہے، لیکن ٹی وی اور ڈیجیٹل اسٹوریز جن میں رپورٹر کا موجود ہونا لازمی ہے، اس کے لئے بہرحال ہر صورت باہر نکلنا ہی پڑتا ہے۔ اب جب کہ کریم اور اوبر سروسز بھی تاحکم ثانی معطل ہیں، تو ایسے میں کہیں بھی جانے کے لئے رکشہ ہی بہترین سواری ہے۔
جس رکشے والے کے ساتھ میں اپنے صحافتی کام کی وجہ سے جاتی ہوں، اس کی کوشش یہی ہوتی ہے کہ جہاں بھی جاؤں واپسی بھی اس کے ساتھ ہو، کیونکہ اسے پولیس اور رینجرز کی جانب سے باہر نکلنے پر کئی بار زبانی ڈانٹ ڈپٹ اور بعض مرتبہ ایک دو ہاتھ بھی پڑ چکے ہیں کہ لاک ڈاؤن میں بلاوجہ باہر کیوں نکلے۔
حالات چاہے کیسے بھی ہوں، روزی کمانا ہر ایک کی مجبوری ہے، تو دس روز گھر میں رہنے کے بعد طاہر نے بھی فیصلہ کیا کہ کچھ گھنٹے ہی سہی لیکن وہ رکشہ لیکر ضرور نکلے گا تاکہ کوئی سواری مل جائے اور کچھ رقم بن جائے۔
طاہر 24 برس کا نوجوان ہے اور وہ پڑھا لکھا بھی ہے۔ وہ میرے کام کی نوعیت سے واقف ہے۔ کب کہاں کتنی دیر ہو گی، اس پر کبھی بحث نہیں ہوتی۔ بس ایک تلقین اس کی جانب سے ہے کہ لاک ڈوان کا وقت 'سخت ہونے' یعنی پانچ بجنے سے قبل کام ختم کر لیا جائے تاکہ واپسی میں آسانی رہے۔
وہ کراچی کے تمام راستوں سے واقف ہے۔ اس وقت اس کی روزانہ کی ذمہ داری میں سول اسپتال کی ایک ڈاکٹر کو لے جانے اور واپس لانے کی ہے، اور دوسری میں، جسے رپورٹنگ کی غرض سے کب، کہاں، اور کس وقت جانا پڑ جائے۔ بقول اس کے کہ ہم دو خواتین کی وجہ سے وہ کئی بار پولیس اور رینجرز کی مار سے بھی بچ چکا ہے۔
ٹی وی کی ایک اسٹوری کے شوٹ کے لئے مجھے صدر کے علاقے میں جانا پڑا۔ دوپہر ایک بجے کے قریب گلبہار (گولیمار) کے علاقے میں ٹریفک کا دباؤ زیادہ ملا۔ پولیس نے رکاوٹیں کھڑی کر رکھی تھیں اور آنے جانے والوں سے پوچھ گچھ جاری تھی۔
طاہر سے پوچھا گیا کہ کہاں جا رہے ہو؟ اس نے میری طرف اشارہ کر کے کہا، باجی کو پریس کلب جانا ہے۔ پولیس والے نے مجھے دیکھا اور پوچھا کہ کیا آپ صحافی ہیں؟ میں نے اثبات میں سر ہلا دیا اور انھوں نے رکاوٹ ہٹا کر جانے کا اشارہ کر دیا۔
واپسی پر پانچ بج چکے تھے۔ اب تمام شہریوں کو کسی نہ کسی طرح گھر تو واپس پہنچنا تھا۔ جگہ جگہ رکاوٹیں لگا دی گئیں تھیں۔ ہم بھی اس سڑک پر ٹریفک جام میں پھنسے تھے جہاں سب وجہ بتا کر ہی آگے نکل سکتے تھے۔
طاہر کو یقین تھا کہ ایک صحافی ساتھ ہے اور اسے راستہ مل جائے گا۔ لیکن وہ غلط تھا۔ آگے پولیس نہیں رینجرز موجود تھی۔ ہمیں روکا گیا اور سب سے پہلے طاہر کی شامت آئی۔ اس نے کہا کہ سواری ساتھ ہے اور گھر واپس جا رہے ہیں۔
مجھے ڈر تھا کہ کہیں اس غریب کو ایک دو ہاتھ نہ پڑ جائیں تو فوراً مداخلت کرنا پڑی اور کہنا پڑا کہ میں کام سے نکلی تھی اور اب واپسی ہے۔
سوال ہوا کہ کیا کام تھا۔ جواب دیا کہ آفس کا کام تھا۔ رینجرز والے کو شاید میری بات کا یقین نہیں آیا اور اس نے کہا کہ آفس تو بند ہیں۔ لوگ گھروں سے کام کر رہے ہیں بی بی۔ آپ کیوں جھوٹ بول رہی ہیں۔
میں نے انھیں کہا کہ میں صحاٖفی ہوں اور مجھے ایک شوٹ کے لئے جانا تھا۔
جس پر مجھ سے تصدیق کے لئے دفتری کارڈ مانگا گیا۔ میں نے کارڈ دکھا دیا تو بھی وہ مطمئن دکھائی نہ دیے اور بڑبڑا کر آگے بڑھنے کا اشارہ کیا۔ خیر راستہ مل گیا اور اس سے آگے بھی اسی طرح پوچھ گچھ جاری رہی اور میں باآلاخر گھر پہنچ گئی۔
کچھ روز بعد میری ایک واقف کار جن کا شناختی کارڈ پر مستقل پتہ پرانا ہے اور وہ اب کرائے کے گھر میں رہتی ہیں۔ انھیں یہ تکلیف اٹھانا پڑی کہ رینجرز نے یہ کہہ کر انہیں واپس بھیجا کہ جہاں آپ اپنا گھر بتا رہی ہیں، وہ شناختی کارڈ پر درج نہیں تو آپ جہاں سے آئی ہیں، وہیں واپس جائیں اور یوں نہ چاہتے ہوئے بھی انھیں اپنی والدہ کے گھر جانا پڑا جن کی عیادت کو وہ آئی تھیں۔
یہاں سوال یہ ہے کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کا روزانہ ہر طرح کے لوگوں سے واسطہ پڑتا ہے۔ ایسی صورت حال میں وہ یہ بہتر طور پر پرکھ سکتے ہیں کہ کون مجبوری میں نکلا ہے اور کون شوقیہ۔ ان سب کو ایک ہی طرح سے ڈیل کرنا کچھ مناسب نہیں۔ کیونکہ اب تک میرا جتنی بار بھی باہر نکلنا ہوا، رینجرز کا ایک ہی سوال رہا، آپ رپورٹر ہیں ہم کیسے مان لیں؟ جب کارڈ دکھایا جائے تو بھی ان کا انداز بتا رہا ہوتا ہے کہ ٹھیک ہے لیکن پھر بھی ہم کیسے یقین کر لیں۔
کرونا وائرس: جن کے لیے آفت، رحمت ثابت ہورہی ہے
نوید نسیم، لاہور -- 19اپریل، 2020
"حکومت نے تو لاک ڈاؤن کر دیا تا کہ کرونا وائرس نہ پھیلے۔ لیکن حکومت نے یہ نہیں بتایا کہ لاک ڈاؤن کرنے سے جو غربت پھیلے گی۔ اس کو کون روکے گا؟۔ حکومت کی طرف سے جو امدادی رقم دی جا رہی ہے۔ اس کے لیے ایس ایم ایس کیا تھا۔ اب تک جواب نہیں آیا، گھر کا کرایہ، بجلی، پانی اور گیس کے بلز اور بچوں کی فیسیں آگئی ہیں”۔
یہ الفاظ ہیں لاہور کے علاقے گلبرگ میں قائم مارکیٹ کے ایک دکان دار کے۔ جس نے لاک ڈاؤن کے باوجود اپنی دکان کھولی۔ کیوں کہ اس کے گھر بیٹھنے سے کرونا وائرس سے بچاؤ کم اور بیوی سے لڑائیاں زیادہ ہو رہی تھیں۔
اسی طرح بیٹریاں بیچنے والے محمد حسان کا کہنا تھا کہ کرونا وائرس سے اگر موت آسکتی ہے تو گاہک بھی آسکتا ہے۔
حسان کے مطابق بیڑا غرق ہو چائنہ کا، جس کی بنائی ہوئی کوئی چیز اتنی نہیں چلتی، جتنا چین سے شروع ہونے والا وائرس پوری دنیا میں چل گیا ہے۔
لاک ڈاؤن سے تنگ محمد حسان کا مزید کہنا تھا کہ اب یہ صورت حال ہوگئی ہے کہ کرونا وائرس کے سبب موت ہونے کے بھی اتنے ہی چانسز ہیں۔ جتنے لاک ڈاؤن کے دوران گاہک آنے کے۔ اب دیکھتے ہیں کہ گاہک پہلے آتا ہے یا موت۔
دوسری طرف گھروں میں قید لوگ لاک ڈاؤن کے دوران ایسے زندگی بسر کر رہے ہیں۔ جیسے انہیں کسی جرم کی سزا دی گئی ہو۔
صبح دیر سے اٹھنے اور پھر دوپہر کے کھانے سے پہلے ناشتہ کرنے کے بعد لوگوں کو لاک ڈاؤن کے دوران جس بات کی سب سے زیادہ فکر ہے۔ وہ انٹرنیٹ کنیکشن ہے۔ جس کے ہِل جانے سے گھر کے سب افراد لاؤنج میں اکٹھے ہوجاتے ہیں۔
رات کی نیند صبح پوری کرنے کے بعد لوگ ٹی وی کے سامنے ایسے بیٹھتے ہیں۔ جیسے پاکستان اور بھارت کے درمیان میچ ہو۔ نیوز چینلز پر مختلف رنگوں میں دکھائے جانے والے کرونا وائرس کے مریضوں اور ہلاکتوں کی تعداد دکھائی جا رہی ہیں۔
لاک ڈاؤن کے دوران گھروں میں مباحثوں میں حکومتی کارکردگی سے زیادہ بحث نماز جمعہ پر پابندی اور رمضان کے دوران نماز تراویح کے انعقاد سے متعلق ہوتی ہے۔
حکومت کی طرف سے پہلے ایک ہفتے کے لیے لگائے گئے لاک ڈاؤن کو تقریباً تمام طبقات سے تعلق رکھنے والوں نے سراہا اور لوگ نہ صرف اپنے گھروں میں قید رہے۔ بلکہ اپنے گھروں میں کام کرنے والی گھریلو ملازمین کو بھی وائرس سے بچنے کے لیے وقتی طور پر چھتی دے دی۔ جس کے بعد گھر کے تمام افراد نے حفظ ماتقدم کے طور گھریلو کاموں میں ہاتھ بٹایا۔
لاک ڈاؤن کے دوسرے ہفتے کے دوران گھریلو کام دنوں کے حساب سے بانٹے گئے اور پھر جب اپریل کا مہینہ چڑھنے پر گھریلو ملازمین کی تنخواہ کی وصولی کے لیے مسڈ کالیں آنا شروع ہوئیں۔ تو جو لوگ دعوے کرتے تھے کہ اس مشکل گھڑی میں ہم اپنے ملازمین کو مکمل تنخواہیں دیں گے۔ ملازمین کو یہ کہتے ہوئے پائے گئے کہ تنخواہ تو لے جاؤ۔ مگر ہفتے میں ایک بار آکر کپڑے دھو جایا کرو۔ جھاڑو تو ہم دے ہی لیتے ہیں۔ لیکن پوچے نہیں لگتے۔ تو وہ بھی لگا جانا۔
شہر لاہور کی جن سوسائٹیز میں گھریلو ملازمین کے داخلے پر پابندی ہے۔ وہاں کے رہائشی اپنی گھریلو ملازمین کو سوسائٹی سے باہر بلاتے ہیں اور پھر اپنی گاڑیوں میں بٹھا کر اپنے گھر لے آتے ہیں۔ جس کے بعد ان سے پورا گھر کی صفائی چند گھنٹوں میں کراکر انہیں اسی پروٹوکول کے ساتھ واپس ڈراپ کردیا جاتا ہے۔
رات کے کھانے کے وقت اپنے ہمسائے میں گرلڈ چکن، چکن مینچورین اور چکن شاشلک کی ڈلیوری کرنے آئے ایک ڈلیوری بوائے سے ڈشز کی تفصیلات جان کر جب میں نے اس سے پوچھا کہ بھائی کتنی دیر میں ڈلیوری کردیتے ہو آج کل۔ تو اس کا کہنا تھا کہ آج کل معمول سے زیادہ وقت لگتا ہے۔ کیونکہ آرڈرز بہت زیادہ ہوتے ہیں۔
انٹرویو کے لیے میرے دو منٹ رکنے کی درخواست پر ڈلیوری بوائے کا کہنا تھا کہ بھائی یہ کرونا کی آفت، ہمارے لیے رحمت بن کر آئی ہے۔ پہلے ہم مہینے کا آٹھ دس ہزار کماتے تھے۔ مگر جب سے لاک ڈاؤن لگا ہے۔ ڈبل ڈلیوریز کررہے ہیں۔ میری تو شادی تھی اس مہینے۔ جو لاک ڈاؤن کی وجہ سے ملتوی ہوگئی ہے اور اب لاک ڈاؤن کے بعد ہی ہوگی۔ لیکن میں خوش ہوں کیونکہ جتنا لمبا لاک ڈاؤن ہوگا۔ اتنی ہی زیادہ کمائی ہوگی اور میں سوچ رہا ہوں کہ اگر یہ لاک ڈاؤن ایک آدھ مہینہ مزید چل گیا تو مجھے لگتا ہے کہ میرے پاس مری جاکر ہنی مون منانے کے لیے پیسے اکٹھے ہو ہی جائیں گے۔
رپورٹرز ڈائری: میں آفس کب جاؤں گی
نیلوفر مغل، واشنگٹن ڈی سی -- 13 اپریل، 2020
ابھی ایک مہینہ پہلے ہی کی بات تھی۔ روز صبح اٹھنا اور آفس کے لیے نکلنا کسی عذاب سے کم نہیں لگتا تھا۔
روز دل چاہتا تھا کہ آج چھٹی کر لی جائے۔ لیکن روز چاہتے ہوئے بھی ایسا ممکن نہیں ہوتا۔ کیونکہ صحافت ایک ایسا شعبہ ہے کہ اگر آپ ایک مرتبہ اس سے وابستہ ہو جائیں تو آپ اس سے الگ نہیں ہو سکتے، چاہیں آپ کتنا بھی دور بھاگیں۔ اور یہی وجہ تھی کہ عرصہ ہوا جو کبھی بلاوجہ چھٹی کی ہو۔ لیکن اب یہ سوچتی ہوں کہ آفس کب جاؤں گی۔
آج کئی ہفتے ہو گئے ہیں کہ میں اور وائس آف امریکہ کے میرے تقریباً تمام ساتھی گھر سے ہی کام کر رہے ہیں۔ اب روز صبح اٹھ کر دفتر تو نہیں جانا ہوتا لیکن اب دفتر گھر پر کھل گیا ہے۔ روز صبح کمپیوٹر کے سامنے آ کر بیٹھ جاتی ہوں۔ آٹھ گھنٹے گذر جاتے ہیں، لیکن آفس کا کام ختم نہیں ہوتا۔
اب سب کچھ خود کرنا پڑتا ہے۔ رپورٹنگ، کیمرے کا کام، ایڈیٹنگ، اور بھی بہت تکنیکی چیزیں۔
گھر سے کام کرتے ہوئے ان سب چیزوں پر وقت بھی زیادہ لگتا ہے۔ وہ کام جو ہم دفتر میں ایک گھنٹے میں کر لیا کرتے تھے۔ اب تین سے چار گھنٹے لگتے ہیں۔ اور ان سب مشکلات کی وجہ سے آفس کی بہت یاد آتی ہے۔ اور یہی سوچتی ہوں کہ یہ سب کب تک جاری رہے گا اور میں آفس کب جاؤں گی۔
ایسا کہتے ہیں کہ صحافت 24 گھنٹے کا کام ہوتا ہے۔ اس لیے میں اکثر آفس کا کام گھر لے آتی تھی۔ لیکن اب تو پورا گھر دفتر ہی دفتر ہے۔اب گھر والوں کو دس مرتبہ چپ کرانے کے بعد ریکارڈنگ ہوتی ہے۔ گھر سے وڈیوز بنائے جا رہے ہیں۔ انٹرویوز ہو رہے ہیں۔ جو کسی چیلنج سے کم نہیں۔
آج کئی ہفتے ہو گئے ہیں کہ میں اور وائس آف امریکہ کے میرے تقریباً تمام ساتھی گھر سے ہی کام کر رہے ہیں۔ اب روز صبح اٹھ کر دفتر تو نہیں جانا ہوتا لیکن اب دفتر گھر پر کھل گیا ہے۔ روز صبح کمپیوٹر کے سامنے آ کر بیٹھ جاتی ہوں۔ آٹھ گھنٹے گذر جاتے ہیں، لیکن آفس کا کام ختم نہیں ہوتا۔
اب سب کچھ خود کرنا پڑتا ہے۔ رپورٹنگ، کیمرے کا کام، ایڈیٹنگ، اور بھی بہت تکنیکی چیزیں۔
گھر سے کام کرتے ہوئے ان سب چیزوں پر وقت بھی زیادہ لگتا ہے۔ وہ کام جو ہم دفتر میں ایک گھنٹے میں کر لیا کرتے تھے۔ اب تین سے چار گھنٹے لگتے ہیں۔ اور ان سب مشکلات کی وجہ سے آفس کی بہت یاد آتی ہے۔ اور یہی سوچتی ہوں کہ یہ سب کب تک جاری رہے گا اور میں آفس کب جاؤں گی۔
ایسا کہتے ہیں کہ صحافت 24 گھنٹے کا کام ہوتا ہے۔ اس لیے میں اکثر آفس کا کام گھر لے آتی تھی۔ لیکن اب تو پورا گھر دفتر ہی دفتر ہے۔اب گھر والوں کو دس مرتبہ چپ کرانے کے بعد ریکارڈنگ ہوتی ہے۔ گھر سے وڈیوز بنائے جا رہے ہیں۔ انٹرویوز ہو رہے ہیں۔ جو کسی چیلنج سے کم نہیں۔
رپورٹرز ڈائری: اندرون لاہور میں ناشتے کی کھوج اور خبر گردی
نوید نسیم، لاہور -- 11 اپریل، 2020
پوریوں کے ساتھ کھوئے والا حلوہ، انڈا چنے، قیمہ بھری پوریاں، لال بوٹی کے ساتھ تلوں والے قلچے اور پھر کھوئے والی لسی کے بعد کڑک دودھ پتی چائے۔ یہ دسترخوان میرے اور میرے بھائی کے ناشتے پر اکثر سجتا ہے جب ہم اپنے گھر سے لگ بھگ 30 کلو میٹر دور اندرون لاہور کی طرف جاتے ہیں۔
کرونا وائرس کے سبب جاری لاک ڈاؤن میں جب اس ناشتے کے بارے میں سوچ کر فیس ماسک سے ڈھکے منہ میں پانی آیا تو یہ معلوم ہونے کے باوجود کہ ناشتے کی سب دکانیں بند ہوں گی، ہم دونوں اس امید پر گھر سے نکل پڑے کہ چلو ناشتہ نہ سہی، کوئی خبر تو مل جائے گی۔
یا پھر یہی پتا چل جائے گا کہ اندرون لاہور کے رہائشی لاک ڈاؤن میں بھی باہر گھوم رہے ہیں یا بیرونی دریچوں والے تاریخی گھروں میں قید ہو کر رہ گئے ہیں۔
لاہور ایئرپورٹ کے قریب اپنے گھر سے جب ہم گڑھی شاہو کے علاقے میں پہنچے تو راستے میں قلچوں (نان بائیوں) کی دکانیں تو کھلی دکھائی دیں۔ مگر چنے، پائے یا حلوہ پوری والا کوئی نظر نہیں آیا۔
صدر چوک میں واقع ایک مشہور دکان کا شٹر آدھا کھلا ہوا تھا اور باہر کچھ فاصلے پر لوگوں کی قطار بھی لگی تھی۔ یہ لوگ لاک ڈاؤن میں بھی ناشتے کی خواہشات کی تاب نہ لاتے ہوئے حلوہ پوری لینے پہنچے تھے۔
ہم نے یہ قطار دیکھی تو امید ہوئی کہ چلو حلوہ پوری کے شیدائیوں سے گفتگو کر کے کوئی نہ کوئی خبر تو ضرور مل جائے گی۔ تاہم دکان کے باہر قطار میں کھڑے دفعہ 144 کی خلاف ورزی کرتے گاہکوں کو فوراً اخلاقیات کے اعلٰی اصول یاد آ گئے۔
ہمارے ہاتھ میں کیمرا دیکھ کر وہ کہنے لگے کہ بغیر اجازت ویڈیو یا تصویر بنانا غیر اخلاقی سمجھا جاتا ہے۔ اتنی دیر میں گاہکوں سے آرڈر لینے والا شخص بھی کہنے لگا کہ باؤ جی جاؤ اپنا کام کرو۔ االلہ اللہ کر کے دکان کھولی ہے اور آپ تصویریں چھاپ کر ہماری روزی پر لات مارنا چاہتے ہو۔
گڑھی شاہو کے گنجان آباد علاقے سے بھی ہم خالی ہاتھ شملہ پہاڑی کی طرف چل دیے۔ خبر کی کھوج میں ایبٹ روڈ سے ہوتے ہوئے جب ہم لاہور کے مشہور لکشمی چوک پہنچے تو وہ بھی طوفان کے بعد چھا جانے والے سناٹے کی تصویر بنا ہوا تھا۔
کشمیری ہریسے کی دکانوں سے نسبت رکھنے والا یہ روڈ بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں آرٹیکل 370 کی منسوخی کے بعد لگنے والے کرفیو کا منظر پیش کر رہا تھا۔
لاہور کی مشہور گوال منڈی لاک ڈاؤن میں بھی لاہوریوں کی زندہ دلی کی روداد سنا رہی تھی۔ یہاں تاریخی عمارتوں میں بنائی جانے والی دکانیں تو بند تھیں۔ مگر ان کے پچھلے حصوں میں روایتی ناشتہ تناول کیا جا رہا تھا۔
رپورٹرز ڈائری: ہرن مجھے دیکھنے آتے ہیں
جمیل اختر، واشنگٹن ڈی سی -- 10 اپریل، 2020
ان دنوں ہرن مجھے دیکھنے آ رہے ہیں۔ کل شام ایک ہرنی اپنے ایک بچے کو بھی لائی تھی۔ دونوں کچھ دیر کھڑکی کے پاس کھڑے رہے اور گردن اٹھا اٹھا کر مجھے دیکھنے کے بعد درختوں کی جانب مڑ گئے۔ میں انہیں رشک بھری نظروں سے جاتے ہوئے دیکھتا رہا۔
میرا گھر واشنگٹن ڈی سی کی ایک مضافاتی آبادی میں ہے۔ یہاں گنتی کے چند گھر ہیں اور ان کے چاروں طرف گھنے اور اونچے درخت ہیں۔ یہ ایک قدرتی جنگل ہے جس کے بیچوں بیچ ایک چھوٹی سی ندی بہتی ہے۔ جب رات گہری ہو جاتی ہے تو تاریکی کے سناٹوں میں پانی کی جل ترنگ سنائی دیتی ہے۔
میں جب کبھی رات کو دیر سے لوٹتا ہوں تو گھر کے سامنے کی سٹرک پر کبھی ایک دو اور کبھی تین چار ہرن گھوم پھر رہے ہوتے ہیں، جو کار کی روشنیاں دیکھ کر چھلانگیں لگاتے درختوں میں غائب ہو جاتے ہیں۔ محلے والے بتاتے ہیں کہ جنگل میں کچھ اور جانور بھی رہتے ہیں، لیکن میں نے انہیں کبھی نہیں دیکھا۔ چند روز پہلے تک تو میں نے کبھی دن کی روشنی میں ہرنوں کو بھی نہیں دیکھا۔ لیکن اب وہ مجھے دیکھے آ رہے ہیں۔
میں ان دنوں اپنے گھر میں بند ہوں۔ مجھے باہر نکلے ایک مہینے سے زیادہ ہو گیا ہے۔ میرے دن کا زیادہ حصہ گلی میں کھلنے والی کھڑکی کے پاس گزرتا ہے۔ یہ ایک بڑی کھڑکی ہے۔ قریب ایک کرسی اور چھوٹی سی میز رکھی ہے۔ میں اپنا لیپ ٹاپ اور فون لے کر وہاں بیٹھ جاتا ہوں۔ ان دنوں یہ میرا دفتر ہے۔ جب لیپ ٹاپ کی سکرین سے آنکھیں دھکنے لگتی ہیں تو میں کھڑکی سے باہر دیکھنا شروع کر دیتا ہوں۔
کئی دنوں سے باہر کا منظر ٹہرا ہوا ہے۔ گاڑیاں گھروں کے سامنے خاموش کھڑی ہیں۔ گھروں کے دروازے بند ہیں۔ کوئی باہر نہیں نکل رہا۔ لیکن درختوں پر پتے نکل رہے ہیں، کیونکہ موسم بدل رہا ہے۔ لوگوں نے گھروں کے باہر ابھی پھول نہیں لگائے۔ باہر نکلیں گے تو لگائیں گے۔ ہاں البتہ جنہوں نے کتے پال رکھے ہیں، وہ شام کو انہیں گھمانے کے لیے نکلتے ہیں۔ موسم اور حالات چاہے جیسے بھی ہوں، کتے کو ہر روز باہر لے کر جانا کتا رکھنے والوں کی مجبوری ہے، خاص طور پر امریکہ جیسے ملکوں میں۔
واشنگٹن کے میٹروپولیٹن علاقے میں گو لاک ڈاؤن تو نہیں ہے، لیکن لوگوں کو یہ ہدایت کی گئی ہے کہ وہ گھروں میں رہیں اور اہم ضرورت، مثلاً گراسری، ادویات اور واک وغیرہ کے سوا باہر نہ نکلیں۔ واشنگٹن کی میئر کا کہنا ہے کہ بعض علاقوں میں لوگ ہدایات پر عمل نہیں کر رہے، جس سے واشنگٹن کے لیے حالات سنگین تر ہو تے جا رہے ہیں۔
چار ہفتے پہلے میرا بیٹا نیویارک سے آیا تو وہاں کرونا کے دو ڈھائی ہزار مریض تھے۔ اب یہ تعداد ڈیڑھ لاکھ سے زیادہ ہے، یعنی امریکہ میں کرونا کے متاثرین کی کل تعداد کا تقریباً ایک تہائی۔ ایک ان دیکھے دشمن نے شاہرائیں، گلیاں اور کوچے سنسان کر دیے ہیں، زندگی کی رونقیں اجڑ گئی ہیں۔
کرونا وائرس نے باہر کا منظر ہی نہیں بدلا، گھر کی دنیا بھی بدل دی ہے۔ لوگ گھروں میں محصور ہو گئے ہیں۔ کوئی ٹی وی کے سامنے بیٹھا ہے۔ کسی نے صوفے پر دفتر سجایا ہوا ہے۔ بہت سے گھروں میں بچوں کی خوشی دیدنی ہے، انہیں مدتوں کے بعد گھر میں ماں باپ کو ایک ساتھ دیکھنے کا موقع ملا ہے۔ کئی شوہر کھانا پکانے میں بیوی کا ہاتھ بٹا رہے ہیں۔ میرے ایک دوست نے بتایا کہ اس نے بگھاری دال پکانا سیکھ لی ہے۔ میں نے پوچھا کہ بگھارے بینگن بنانا کیوں نہیں سیکھے؟ بولے بینگن آئیں گے تو پکیں گے، دالیں گھر میں پڑی ہیں، سو پک رہی ہیں۔ میرے ایک اور دوست نے کھانا پکانا تو نہیں سیکھا، لڑنا سیکھ لیا ہے۔ کہنے لگے کہ اب میں بیگم کو چپ کرا دیتا ہوں۔
پہلے جب صبح ہوتی تھی تو پریشانی میں آنکھ کھلتی تھی کہ دفتر جانا ہے۔ بھاگم دوڑ میں تیاری ہوتی تھی۔ آدھا سلائس پلیٹ میں اور آدھی چائے کپ میں پڑی رہ جاتی تھی۔ ٹریفک میں طبیعت الگ بیزار ہوتی تھی۔ دن بھر کی مارا ماری کے بعد شام کو جب گھر پہنچتے تھے تو لگتا تھا کہ جیسے ایک دن نہیں بلکہ ایک صدی گزار آئے ہیں۔
لیکن اب اطمینان سے اٹھتا ہوں۔ ناشتے کی کوئی پریشانی نہیں کہ جب دل چاہے گا، کر لیں گے۔ کونسا بھاگے جا رہے ہیں۔ شیو تک کی جھنجھٹ نہیں۔ پہلا ہفتہ تو میں نے شیو بھی نہیں کی۔ جب آئینہ دیکھا تو اپنی صورت پہچانی نہیں گئی۔ خود سے کہا کہ صاحب یہ نہیں چلے گا۔ کبھی شیشہ بھی دیکھنا پڑ جاتا ہے۔
اس ایک مہینے میں بہت کچھ بدل گیا ہے۔ میرے بیڈ روم کی کھڑکی پیچھے کی طرف ایک بڑی سڑک پر ہے۔ جب کبھی میں اسے کھولتا تھا تو ٹریفک کا بے ہنگم شور اندر گھس آتا تھا اور مجھے جلدی سے کھڑکی بند کرنی پڑتی تھی۔ لیکن اب میں کھڑکی کھولتا ہوں تو چڑیوں کی چہچہاہٹ اور پرندوں کی وہی آوازیں آتی ہیں جو کبھی میں نے بچپن میں سنی تھیں۔
ماضی کی یاد بھی خوب آئی۔ جب پچپن میں بیٹا باہر گلی میں جانے کے لیے دروازے کی جانب بڑھتا تھا تو میں آواز دیتا تھا کہ باہر نہیں جانا۔ اب میں جب دروازے کی طرف جاؤں تو پیچھے سے بیٹے کی آواز آتی ہے، ابو باہر نہیں جانا۔ کردار وہی رہتے ہیں۔ وقت ان کی جگہیں بدل دیتا ہے۔ بچپن میں میں اسے ایک دو تین اور اے بی سی سکھاتا تھا، آج کی نئی ٹیکنالوجی وہ مجھے سمجھاتا ہے۔
آج کل میری واحد پریشانی یہ ہے کہ میں واک کے لیے باہر نہیں جا سکتا۔ مجھے لڑکپن ہی سے سیر کی عادت ہے۔ واک نہ کروں تو کوئی کمی سی محسوس ہوتی ہے۔ اب میں تقریباً آدھ گھنٹہ کمرے میں ہی چکر لگا لیتا ہوں۔ ایک چکر آدھے منٹ میں پورا ہو جاتا ہے۔ ایک چھوٹے سے دائرے میں مسلسل گھومنے سے سر چکرانے لگتا ہے۔ اب پتا چلا کہ کولہو کے بیل کی آنکھوں پر کھوپے کیوں چڑھائے جاتے ہیں۔
میرے ایک دوست یہاں سے دس میل دور ایک فارم ہاؤس میں رہتے ہیں۔ انہیں بھی بچے گھر سے باہر نہیں نکلنے دیتے۔ میں نے کہا کہ آپ تو جنگل میں رہتے ہیں۔ آپ کو کرونا کا کیا خطرہ۔ بولے، بچے کہتے ہیں کہ یہ ان دیکھا دشمن آبادیوں اور جنگلوں میں کوئی تمیز نہیں کرتا۔ افریقہ کے صحراؤں سے سائبیریا کے برفانی علاقوں تک، ہر جگہ پہنچا ہوا ہے۔ پھر لمبا سانس لے کر بولے، وہ سچ ہی کہتے ہیں۔ میرے ایک کولیگ کا جوان بیٹا مچھلی پکڑنے دریائے پوٹامک پر گیا۔ مچھلی تو نہیں پکڑی گئی، خود کرونا کی پکڑ میں آ گیا۔ آج کل قرنطینہ میں ہے۔
کرونا نے بہت کچھ بدل دیا ہے۔ بڑی بڑی عمارتوں سے دفتر گھروں کے چھوٹے چھوٹے کمروں میں چلے گئے ہیں۔ ایک ایک گھر میں کئی کئی دفتر کھل گئے ہیں۔ ہمارے گھر میں روزانہ چار دفتر لگتے ہیں۔ میرا دفتر کھڑکی کے ساتھ ہے۔ یاسمین کا دفتر ڈائنگ ٹیبل پر سجتا ہے۔ بیٹے نے بیسمنٹ کو اپنا دفتر بنا رکھا ہے اور اپر فلور کا کمرہ بیٹی کے پاس ہے۔ سائنس کی تیز تر ترقی نے کام کاج کو اتنا آسان بنا دیا ہے کہ ایک لمحے کو بھی یہ محسوس نہیں ہوتا کہ کام گھر کے ایک چھوٹے سے لیپ ٹاپ سے چل رہا ہے یا دفتر کے ایک بڑے ڈیسک ٹاپ کے سیٹ اپ سے۔
میں جب کھڑکی کے پاس بیٹھتا ہوں تو دن میں ایک دو مرتبہ باہر ہرن ٹہلتے نظر آتے ہیں۔ اب وہ کچھ مانوس سے ہوتے جا رہے ہیں۔ وہ سڑک سے لان میں آنے لگے ہیں اور کبھی کبھی تو کھڑکی کے بھی قریب آ جاتے ہیں، جیسے جھانک کر اندر دیکھنا چاہتے ہوں۔
آج میرے سامنے کے تیسرے مکان کے مکان کی کھڑکی بھی کھل گئی ہے۔وہاں رہنے والے کا نام جیکسن ہے۔ میں نے دیکھا کہ وہ گود میں لیپ ٹاپ لیے جھولنے والی کرسی پر بیٹھا ہے اور جھولتے ہوئے اپنا دفتر چلا رہا ہے۔سہ پہر کے وقت میں نے اس کے لان میں دو ہرن دیکھے۔ شاید وہ اسے جھولتے ہوئے دیکھ کر حیران ہو رہے تھے۔ آج وہ میری کھڑکی کے پاس نہیں آئے۔ یہ مجھے اچھا نہیں لگا۔
رپورٹرز ڈائری: کرونا وائرس اور دولہا ٹرک کا جلوس
عائشہ خالد، واشنگٹن ڈی سی -- 07 اپریل، 2020
جب میں نے ایک خاتون کو سڑک پر اس سجے سجائے ٹرک کے پیچھے بھاگ کر اسے عقیدت سے چومتے دیکھا تو حیرت کی انتہا نہ رہی۔ میں نے ایسا کرنے کی وجہ پوچھی تو وہ کہنے لگیں کہ یہ مجھے کرونا سے محفوظ رکھے گا۔
یہ افریقی امریکن خاتون ان عقیدت مندوں میں شامل تھیں جو اتوار کو میرے گھر کے نزدیک ایتھیوپین آرتھوڈوکس چرچ کے خاص جلوس کو دیکھنے کے اشتیاق میں گھر سے نکل آئے تھے۔ میں اپنے شوہر اور بیٹے کے ساتھ واک کے لیے نکلی تھی۔ اس رنگین ٹرک اور اس کے آگے پیچھے گاڑیوں کے ہجوم نے ہمیں اپنی طرف متوجہ کرلیا۔
گاڑیوں کے جھرمٹ میں کسی دلہا کے مانند سجے ٹرک کو دیکھ کر پہلا خیال ذہن میں آیا، آہا!! عالمی وبا کے دوران شادی کا جلوس اور وہ بھی پورے زور و شور سے! لیکن شوہر نے کہا، ہولڈ یور ہورسز یعنی بی بی، اپنے خیالات کے گھوڑوں کو لگام دو۔ ہوسکتا ہے کہ یہ کسی کا جنازہ ہو۔
غور سے دیکھا تو ٹرک کے اوپر دو آدمی اگردانوں سے ہوا میں لوبان کا دھواں پھیلاتے نظر آئے۔ مزید غور سے لوگوں کے چہروں پر نظر ڈالی۔ خوش باش اور جوش سے دمکتے نظر آئے۔ کچھ ہمت ہوئی کہ جنازہ نہیں ہوسکتا۔
قریب سے گزرتی ایک گاڑی کو ہاتھ دے کر روکا اور پوچھا کہ ماجرا کیا ہے؟ جواب ملا، ہمارا تعلق آرتھوڈوکس ایتھیوپین چرچ سے ہے۔ یعنی قدامت پسند ایتھوپین چرچ سے۔ جلوس کا مقصد دنیا کو کرونا کی وبا سے پاک کرنا ہے۔ میں نے پوچھا، یہ کیسے کریں گے آپ؟ جواب ملا، دعا کے ذریعے۔
میرے اندر کا رپورٹر جاگ اٹھا اور میرا رخ جلوس کی منزل کی جانب ہوگیا۔ شوہر اور بیٹا پیچھے سے آوازیں دیتے رہ گئے۔گاڑیوں کا جلوس کچھ دور واقع اپارٹمنٹس کے کمپلیکس میں داخل ہوگیا۔
اس کمپلیکس میں بڑی تعداد میں افریقہ سے آئے تارکین وطن رہتے ہیں۔ ان کی اکثریت کم آمدنی والی ملازمتوں سے منسلک ہے۔ ٹرک آہستہ رفتار سے کمپلکس کا چکر لگانے لگا۔
ذرا دیر میں آس پاس کے اپارٹمینٹس کے ایتھیوپین باشندے نکل آئے۔ کچھ خواتین بھاگ کر ٹرک کے سامنے رکوع کی حالت میں جھکیں۔ بعض نے اس سے اگلتے دھوئیں کو گہرے گہرے سانوں کے ذریعے اپنے وجود میں شامل کرنے کی کوشش کی۔
میں حیرت سے یہ سب دیکھتی رہی۔ پھر اپنے برابر میں کھڑی خاتون سے پوچھا کہ آپ کے خیال میں اس سے کرونا وائرس کیسے دور ہوگا؟ انھوں نے کہا، یہ بتانا میرے لیے مشکل ہے۔ لیکن ہمیں یقین ہے کہ اس دعا سے ہم کرونا سے محفوظ ہوجائیں گے۔
رپورٹرز ڈائری: آسٹریلیا سے آخری پرواز کی مسافر
ارم عباسی، واشنگٹن ڈی سی -- 06 اپریل، 2020
ایک طرف سڈنی انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر اضافی سیکورٹی چیک کی وجہ سے فلائٹ مس ہوجانے کا ڈر اور دوسری طرف کورونا وائرس کے پھیلاؤ کی وجہ سے گھر سے باہر نہ نکلنے کی تلقین نے ایک مسافر کو عجیب کشمکش میں ڈال دیا تھا۔
اس کا احساس اس وقت ہوا جب میں آسٹریلیا سے واشنگٹن ڈی سی کا سفر کرنے کے لیے مارچ کے آخری دنوں میں وہاں سے نکلی۔ یہ آسٹریلیا کی قومی ائیرلائنز کنٹاس کی آخری انٹرنیشل فلائٹ تھی اس لیے میں کسی بھی طرح بھی یہ فلائٹ مس نہیں کرسکتی تھی۔
واشنگٹن پہنچانا ضروری تھا۔ کرونا وائرس کی وبا کے دوران انجانے ملک میں وقت گزارنا کسی اذیت سے کم نہیں۔ یہ خیال بھی آیا کہ اگر سڈنی میں مجھے کچھ ہوگیا تو میری والدہ کو اطلاع ہوتے ہوتے زمانہ نہ لگ جائے یا پھر شاید پتہ ہی نہ چلے۔ اس بیماری نے عجیب غیر یقینی کیفیت میں ڈال دیا ہے۔
میں نے جنگ زدہ علاقوں میں رپورٹنگ کی ہے لیکن کبھی گولی لگنے کا ڈر نہیں ہوا۔ کیونکہ دشمن کون ہوسکتا ہے، یہہ معلوم تھا۔ لیکن کرونا وائرس کے بارے میں دنیا کے ماہرین کی لاعلمی نے باقی لوگوں کی طرح مجھے بھی لرزا دیا۔ اس کا احساس تین مختلف ائیرپورٹس سے گزرنے کے دوران ہوا۔ ایک خوف تھا کہ زندہ پہنچ بھی گئے تو کیا زندگی باقی ہوگی؟ یہ موت کے ڈر سے زیادہ زندگی میں اتنی بے یقینی ہونے کا احساس تھا۔
مجھے جہاز کے سفر سے کبھی ڈر نہیں لگا۔ کبھی جہاز میں خوفناک ہلچل مچتی تو میں سوچ لیتی کہ اب اگر خدا یہی چاہتا ہے تو کیا ہو سکتا ہے۔ لیکن میرا یہ سفر عجیب و غریب تھا۔
ایئرپورٹ کے جانب بڑھنے والا ہر قدم الجھن اور خوف میں مبتلا کررہا تھا۔ ائیرپورٹ پر جب سب ایک ہی سمت میں بڑھ رہے ہیں تو دوری کیسے قائم رکھی جائے۔ اس عالم میں میری طرح اور بھی بہت سے لوگ اپنے گھروں کو پہنچے کے لیے بے تاب تھے۔
چونکہ یہ آخری انٹرنیشنل فلائٹ تھی اس لیے طیارہ مسافروں سے مکمل بھرا ہوا تھا۔ میں نے ماسک اور گلوز پہن رکھے تھے۔ لیکن چند ہی لوگ تھے جو ان تدابیر پر عمل کررہے تھے۔
میری ایک جانب ایک بزرگ خاتون تھیں تو دوسری جانب ایک بڑی عمر کا جوڑا بیٹھا ہوا تھا۔ ہم چار لوگ 14 گھنٹے کے ہم سفر تھے اور منزل تھی لاس اینجلس۔ مجھے جہاز میں لوگوں سے بات کرنا زیادہ پسند نہیں لیکن پسند کرنے یا نہ کرنے کا اختیار اب کس کے پاس تھا۔
بزرگ خاتون لاس اینجلس سے چھٹی پر سڈنی آئی تھیں۔ ان کے دو بچے ہیں جو مختلف امریکی ریاستوں میں کام کرتے ہیں۔وہ کہنے لگیں، میں پندرہ سال سے اپنے گھر میں اکیلی ہوں۔ مجھے گھر میں بند ہونے کا کوئی خوف نہیں لیکن کبھی کبھار بچے آجاتے تھے، شاید کافی عرصے تک اب ممکن نہ ہوسکے۔
لاس اینجلس کا ایئرپورٹ لوگوں سے بھرا تھا۔ دکانیں کھلی تھیں۔ کاروبار زندگی رواں دواں تھا۔ جیسے کرونا وائرس کی خبر ان تک ابھی پہنچی ہی نہ ہو۔ جب ریاست کو اس بیماری کی تباہ کاری کا احساس ہوا تو تب تک بہت دیر ہوچکی تھی۔
لاس اینجلس سے واشنگٹن پہنچنے کے لیے مجھے مزید پانچ گھنٹے کا سفر طے کرنا تھا۔ جہاز تقریباً خالی تھا۔ گنتی کے چھ مسافر۔ لیکن مجھے ماسک پہن کر بھی کھانستے ہوئے دیکھ کر لوگ گھورتے رہے۔ شکر ہے کہ یہ موسمی کھانسی تھی۔
سڈنی کے قیام کے آخری دنوں نے مجھے آنے والی زندگی کے لیے کسی حد تک تیار کردیا تھا۔ آسٹریلیا میں پیر تک پانچ ہزار سات سو سے زیادہ کرونا وائرس کے کیسز کی تشخیص ہوچکی تھی۔ سب سے زیادہ کیسز سڈنی میں ہیں اس لیے گھر سے باہر نہ نکلنے کے حکومتی احکامات آچکے تھے۔
میں نے آخری ہفتے میں سڈنی میں ہوٹل کے کمرے سے باہر نکلنا چھوڑ دیا تھا۔ ویسے بھی سنسان سڑکیں، خالی بازار اور کہیں کہیں کوئی اجنبی دیکھ کر لگتا تھا جیسے آپ کسی ڈراؤنی فلم کے سیٹ پر ہوں۔
یہ سب کم نہ تھا کہ آخری رات دو بجے ہوٹل میں فائر الارم بھی بج اٹھا۔ پہلے سے خوف زدہ ہوٹل کے سب مہمان باہر نکلے۔ بیسویں منزل پر بھڑکنے والی آگ پر آدھے گھنٹے میں قابو پالیا گیا اور کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔
اب میں واشنگٹن میں اپنے گھر میں بند ہوں اور ماضی کے برعکس اپنی ماں کی کوئی کال یا میسج نظرانداز نہیں کررہی۔
رپورٹرز ڈائری: موسم بہار اور کرونا وائرس سے متاثرہ شہر لاہور
نوید نسیم، لاہور -- 04 اپریل، 2020
یہ کیسا موسم بہار آیا ہے۔ جس میں ہر طرف رنگ برنگے خوشبو دار پھول تو کھلے ہیں۔ مگر ان خوشبوؤں کو محسوس کرنے والا کوئی نہیں۔ ان پھولوں کی مہک سونگھ کر خدا کی قدرت پر شکر ادا کرنے والا کوئی نہیں۔
کوئی نہیں جو شدید ترین سردیوں کے بعد چمچماتی دھوپ میں کھلنے والے پھولوں کا گلدستہ بنا سکے۔ لگتا ہے کہ سب کرونا وائرس کے خوف سے اپنے گھروں میں قید ہیں اور یہ بھول چکے ہیں کہ موسم بہار میں کونپلوں کو پھولوں میں بدلنے والا ہی کرونا وائرس سے نمٹنے کے لیے کوئی حل نکالے گا۔
پاکستان کا دل کہلائے جانے والے شہر لاہور کی سڑکوں پر بہار کی آمد کو دیکھتے ہوئے لگائی گئی پنیریاں اب پھول دار پودوں میں بدل چکی ہیں۔ مگر ان رنگ برنگے پھولوں اور بل کھاتی نازک ٹہنیوں کو سنوارنے اور گرمی کی بڑھتی شدت میں ان پر پانی کا چھڑکاؤ کرنے والا کوئی نہیں۔
تیز ہواؤں اور بے موسمی بارشوں سے ٹوٹنے والے پتوں کو کیاریوں سے نکالنے والا بھی کوئی دکھائی نہیں دیتا۔ لگتا ہے کہ بہار کی آمد پر سب باغبان لاپتا ہو گئے ہیں۔
موسم خزاں کے خاتمے اور موسم بہار کی آمد پر شہرِ لاہور میں ہر سُو خوشبو دار پھولوں کا ڈیرہ ہوتا ہے۔ مصروف ترین شاہراہوں کے کناروں پر لگے درختوں پر نئے پتے پھوٹ رہے ہوتے ہیں۔
موسم بہار کی آمد پر محکمۂ ہارٹی کلچر اس انتظار میں ہوتا ہے کہ کب پت جھڑ ختم ہو اور پھولوں کی نمائشیں منعقد کی جائیں۔ لیکن اس بار کرونا وائرس کی وبا کے باعث پوری دنیا کی طرح لاہور شہر بھی بند ہے۔
پنجاب حکومت کی طرف نافذ کردہ لاک ڈاؤن کے بعد شہر کی سڑکیں خالی ہیں۔ لہٰذا سڑکوں کے کناروں پر بنی کیاریاں، گملے اور چوراہوں پر لگی دلکش بل کھاتی بیلیں اس انتظار میں ہیں کہ کب کوئی لاہوری آئے اور ان کے ساتھ سیلفیاں کھنچوائے۔
رپورٹرز ڈائری: امریکہ سے پاکستان واپسی کا سفر خواب بن گیا
گیتی آرا، واشنگٹن ڈی سی -- 03 اپریل، 2020
پاکستان کی سول ایوی ایشن نے کب، کیا اور کون سا نوٹیفکیشن جاری کیا ہے اور اس میں کیا ردو بدل ہوئے؟ کون سی فلائٹ بُک کرنے کے لیے کیا نمبر ملایا جاتا ہے؟ یہ سب معلومات اس وقت بیرون ملکوں میں پھنسے پاکستانیوں سے بہتر کوئی نہیں جانتا۔
شاید متعلقہ محکمے بھی اتنا نہ جانتے ہوں جتنا ان پاکستانیوں کو معلوم ہو چکا ہے جو اپنے وطن سے ہزاروں کلو میٹر دور پاکستان واپسی کی آس لگائے بیٹھے ہیں۔
پاکستان نے کرونا وائرس کا پھیلاؤ روکنے کے لیے 21 مارچ کو جب اپنی سرحدیں بین الاقوامی پروازوں کے لیے بند کیں تو میں اس وقت امریکہ کے دارالحکومت واشنگٹن ڈی سی میں میں اپنا سامان سفر باندھ چکی تھی۔
ذاتی کاموں یا مصروفیات کے لیے بیرون آنے والے مجھ جیسے ہزاروں پاکستانی بھی اس وقت شاید یہی سوچ رہے تھے کہ اب وطن واپس کیسے پہنچا جائے گا؟ میری سوچ بھی اس سے مختلف نہیں تھی۔
بطور صحافی میں یہ بات تو جانتی تھی کہ چوں کہ حالات تیزی سے خراب ہو رہے ہیں اور کرونا وائرس دنیا بھر میں تیزی سے مسلسل پھیل رہا ہے۔ لہٰذا گھر واپسی کا سفر ہرگز آسان نہیں ہو گا۔ لیکن کتنا مشکل ہو گا؟ اس کا احساس مجھے آنے والے ہفتوں میں ہوا۔
ابتدا میں یہ پابندی چار اپریل تک لگائی گئی تھی۔ میں نے اپنی ایئرلائن کو درخواست تو کر دی کہ چار اپریل کے لیے دوبارہ ٹکٹ بُک کر دیں۔ مگر واشنگٹن ڈی سی میں واقع پاکستان کے سفارت خانے سے معلوم کرنے پر پتا چلا کہ چار اپریل کو بھی فلائٹس کی بحالی ایک مفروضہ ہی تھا۔
پاکستانی سفارت خانے کی لینڈ لائن پر تو شاید آپ کا رابطہ متعلقہ افسران سے ہونا مشکل ہو، لیکن اگر ہو جائے تو یقیناً عملہ آپ کو درست معلومات ہی فراہم کرتا ہے اور آپ کی معاونت کرنے کی بھی کوشش کرتا ہے۔
'حالات بہتر بھی ہو سکتے ہیں اور خراب بھی'
سارہ حسن، اسلام آباد -- یکم اپریل، 2020
میں بہت تھکاوٹ محسوس کر رہی ہوں۔ ایک ایسے ماحول میں کام کرنا جہاں دشمن کوئی نہیں ہے لیکن ہر جانب ان دیکھا خطرہ، اعصاب پر حاوی ہے۔ کبھی تو گھر میں رہنے والے افراد پر بھی شبہہ ہونے لگتا ہے کہیں یہ کرونا وائرس گھر نہ لے آئیں۔
دوست احباب، ایک ساتھ کام کرنے والے سب سے رابطے کا واحد ذریعہ فون اور انٹرنیٹ ہی ہے۔
گزشتہ 20 روز سے پاکستان میں کرونا وائرس کے کیسز میں آئے دن اضافہ ہو رہا ہے۔ ایسی صورتِ حال میں کچھ بھی واضح نہیں ہے۔ حالات بہتر بھی ہو سکتے ہیں اور بد سے بدتر بھی۔
بچوں کے اسکول بند ہیں جلد کھلنے کا امکان بھی نہیں ہے۔ پارکس بھی بند ہیں اورسرگرمیاں بھی محدود اور بچوں کی بیشتر توانائی گھر کا نقشہ بدلنے اور ایک دوسرے کی شکایات کرنے میں صرف ہو رہی ہے۔
دن بھر ان کے مقدمات کا فیصلہ کرنا میرے اولین فرائض میں شامل ہے۔
ایک ہفتے قبل اعلان ہوا کہ دفتر تا حکم ثانی بند ہے اور کام گھر سے کرنے کی ہدایات نے ایک اور دشوار گزار اور فوری طور نہ ختم ہونے والا سفر شروع کر دیا ہے۔
میرے علاقے میں کرونا وائرس کے دو کیسز سامنے آئے ہیں پورا علاقہ سیل ہے اور لوگوں میں خوف ہے۔ علاقہ مکینوں کو ایک محدود علاقے سے باہر جانے کی اجازت نہیں ہے اور نہ ہی کسی اور کو اندر آنے دیا جا رہا ہے۔
صحافت میں چاہے ایڈیٹرز ہوں، رپورٹر ہوں یا کیمرہ مین گھر سے بیٹھ کر کام نہیں چل سکتا۔ لاک ڈاؤن کے دوسرے دن ہی اندر کی صحافتی بغاوت نے مجھے حفاظتی حصار سے باہر جانے پر اُکسایا۔
چوکی پر موجود پولیس اہلکار نے کہا کہ میڈم باہر جانا منع ہے۔ میں نے کہا میرا جانا ضروری ہے جس پر جواب ملا کہ گاڑی میں بیٹھے ایس ایچ او صاحب سے بات کریں۔
میں نے اپنی بات دو جملوں میں مکمل کی کہا کہ میری اور آپ کی ملازمت کی نوعیت ایک سی ہے ہمیں ہر حالت میں کام کرنا ہے جس پر اُنہوں نے جواب دیا آپ کو کون روک سکتا ہے۔ آپ جائیں۔
مرکزی شاہراہ پر دور تک کوئی گاڑی نہیں ہے یہ کیا ہے؟ کیا سارے پردیسی کہیں چلے گئے؟ لیکن نہیں سرکاری دفاتر تو کھلے ہیں۔
پردیسیوں کے شہر میں عید اور تہوار سے بھی کم ٹریفک ہے۔ چلیں شکر ہے کسی نے تو کرونا کو سنجیدہ لیا ہے۔
سڑک پر جگہ جگہ مختلف رنگوں اور میٹریل کے ماسک بیچنے والے موجود تھے جن میں خواتین نوجوان اور کم عمر بچے سب ہی شامل تھے۔ خریدار کم تھے لیکن پھر بھی کام چل ہی رہا تھا۔
راستے میں بجلی کے کھمبوں پر کرونا سے بچنے اور آگاہی کے لیے بینرز لگے تھے۔ 'اپنے ہاتھ بیس سیکنڈ تک اچھی طرح دھوئیں' 'کرونا سے ڈرنا نہیں لڑنا ہے۔'
'پانی قیمتی ذخیرہ ہے اسے ضائع نہ کریں۔ وزارتِ آبی وسائل` پاکستان پانی کم ہو رہا ہے۔ وزارتِ آبی ذخائر‘ جیسے پوسٹرز جابجا آویزاں ہیں۔
لیکن یہ کیا ہے؟ اگر پانی کم ہے، تو پھر وائرس سے بچاؤ کے لیے ہاتھ اچھی طرح کیسے دھوئیں۔ ان پیغامات میں کچھ تضاد سے لگا۔
بالکل ویسے ہی جیسے ’لاک ڈاؤن کے متحمل نہیں ہو سکتے‘ لیکن سب کچھ بند ہے۔
خیر آگے بڑھتی گئی، سیرینہ ہوٹل کا اشارہ کافی لمبا ہے لیکن گاڑیوں کی لمبی قطاریں نہیں ہیں بس کچھ ہی گاڑیاں تھیں لیکن زیادہ تر افراد ماسک لگائے ہی نظر آئے۔
سوچا کہ دیکھوں فوج کہاں کہاں تعینات ہے۔
شاہراہ دستور کی جانب گاڑی موڑی اور پارلیمنٹ سپریم کورٹ، وزیراعظم سیکریٹریٹ لیکن کہیں بھی باہر فوج نہیں تھی۔
ہر جگہ پولیس اہلکار ہی کھڑے نظر آئے اور دوسرے ہمارے کیمرہ مین بھائی اور رپورٹرحضرات۔ سوچ رہی ہوں فوج بلا تو لی گئی ہے لیکن ابھی یہ پتا نہیں ہے کہ وہ کر کیا رہی ہے۔
'وزیرِ اعظم سے ارکان پارلیمنٹ تک سب تسلیاں دیتے ہیں، سننے والا کوئی نہیں'
جمشید رضوانی، ملتان -- یکم اپریل، 2020
ایک ہفتہ قبل مجھے خیال آیا کہ میں ایران سے جنوبی پنجاب آنے والے ایک ایسے شخص پر اسٹوری کروں جو تفتان کے قرنطینہ مرکز میں رہنے کے بعد جب جنوبی پنجاب پہنچا تو اس کا کرونا وائرس کا ٹیسٹ مثبت آیا اور اسے دوبارہ قرنطینہ میں منتقل ہونا پڑا۔
چوں کہ وہ شخص ایران سے آنے والے زائرین میں شامل تھا، اس لیے پنجاب پہنچنے پر اسے قرنطینہ میں داخل ہونا پڑا اور یہیں اس کا کرونا ٹیسٹ بھی ہوا۔
لیکن ایک ہفتہ گزرنے کے باوجود میں یہ اسٹوری فائل نہیں کر سکا۔ کیوں؟ اس کی وجہ بھی جان لیں۔
میں جس شخص پر اسٹوری کرنا چاہتا تھا ان کا نام شاہ تھا۔ میں دانستاً ان کا پورا نام نہیں بتا رہا۔ میں نے قرنطنیہ مرکز میں فون کے ذریعے شاہ صاحب سے سات روز قبل بات کرنا چاہی تھی۔ لیکن کسی نے فون اٹینڈ نہیں کیا۔
کچھ گھنٹے بعد ان کا میسج آیا کہ میری طبیعت ٹھیک نہیں ہے۔ اس پر میں خاموشی ہی اختیار کرسکتا تھا، سو وہی کیا۔
کئی دن بعد شاہ صاحب کا دوبارہ میسج آیا جس میں انہوں نے مجھ سے یہ سوال پوچھا کہ مہربانی کر کے مجھے یہی بتا دیں کہ ہمارے بارے میں انتظامیہ کیا سوچ رہی ہے؟ ہمیں مزید کتنے دن اور قرنطینہ میں رہنا ہو گا؟
ان کے استفسار پر میں نے پتا کیا تو معلوم ہوا کہ ان کا قرنطینہ میں داخل ہونے کے 14 دن بعد دوبارہ کرونا وائرس کا ٹیسٹ ہو گا جس کے نتائج سامنے آنے کے بعد ہی انہیں گھر بھیجنے یا مزید روکنے کا فیصلہ ہو سکے گا۔
میں نے یہ بتانے کے لیے شاہ صاحب کو فون کیا لیکن فون دوبارہ بند تھا۔ میں نے واٹس ایپ پر میسج کیا لیکن اس کا بھی کوئی جواب نہیں آیا۔ آج صبح اٹھتے ہی انہیں کال کی تو وہ کافی بہتر محسوس ہوئے۔ ان کا مزاج بھی اچھا لگ رہا تھا۔ میں نے ان سے پچھلی بار کیے گئے سوال کا جواب مانگا تو وہ اپنی کہانی بتانے لگے۔
شاہ صاحب نے کہا کہ اب کوئی مجھ سے اپنے گھر جانے کے بارے میں سچ بھی کہے تو بھی مجھے یقین نہیں آتا۔ ہم 14 مارچ کو تفتان سے بغیر کسی وقفے کے 40 گھنٹے کا سفر کر کے ڈیرہ غازی خان پہنچے تو ایئر پورٹ کے قریب واقع یونیورسٹی میں ٹھہرا دیا گیا۔
ایک دو روز بعد سب کے ٹیسٹ ہوئے اور پھر کچھ لوگوں کو کسی دوسری جگہ منتقل کر دیا گیا اور کہا گیا کہ یہ اس سے بہتر جگہ ہے۔ بعد میں علم ہوا کہ یہاں 89 افراد موجود ہیں جن میں سے زیادہ تر کے ٹیسٹ مثبت آئے ہیں۔
شاہ صاحب کے بقول یہاں کبھی وزیرِ اعظم آئے، کبھی وزیرِ اعلیٰ، کبھی مختلف ارکانِ اسمبلی اور کبھی انتظامی افسران، سب نے ہی تسلی دی۔ لیکن ہم جس مشکل میں ہیں اسے سننے والا کوئی نہیں آیا۔
میں نے شاہ صاحب سے اجازت چاہی کہ میں آپ کی کچھ باتیں اپنی رپورٹ میں شامل کرنا چاہتا ہوں۔ وہ بولے، لکھ دیں لیکن میرا نام ظاہر نہ کریں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ میری مشکلات میں مزید اضافہ ہو جائے۔
میں نے شاہ صاحب سے وعدہ کیا کہ ایسا ہی ہو گا۔ میں نے ان سے ان کے بچوں کے متعلق پوچھا تو کہنے لگے میری چار چھوٹی بیٹیاں ہیں۔ ہر روز یا ہر دوسرے دن ان سے بات ہوتی ہے۔ میں ان سے یہی کہتا ہوں کہ بس خراب ہو گئی ہے، آج بس نہیں ملی یا آج دیر ہو گئی۔ میں ان سے مسلسل جھوٹ بول رہا ہوں اور جھوٹے دلاسے دے رہا ہوں۔ لیکن میں کروں تو کیا کروں؟
انہوں نے بتایا کہ قرنطینہ میں رہنا ایک بڑا مسئلہ اور مشکل ترین کاموں میں سے ایک ہے۔
شاہ صاحب کے بقول جن افراد کے کرونا ٹیسٹ مثبت آئے تھے، پہلے تو انہیں الگ تھلگ رکھا گیا تھا۔ لیکن ان میں سے کچھ لوگوں کے رشتے داروں نے کرونا سے متاثرہ اپنے پیاروں کو اکیلا چھوڑنا پسند نہیں کیا اور انہی کے ساتھ رہنے لگے۔
اس پر انتظامیہ کی جانب سے کہا گیا کہ جن افراد کے کرونا ٹیسٹ منفی آئے ہیں، وہ چاہیں تو اپنے گھر واپس جاسکتے ہیں۔ اعلان کے بعد بہت سے لوگ وہاں سے چلے گئے۔ مگر ہم سوچ رہے ہیں کہ انتظامیہ کی یہ کیسی پالیسی ہے کہ اگر ہمارے ٹیسٹ مثبت ہیں اور کوئی ہمارے ساتھ متعدد دن رہا ہے تو اسے ہمارے ساتھ رہنے سے پہلے والی منفی رپورٹ کی بنیاد پر گھر جانے کی اجازت کیسے دے دی گئی؟
میری گزشتہ ایک ماہ کے دوران شاہ صاحب سے جب بھی بات ہوئی وہ کبھی پریشان، کبھی رنجیدہ اور کبھی مطمئن نظر آئے۔ کرونا کے مثبت کیسز والے بلاک میں طبی سہولتیں اور خوراک سے متعلق شاہ صاحب ملا جلا تاثر دیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ پچھلے 12 روز سے کوئی ڈاکٹر اس بلاک میں نہیں آیا لیکن کھانا تین وقت مل رہا ہے۔
شاہ صاحب کے بقول قرنطینہ مرکز میں صرف ایک لڑکا ہے جو ہمارا خیال رکھ رہا ہے۔ خوراک کی تقسیم اور بلاک کی صفائی اسی کے ذمے ہے۔ شروع شروع میں اس لڑکے نے اپنی حفاظت کا کافی خیال رکھا۔ ماسک اور گلوز استعمال کیے۔ لیکن اب ایسا کچھ نہیں۔ اب وہ بھی سب میں گھل مل گیا ہے اور کہتا ہے کہ خیر ہے۔ اگر آپ لوگوں کے ٹیسٹ مثبت آئے ہیں تو میں اپنا ٹیسٹ مثبت آنے پر بھی آپ کی خدمت کرتا رہوں گا۔
گھر سے کرنا کام کا، لانا ہے جوئے شیر کا
خالد حمید، واشنگٹن ڈی سی -- 30 مارچ، 2020
مثال سنتے آئے تھے کہ ایک ننھی سی چیونٹی دیو ہیکل ہاتھی کی سونڈ میں گھس جائے تو پورا ہاتھی ڈھیر ہو جاتا ہے۔ پھر قران مجید میں اصحابِ فیل کا قصہ پڑھا کہ ہاتھیوں کے لشکر پر ابابیلوں نے کنکریاں برسا کر انہیں شکست فاش دے دی۔
دنیا کی تاریخ کا مطالعہ کریں تو پتہ چلتا ہے کہ نمرود کی فرعونیت کا کیسے خاتمہ ہوا۔ پھر چنگیز خان، ہلاکو خان، مغل بادشاہ اور ہٹلر جیسے بڑے بڑے سورما دنیا فتح کرنے نکلے تو یا تو راستے میں مارے گئے یا پھر کچھ علاقے فتح کر کے فاتح عالم کا تاج اپنے سر پر سجا لیا۔
لیکن بھائی یہ کرونا کیا بلا ہے؟ جو شہر کے شہر اور ملک کے ملک ڈھاتا چلا جا رہا ہے اور رکنے کا نام ہی نہیں لیتا۔ جو نہ دکھائی دیتا ہے، نہ سنائی دیتا ہے اور نہ ہی اس کی بظاہر کوئی ہیئت ہے۔
بڑی بڑی اعلٰی خورد بینوں سے تلاش کرنے بیٹھیں تو ہزاروں جرثوموں میں سے کوئی ایک چھوٹا سا جرثومہ دکھے گا، جسے عام حالات میں بندہ کہے کہ "چہ پدی کہ پدی کا شوربہ۔"
نہیں بابا نہیں، کہیں ناراض ہی نہ ہو جائے کہ میری توہین کر دی اور کہے کہ دکھاؤں اپنا جلوہ اور دوسرے ہی لمحے ہم پڑے ہوں اسپتال میں۔
لیکن جناب اس نے کیا تباہی مچائی ہے۔ نہ کوئی فوج، نہ لاؤ لشکر، نہ توپیں، نہ بحری اور ہوائی جہاز، نہ میزائل اور نہ ہی ایٹم بم۔ لیکن پوری دنیا ہیروشیما اور ناگاساکی ہو گئی ہے۔
یہ کم بخت کہاں، کیسے اور کب جسم میں گھس جاتا ہے اور آناً فاناً فرعون جیسا مغرور، بکتر بند جیسا مضبوط، بحری جہاز جیسا دیو ہیکل اور جیٹ جہاز جیسا پھرتیلا انسان بھی چاروں خانے چت ہو جاتا ہے۔
اور یہیں بس نہیں کرتا بلکہ ایک سے دوسرے، دوسرے سے تیسرے انسانوں، شہروں اور ملکوں کی سرحدیں پار کرتا چلا جاتا ہے۔ اس کی نہ کوئی حد ہے نہ ہی اس پر کوئی سرحدی پابندیاں۔ نہ سپر پاور دیکھتا ہے، نہ مظلوم ملک۔ غریب کی جھونپڑی سے لے کر اقتدار کے ایوانوں تک سب پر یکساں وار کرتا ہے۔
نتیجتاً پوری دنیا پر سناٹا چھایا ہوا ہے۔ ہو کا عالم ہے، بازار بند، سڑکیں ویران، اسکول، کالج اور دفتر سائیں سائیں کر رہے ہیں۔ لوگ گھروں کے کونوں میں دبکے بیٹھے ہیں۔ نہ مصافحہ رہا ہے نہ معانقہ، نہ عبادتیں، نہ ریاضتیں، نہ جماعت ہے، نہ طواف ہے، نہ ہی محفلیں رہیں اور نہ دعوتِ طعام ہے۔
شاعر سے معذرت کے ساتھ:
اب تو گھبرا کہ یہ کہتے ہیں کہ مر جائیں گے
مر کے بھی قبر نہ پائی تو کدھر جائیں گے
پہلے پہل تو لوگ اسے مزاقاً ہی لیتے رہے اور جگتیں کرتے رہے۔ مگر پھر ایک رات جب سونامی سر پر آ گیا تو جنگ کا نقارہ بجنے لگا۔ دفتر، کاروبار، اسکول سب بند ہو گئے۔ جو بڑی طاقتیں سمجھ رہی تھیں کہ ہمیں کون چھو سکتا ہے، وہ سب سے پہلے بھاگیں۔ کیوں کہ جتنا بڑا سامان، اتنا بڑا نقصان۔
جب دنیا کے سب سے طاقتور ملک امریکہ کا نظام زندگی بند ہونا شروع ہوا تو ہمیں یہ اطمینان تھا کہ دارالحکومتوں کے دارالحکومت واشنگٹن میں بیٹھے ہیں اور پھر 45 سے زیادہ زبانوں کی نشریات والا وائس آف امریکہ جیسا ادارہ کہاں بند ہو سکتا ہے۔
لیکن اچانک ایک دن حکم نامہ آیا کہ گھر سے کام کرنے کا فارم اور معاہدہ دستخط کر کے بھیج دیںا۔ اور یہ بہت ہی ضروری ہے۔
ہم نے بھی بادلِ نخواستہ وہ فارم بھر دیا۔ کیوں کہ زعم یہ تھا کہ باقی سب کام تو گھر سے ہو سکتے ہیں۔ لیکن خبریں گھر سے کیسے ہو سکتی ہیں؟ مائیک، کیمرہ اور اسٹوڈیو گھر میں کہاں سے آئے گا۔
لیکن جناب پھر دیکھا کہ دیگر ملکوں اور شہروں کی طرح واشنگٹن ڈی سی بھی بند ہونا شروع ہو گیا۔ آہستہ آہستہ ہمارے دفتر کے مختلف شعبے اور لوگ بھی گھر سے کام کرنے لگے۔
ہم پھر بھی دفتر آتے رہے۔ لیکن کام اس وقت بگڑا جب اسٹوڈیو کے ایک انجینئر میں کرونا وائرس کی تشخیص ہوئی جو بعد میں خوش قسمتی سے صحت یاب بھی ہو گئے۔ لیکن دفتر میں ایک دہشت سی پھیل گئی اور اسٹوڈیو بند ہو گئے۔
اب ہمارے ٹی وی والوں نے تو کیمرے سنبھالے، رپورٹر اور اینکر باہر خوبصورت مقامات پر جا کر نشریات کرنے لگے۔ ریڈیو کے بھی کچھ ساتھیوں نے گھر سے ہی کام کرنے میں عافیت جانی۔ اب رہ گئے ہم اور دو، چار ساتھی جو میدانِ جنگ میں اپنے افسران کی آشیر باد سے آخری وقت تک ڈٹے رہے۔ چند دن اسی حالت میں گزرے اور پھر بلآخر کوچ کا حکم آ گیا۔
کچھ تیکنیکی ماہرین نے سیل فون سے ریڈیو اور فیس بک براڈکاسٹںگ کے بارے میں سمجھا کر ایسے گھر بھیج دیا جیسے تیراکی نہ جاننے والے کو سمندر میں دھکا دے دیتے ہیں۔
ہم پریشانی کے عالم میں گھر آ گئے کہ یہ سب کیسے ہو گا؟ ایسے میں بیوی اور بیٹی کام آئیں اور مشورہ دیا کہ بیٹی مدیحہ (جن کی شادی ہو چکی ہے) کے کمرے کو اسٹوڈیو بنا دیا جائے۔
تجویز پر فوراً عمل کرتے ہوئے کمرے کی اکھاڑ پچھاڑ شروع ہو گئی۔ بستر کا گدا کھڑکی کے ساتھ اور اس کے تختے کو دیوار کے ساتھ لگا دیا گیا تاکہ باہر کا شور اندر نہ آ سکے۔ لکھنے والی میز کو بیچ میں رکھ کر ڈیسک بنا دیا گیا۔
بیٹی ربیعہ نے اپنا کمپیوٹر حوالے کیا تاکہ ای میل، خبریں اور دوسری معلومات تک رسائی ہو۔ ایک پرنٹر خریدا گیا جو بہت ضروری تھا۔
ریڈیو کا بلیٹن تو آسان تھا کہ خبریں چھاپ کر سیل فون سے ریکارڈ کر کے پروڈیوسر انجم گل کو بھیج دی جائیں جو اس کی قطع برید کر کے نشریہ میں ڈال دیں۔ مسئلہ فیس بُک لائیو کا تھا کہ وہ کیسے ہو گا؟
اللہ بھلا کرے بیٹے حارث کا جو کیلی فورنیا میں اسی شعبے سے وابستہ ہے۔ اس نے بہت پہلے ایک کیمرہ لائٹ بھیجی تھی جو کام آ گئی اور مائیکرو فون ہمارے ساتھی فواد الیاس لے آئے۔
کمرے میں سیٹ ڈیزائننگ اور کپڑوں کا انتخاب مونا بیگم کی ذمہ داری ٹھہرا اور سارے تیکنیکی امور ربیعہ نے پورے کیے۔ کیوں کہ ہم تو اس معاملے میں پیدل ہیں۔ وہ اب بھی یہ کام بڑی ذمہ داری سے نبھا رہی ہیں۔
غرض یوں فیس بک کا بلیٹن، ہنگامی حالات میں عارضی اسٹوڈیو سے آپ تک پہنچ رہا ہے۔ یہ تو صرف میری کہانی ہے، لیکن ہماری دیگر سروسز کے کتنے ہی ساتھی اینکر اور رپورٹرز ہیں جو اسی طرح گھروں میں اسٹوڈیو بنا کر کام کر رہے ہیں۔
لیکن میرا فخر اور اعزاز بالکل جدا ہے۔ جو سفر آج سے کئی دہائیوں پہلے ریڈیو پاکستان راولپنڈی میں بچوں کے ایک پروگرام سے شروع ہوا تھا۔ وہ ایک نازک سا رشتہ اپنے سامعین سے جڑا تھا جو ریڈیو نیوز اور پھر پاکستان ٹیلی ویژن کے ناظرین کے دلوں میں گھر کرتا ہوا قراقرم کے پہاڑوں جیسا مضبوط ہو گیا ہے۔ ہزاروں میل دور امریکہ آ کر بھی اس رشتے اور لوگوں کی محبت میں کوئی کمی نہیں آئی۔
بارش ہو یا آندھی، طوفان ہو یا برف باری، خبروں کا یہ رابطہ قائم رہا ہے۔ آج میں فخر سے کہہ سکتا ہوں کہ دنیا بھر میں تباہی مچانے والا کرونا بھی ہمارے اس رشتے کو نہیں توڑ سکا۔
'کراچی میں لاک ڈاؤن ہے، لیکن لوگ سنجیدہ نہیں'
سدرہ ڈار، کراچی -- 26 مارچ، 2020
دو روز قبل رات دس بجے جب کرونا کی وبا سے بچاؤ کے لیے شہر بھر کی مساجد سے دی جانے والی اذانوں سےشہر گونج اٹھا تو نعمان کے والدین کو تشویش ہوئی۔ اُنہوں نے اپنے بیٹے کو آفس جانے سے منع کر دیا۔ نعمان جن کا تعلق میڈیا سے ہے ان کے لیے مشکل یہ ہے کہ وہ گھر والوں کی مانیں یا آفس کی۔ یوں ایک دن کی چھٹی کے بعد وہ پھر دفتر روانہ ہو گئے۔
شمیم صدیقی ریٹائرمنٹ کے بعد اب پرائیویٹ جاب کر رہے ہیں اور لاک ڈاون کے باوجود انہیں کام کی غرض سے باہر نکلنا پڑ رہا ہے۔ لیکن آج انہیں ایک ناکے پر پولیس والوں نے یہ کہہ کر واپس گھر بھیج دیا کہ انکل آپ کی عمر اب 50 سے اوپر ہے گھرجائیں۔ جا کر آرام کریں اور فیملی کے ساتھ وقت گزاریں۔
لاک ڈاؤن کے اعلان کے بعد سے ہر وہ دوسرا شخص اس صورتِ حال سے گزر رہا ہے جو اپنی نوکری کے سبب باہر نکلتا ہے۔ فرقان بھی ان ہی میں سے ایک ہیں جنہیں بینک تک جانے کے لیے پولیس اور رینجرز والوں کو ہر چوک اور شاہراہ پر لگے ناکے پر اپنی شناخت کے ساتھ ساتھ آفس کال ملا کر بات بھی کرانا پڑی۔ یہ صورتِ حال ان کے لیے مشکل رہی لیکن وہ اس لیے بیزار نہیں کہ وہ سختی کو جائز سمجھتے ہیں۔
حکومتِ سندھ نے لاک ڈاؤن کے دوران اشیائے خورونوش کی دُکانوں، میڈیکل اسٹورز، دودھ اور سبزی کی دُکانیں کھلی رکھنے کی اجازت دی ہے۔ لیکن دیگر کاروباری مراکز بند ہیں۔ البتہ نئے احکامات کے تحت مذکورہ دُکانیں بھی صبح آٹھ سے رات آٹھ بجے تک ہی کھلیں گی۔
اب شہر میں چند روز کا کرفیو بھی لگ سکتا ہے جس کے بعد مزید سختی ہو جائے گی ان قیاس آرائیوں نے افراتفری میں اضافہ کر دیا ہے۔ گھر والوں نے ضروری ادویات کے لیے فکر مندی کا اظہار کیا تو میں نے سوچا کہ ایک بڑے میڈیکل اسٹور جو گھر سے 10 منٹ کی ڈرائیور پر ہے۔ وہاں سے جا کر یہ دوائیں خرید لی جائیں۔
لیکن باہر نکلتے ہی اندازہ ہوا کہ یہ مہم آسان نہیں۔ گھر سے نکلتے ہی پہلے چوک کی تمام سڑکوں کو پولیس اور رینجرز کے جوانوں نے گاڑیوں اوردیگر رکاوٹوں کی مدد سے بند کر رکھا تھا۔ جہاں سے گاڑیاں اور موٹر سائیکل سواروں کو واپس مڑنے کے سوا کوئی چارہ نہ تھا۔ سو مجھے بھی منزل تک پہنچنے کے لیے گلیوں میں مڑنا پڑا۔
اہم شاہراہیں چونکہ سنسان ہیں اس لیے گلیوں سے جو راستے مساجد کی طرف جاتے ہیں وہاں سبزی او ر پھل فروش آ بیٹھے ہیں۔ تاکہ مساجد کی طرف آنے والے ان سے خریداری کر سکیں۔
فائل فوٹو
اندر جو مارکیٹس ہیں ان میں زندگی اب بھی رواں دواں ہے۔ خاص کر نوجوانوں پر شاید اس وائرس کا کوئی خوف نہیں اس لیے وہ کرکٹ کھیلنے میں مصروف دکھائی دیے۔ میں ان نوجوانوں کی غیر سنجیدگی سے متعلق سوچ ہی رہی تھی کہ میرے سامنے ہی منظر یکسر تبدیل ہو گیا۔
رینجرز کی ایک موبائل جو غالباً گشت پر تھی وہاں پہنچی اور انہوں نے کرکٹ کے شوقین نوجوانوں کو ڈنڈوں سے پیٹنا شروع کر دیا۔ یہ منظر ارد گرد کے ان شہریوں کے لیے بھی وارننگ ہی ثابت ہوا ہو گا۔ جو کرکٹ کھیلنے کا سوچ رہے ہوں گے۔
گلیوں سے نکلنے اور کئی رکاوٹیں عبور کرنے کے بعد میں ایک گھنٹے کے بعد میڈیکل اسٹور پہنچی جہاں سے ضروری ادویات لینے کے بعد اب واپسی کی مہم بھی شروع کرنی تھی۔
یہاں سے بھی واپسی پر پیٹرول پمپس پر گاڑیوں اور موٹر سائیکل سواروں کی قطاریں نظر آئیں۔ وہی مرکزی شاہراہیں رکاوٹیں لگا کر بند ملیں۔ اور پھر سے کچھ نوجوانوں کو لاک ڈاون کی خلاف ورزی کرنے پر سزائیں ملتے دیکھا۔
جن راستوں سے میں گزر کر آئی تھی وہاں گوشت اور کریانے کی دکانیں کھلی ہوئی تھیں لیکن اب گھنٹہ بھر میں سب بند ہو چکا تھا۔ رینجرز کے جوان جگہ جگہ موبائل سے اترتے اور دکانیں بند کراتے دکھائی دیے۔
ٹولیوں کی صورت میں بیٹھے یا کھڑے نوجوانوں کو پہلے سختی سے سمجھایا جاتا اور گھروں کو واپس بھیجا جارہا تھا۔ سب سے مشکل صورتِ حال گھر کے قریب کے راستے بند ہونے کے سبب مختلف گلیوں سے نکلنے کا راستہ اختیار کرنا تھا۔
فائل فوٹو
جو کہیں نہ کہیں جاکر بند ملتیں اور پھر واپس اسی جگہ آنا پڑتا جہاں سے داخل ہوئے تھے۔ تین ناکوں پر مجھے جا کر رینجرز کے جوانوں سے کہنا پڑا کہ اگر ممکن ہوسکے تو یہ راستہ کھول دیں تاکہ میں گھر پہنچ سکوں۔
انہوں نے کہا کہ ہم آپ کی مشکل سمجھ سکتے ہیں لیکن اگر آپ کے لیے یہ رکاوٹ ہٹا کر آپ کو جانے دیتے ہیں تو پھر آس پاس کھڑے لوگوں کو بھی راستہ دینا پڑ جائے گا جو ممکن نہیں۔
یہ تو طے ہے کہ آپ کے پاس شناختی کارڈ ہو یا ادویات لینے کے لیے ڈاکٹر کا تجویز کردہ نسخہ، رعایت کسی صورت نہیں۔ جو راستہ بند ہے وہاں سے گاڑی کا گزرنا ناممکن ہی ہے۔
اس صورت میں اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ اسے قریب ہی جانا ہے تو وہ یوں گیا اور یوں آیا اسے یہ سوچ بدلنا ہو گی۔ تو جو لوگ بھی باہر نکلیں ان کی گاڑی میں پیٹرول پورا ہونا چاہیے اور برداشت بھی اتنی زیادہ کہ وہ ایسی مشکل صورتِ حال پر گھبراہٹ کا شکار ہونے کے بجائے سوچ سمجھ کر فیصلہ لے سکیں۔
باہر جو سختی کا ماحول میں نے ڈھائی گھنٹے میں دیکھا وہ ظاہر کرتا ہے کہ عوام ابھی اس سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کر رہی جس کی اشد ضرورت ہے۔ ان سب حالات کو دیکھتے ہوئے اب بہت سے لوگ کرفیو کو ہی واحد حل سمجھ رہے ہیں۔
جس پر پہلے ہی سندھ حکومت اشارہ دے چکی ہے۔ لیکن لاک ڈاون ہو یا کرفیو کرونا سے بچنے کا واحد حل احتیاط اور گھروں میں محدود رہنا ہی ہے جو صرف ہمارے اپنے ہاتھ میں ہے۔
'آج کراچی کا منظر وہی تھا جو برسوں پہلے ہڑتالوں میں دکھائی دیتا تھا'
سدرہ ڈار، کراچی -- 23 مارچ، 2020
عطیہ ناز کی ڈاکٹر سے ریگولر چیک اپ کی تاریخ 24 مارچ ہے اور انھیں آج صبح اسپتال سے یہ ٹیکسٹ موصول ہوا کہ اسپتال ریگولر چیک اپ کی نئی تاریخ لاک ڈاؤن ختم ہونے کے بعد جاری کرے گا۔ عطیہ نے اپنی بیماری کی تمام ضروری ادویات پہلے سے ہی لے کر گھر میں رکھ لی ہیں لیکن انہیں یہ فکر بھی ہے کہ پندرہ روز کے بعد کیا ہو گا۔
پاکستان میں کرونا وائرس کے سب سے زیادہ کیسز سندھ میں رپورٹ ہو رہے ہیں اور اسی وجہ سے سندھ حکومت نے کراچی سمیت سندھ بھر میں 15 دن کے لئے لاک ڈاون کرنے کا فیصلہ کیا۔ لاک ڈاون کا اطلاق 23 مارچ کی نصف شب ہوا، جس کے بعد شہر بھر کی سڑکوں پر پولیس کی اضافی نفری نے شہریوں کو اس پر عمل در آمد کرانا شروع کر دیا۔
لاک ڈاون کے پہلے روز شہر بھر کی صورت حال کیا رہی اس کی رپورٹنگ کی غرض سے جب باہر نکلنا ہوا تو پہلی دشواری کریم سروس کی بندش سے ہوئی۔ جن کی جانب سے پیغام دیا گیا کہ حالات کے پیش نظر وہ اپنی سروس معطل کر رہے ہیں۔
رہائشی سوسائٹی سے باہر نکلنے کے لئے پیدل چلنا مناسب سمجھا۔ واک کے دوران احساس ہوا کہ شہری گھروں میں محصور ہیں۔ مرکزی گیٹ پر کھڑے سیکیورٹی گارڈز نے گیٹ کو بند کر رکھا تھا۔ میں اپنے کیمرہ مین کے ہمراہ شہر کا جائزہ لینے کے لئے نکلی تو پولیس نے دو جگہ ہمیں روک کر پوچھ گچھ کی اور مقصد جاننے اور شناخت کے بعد آگے جانے کی اجازت دی۔
کئی سڑکوں پر پولیس نے رکاوٹیں بھی کھڑی کر رکھی تھیں جب کہ موبائل کے ساتھ پولیس اہل کار بھی گاڑیوں اور موٹر سائیکل سواروں کو روک کر جانچ پڑتال کرنے میں مصروف دکھائی دئیے۔ دو سے تین کریانے کی دکانیں ضرور کھلی ہوئیں تھیں، لیکن اس سفر کے دوران ہمیں کہیں بھی کوئی بڑی دکان یا مارکیٹ کھلی نظر نہ آئی۔
لاک ڈاون میں ہر قسم کے کاروباری مراکز، مارکیٹس، مالز، شادی ہالز، کلب، سینما گھر بند رکھنے کے سخت احکامات ہیں، جب کہ سیاسی اور مذہبی اجتماعات پر بھی پابند عائد ہے۔ لیکن اسپتال، راشن کی دکانیں، دودھ، سبزی، گوشت کی دکانوں سمیت، پیٹرول پمپ، واٹر ہائیڈرینٹس، ایمبولینس سروسز اپنا کام جاری رکھ سکیں گی۔
فائل فوٹو
شہریوں کی نقل و حرکت بھی کسی ضروری کام کی تحت جاری رہ سکتی ہے۔ جگہ جگہ پولیس کے ناکوں پر سے گزرنے والوں سے شناختی کارڈ مانگا جا رہا ہے اور دفتر جانے والوں سے ان کا آفس کارڈ بھی دیکھا جا رہا ہے۔
رپورٹنگ کے دوران ہم نے دیکھا کہ پولیس نے دو ایسی گاڑیوں کو روکا جس میں ڈرائیور کے علاوہ تین افراد سوار تھے، لیکن وہ اسپتال جا رہے تھے اور اس میں ایک عمر رسیدہ بیمار خاتون بھی تھیں۔ پولیس نے انہیں فوری جانے دیا جب کہ دوسری گاڑی میں بھی ڈرائیور کے ساتھ ایک عمر رسیدہ شخص کو اسپتال جانے کی اجازت مل گئی۔
میونسپل سروسز کے لوگوں کو جانے کی اجازت دی جا رہی تھی تاہم کچھ نوجوان جو اپنی آمد و رفت کی درست وجہ بتانے سے قاصر تھے انھیں واپس جانے کے لیے کہا گیا۔
پولیس وقتاً فوقتاً لاوڈ اسپیکر کے ذریعے یہ اعلانات بھی کرتی سنائی دی کہ لوگ بلا ضرورت گھروں سے باہر نہ نکلیں۔ شاید اسی سختی کے پیش نظر آج شہر کا منظر وہی تھا جو کئی برس پہلے ہڑتالوں میں دکھائی دیتا تھا۔ سڑکوں پر پبلک ٹرانسپورٹ بالکل نظر نہیں آئی۔ گلیاں، محلے سناٹے کا منظر پیش کر رہے تھے۔ مارکیٹس مکمل طور پر بند تھیں تاہم ان بند دکانوں کے باہر پرائیویٹ سیکیورٹی گارڈ ڈیوٹی دیتے دکھائی دئیے۔
فائل فوٹو
لاک ڈاون کے بارے میں لوگوں کی مختلف آراء بھی سامنے آ رہی ہیں، ضلع وسطی کی رہائشی سیما کے نزدیک یہ اقدام مؤثر ہے اور وقت کی ضرورت بھی۔ ایسے مشکل وقت میں حکومت کا ساتھ دینا سب شہریوں کی ذمہ داری بنتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ مکمل لاک ڈاون کے اعلان سے قبل ہی انھوں نے اپنے گھر میں مہینے بھر کا راشن رکھ لیا تھا۔ لیکن انھیں صرف یہ تشویش ہے کہ ان کی والدہ کی طبیعت اگر اس دوران خراب ہوئی تو انھیں اسپتال پہنچانے میں مشکل کا سامنا نہ ہو۔
مسز صائمہ اس ساری صورت حال سے پریشان ہیں۔ ان کے شوہر ملازمت کے سلسلے میں اسپین میں مقیم ہیں اور خیریت سے ہیں۔ صائمہ سمجھتی ہیں کہ لاک ڈاون صرف صوبے میں ہی نہیں، بلکہ ملک بھر میں ہونا چائیے کیونکہ پاکستان اس وبا کے سبب بڑے نقصان کو جھیلنے کا متحمل نہیں ہو سکتا۔
شہریار بزنس کرتے ہیں اور ان دنوں گھر پر اپنی فیملی کے ساتھ وقت گزار رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ لاک ڈاون کا فیصلہ بالکل درست ہے اور جو شہری اس کو سنجیدگی سے نہیں لے رہے انھیں دوسرے ممالک کا حال دیکھ کر سوچنا چائیے کہ اس وقت گھر میں بند رہنا ہی خود کو اس وبا سے محفوظ رکھنے کا واحد ذریعہ ہے۔ انھیں یقین ہے کہ اگر ان پندرہ روز میں سرکار کی جانب سے دیے گئے احکامات پر سختی سے عمل درآمد کر لیا گیا تو اس وبا پر قابو پانا قدرے آسان ہو سکے گا۔
کرونا وائرس کے خدشات اور ہینڈ سینیٹائزر کی تلاش
سدرہ ڈار، کراچی -- 18 مارچ، 2020
کرونا وائرس کے سب سے زیادہ کیسز اس وقت سندھ میں رپورٹ ہوئے ہیں جو ہر گزرتے دن کے ساتھ مزید بڑھ رہے ہیں۔ سندھ حکومت کرونا وائرس کا پھیلاؤ روکنے کے لیے کئی اہم اقدامات بھی کر رہی ہے۔
صوبائی حکومت نے شادی ہالز میں تقریبات، عوامی اجتماعات اور گلی محلوں میں ہونے والی مختلف تقریبات پر بھی پابندی لگا دی ہے جب کہ سرکاری دفاتر، شاپنگ مالز، سینما گھر، بازاروں اور تفریحی مقامات کو بھی بند کر دیا گیا ہے۔
ان تمام اقدامات کا مقصد شہریوں کو گھروں میں زیادہ سے زیادہ رکھنا اور سماجی رابطوں کو محدود کر کے اس وبا کو پھیلنے سے روکنا ہے۔
دوسری جانب عوام دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی راشن کی خریداری کا سلسلہ جاری ہے۔ شہریوں نے کسی بھی ممکنہ لاک ڈاؤن کے پیشِ نظر احتیاطی اقدامات کے تحت گھروں میں راشن ذخیرہ کرنا شروع کر دیا ہے۔
شہر کے بڑے مارٹ ہوں یا گلی محلوں کی عام دکانیں، اس وقت ہر جگہ خریداروں کا رش دکھائی دے رہا ہے۔
گھر میں ضرورت کی تمام چیزیں موجود ہوں اور راشن کی کمی نہ ہو، اس سوچ نے مجھے بھی بازار کا رخ کرنے پر مجبور کیا۔ اشیائے خور و نوش کے علاوہ مجھے سب سے زیادہ ضرورت ہینڈ سینیٹائزر کی تھی۔ لیکن تین بڑے سپر اسٹورز اور دو میڈیکل اسٹورز پر سینیٹائزر نہ ملا تو مجھے ایک اور مارٹ کا رخ کرنا پڑا۔
مارٹ میں داخل ہوتے ہی میں نے وہاں پہلی بار ضرورت سے زیادہ رش محسوس کیا۔ رش اس قدر زیادہ تھا کہ کرونا وائرس سے بچنے کی احتیاطی تدبیر یعنی لوگوں سے تین فٹ کا فاصلہ برقرار رکھنا تو ناممکن دکھائی دے رہا تھا۔
لوگ اپنی ٹرالیوں میں سامان بھر رہے تھے اور کوئی قیمت پر بھی بحث نہیں کر رہا تھا۔ یوں لگتا تھا کہ جیسے جنگ کی سی کوئی صورتِ حال ہو۔
آٹا، چاول، چینی، چائے کی پتی، دودھ، دالیں، گھی اور تیل سب سے زیادہ خریدے جا رہے تھے۔ جو کوکنگ آئل ہمارے گھر میں استعمال ہوتا ہے، وہ وہاں میسر نہیں تھا۔ لیکن اب سوچنے کا وقت بھی نہیں تھا۔ صرف دو سے تین کمپنیوں کے کوکنگ آئل موجود تھے، میرے پاس وہی لینے کے سوا کوئی چارہ نہ تھا۔
فائل فوٹو
چاول، دالیں، چائے کی پتی اور آٹا لینے کے بعد مجھے جو شیلفس خالی نظر آنے لگے ان میں ہینڈ واش اور سینٹائزر شامل تھے۔ کیش کاؤنٹر پر جب میری باری آئی تو میں نے سینیٹائزر کا پوچھا۔ مجھے جواب ملا کہ اگر آپ کو ضرورت ہے تو میں اندر سے کہہ کر منگوا دیتا ہوں۔ وہ بھی اس لیے کہ آپ ہماری ریگولر کسٹمر ہیں۔
مجھے کافی حیرت ہوئی کہ اگر یہ چیز موجود ہے تو اسے شیلف پر ہونا چاہیے نہ کہ اندر چھپا کر رکھا جائے۔ میرے دریافت کرنے پر مجھے بتایا گیا کہ شیلف پر رکھے سینیٹائزر کو ہر شخص نے ایسے اٹھایا ہے جیسے اس نے سال بھر کا اسٹاک ذخیرہ کرنا ہو۔ اس لیے اسے شیلفس سے ہٹا دیا گیا ہے تاکہ طلب کرنے پر ایک فیملی کو ایک بوتل دے دی جائے۔
بلنگ کے دوران کیش کاؤنٹر پر کھڑا نوجوان کہنے لگا کہ ایک وقت ایسا بھی تھا جب سینیٹائرز شیلف میں رکھے رکھے دھول جم جاتی تھی۔ ہمیں بھی یہ لگتا تھا کہ اگر اس کی ضرورت ہے ہی نہیں تو یہ کیوں رکھی ہے؟ آج یہ وقت ہے کہ اسی کی مانگ سب سے زیادہ ہے۔ لوگوں کو لگتا ہے کہ یہ چیز ہی وائرس سے بچا سکتی ہے۔
میرے لیے جب سینیٹائزر آیا تو اسے ایک شاپر میں لپیٹ کر میرے سامان میں چھپا کر رکھا گیا تاکہ آس پاس کھڑے لوگ تقاضا نہ کریں اور اس چھوٹی سی بوتل کو میں نے 220 روپے کے عوض وصول کیا۔
ایک میڈیکل اسٹور والے نے مجھے یہ بھی بتایا کہ اسپرٹ اور ڈیٹول کی مانگ میں بھی اضافہ ہو گیا ہے۔ کیوں کہ شہریوں نے ہینڈ سینیٹائزر کی عدم دستیابی کے سبب ان دونوں اشیا کو پانی میں ملا کر ہاتھ صاف کرنے کی ترکیب پر عمل شروع کر دیا ہے۔
لیکن دوسری جانب شہر میں دیہاڑی دار مزدور طبقہ بھی ہے جو مہینے بھر کا راشن گھر خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتا۔ وہ روز کما کر روز کا راشن خریدتے ہیں اور اپنا پیٹ بھرتے ہیں۔ ان کے لیے صابن، ڈیٹول، ماسک اور ہینڈ سینٹائزر کسی لگژری آئٹم سے کم نہیں ہیں۔
کرونا وائرس: 'سڈنی کی ہر گلی میں خوف کا ماحول ہے'
ارم عباسی، سڈنی -- 17 مارچ، 2020
ضبح کے تین بجے اچانک ہوٹل میں فائر الارم بجا۔ اعلان ہوا کہ سب اپنا کمرہ چھوڑ دیں کیوں کہ عمارت میں آگ لگ گئی ہے۔ ایسے حالات میں جب خوف و ہراس اپنے عروج پر ہے اور کرونا وائرس نے پوری دُنیا میں کہرام مچا رکھا ہے۔ وہاں عمارت میں آگ کے خدشے نے خوف میں مزید اضافہ کر دیا۔
ڈر کے مارے آلارم بجتے ہی فوراً انکھ کھولی اور باقی مسافروں کی طرح میں بھی لفٹ میں سوار ہو گئی۔ لفٹ میں پانچ لوگ موجود تھے۔ ماسک پہنے ایک خاتون نے جب چھینک ماری تو وہاں موجود لوگوں کے چہروں سے عیاں تھا کہ جیسے وہ آگ سے زیادہ اس چھینک سے پریشان ہو رہے ہیں۔
کچھ دیر لابی میں انتظار کے بعد بتایا گیا کہ حالات قابو میں ہیں فائر ورکرز نے عمارت کو محفوظ بنا دیا ہے۔ اور ہمیں اپنے کمروں میں واپس جانے کی اجازت دی گئی۔ اسی دوران ایک بھارتی جوڑے سے بات ہوئی جو چنائی سے سڈنی گھومنے آئے تھے۔
لابی میں بھی لگ بھگ 30 افراد جمع تھے اور واپس کمرے میں جانے کے انتظار میں آنکھیں مل رہے تھے۔ زیادہ تر ایشیائی باشندے لابی میں نظر آئے۔ بھارتی سیاح خاتون نے جملہ کسا کہ "اگر آگ سے بچ گئے تو اتنے قریب موجود ایشینز سے کیسے بچیں گے۔" میں تھوڑی شرمندہ ہوئی اور دعا کی کہ ان کو ہندی نہ سمجھ آتی ہو۔
فائل فوٹو
پریشانی اور خوف کا ماحول سڈنی کی ہر گلی میں ہے۔ کرونا وائرس کے پھیلاؤ کی وجہ سے اکا دکا لوگ ہی سٹرکوں پر نظر آتے ہیں۔ میرا ہوٹل سڈنی کے ایسے مقام پر ہے جہاں چین اور کوریا سے تعلق رکھنے والوں کی کثیر تعداد مقیم ہے۔ یہاں بیشتر ریستوران بھی ایشیائی باشندوں کے ہیں۔ زیادہ تر لوگوں نے ماسک پہن رکھے ہیں۔
آسٹریلیا میں کرونا وائرس کے پھیلاؤ کا مرکز اب سڈنی بن چکا ہے۔ اب تک ملک بھر میں کل 400 سے زیادہ کیسز سامنے آ چکے ہیں۔ جن میں 210 کیسز سڈنی میں ہیں۔
سڈنی میں منگل کو ایک دن میں 30 سے زیادہ کرونا وائرس کے کیسز سامنے آنے کے بعد خکومت نے متنبہ کیا ہے کہ اگر اختیاطی تدابیز استعمال نہ کی گئیں تو آنے والے ہفتوں میں وائرس بڑے پیمانے پر پھیل سکتا ہے۔
اپنے ہوٹل روم میں بند ہونے سے کچھ دن پہلے میں سڈنی میں واقع دنیا کی بہترین یونیورسٹیز میں سے ایک 'میکاری یونیورسٹی' میں گئی۔
کرونا وائرس کے پھیلاؤ کی وجہ سے متعدد اساتذہ نے بتایا کہ حاضری 40 فی صد کم ہے۔ اس یونیورسٹی میں دو ہزار عملہ جب کہ 40 ہزار کے قریب طلبہ زیرِ تعلیم ہیں۔
ہفتے کے آغاز یعنی پیر کو یونیورسٹی میں ایک طالب علم کرونا وائرس کا شکار ہو گیا۔ جس کے بعد سڈنی کی بیشتر یونیورسٹیز بند کر دی گئیں۔
اب ملک میں اسکولز بند کرنے پر بھی غور جاری ہے۔ آسٹریلیا کی سرکاری ایئر لائن کنٹاس نے بھی اپنے بیشتر جہاز گراؤنڈ کر دیے ہیں۔ جس سے مسافروں کو دُشواری کا سامنا ہے۔
سڈنی میں بھی لوگ ضرورت سے زیادہ خریداری کر رہے ہیں۔ (فائل فوٹو)
کرونا وائرس کے پھیلاؤ کے منفی اثرات میں ضرورت سے زیادہ خریداری بھی شامل ہے۔ امریکہ اور دیگر ملکوں کی طرح سڈنی میں بیشتر سپر اسٹورز کے متعدد شیلوز خالی ہیں۔ لوگ گبھرا کر زیادہ خریداری کر رہے ہیں۔ جس کا زیادہ نقصان معذور افراد کو ہو رہا ہے۔
ہفتے کے اوائل سے متعدد سپر اسٹورز نے بزرگوں اور معذور افراد کے لیے خریداری کے علیحدہ اوقات مقرر کیے ہیں تاکہ وہ ضروریات زندگی سے محروم نہ ہوں۔
آسٹریلیا کے کوئنزلینڈ اسپتال میں داخل اداکار ٹام ہینکس اور اُن کی اہلیہ کو صحت یابی کے بعد گھر بھیج دیا گیا ہے۔ وہ گزشتہ ہفتے کرونا وائرس کا شکار ہوئے تھے جس کے بعد انہیں اسپتال داخل کرایا گیا۔
ٹام ہینکس اور اُن کی اہلیہ ریٹا ولسن ایک فلم کی شوٹنگ کے سلسلے میں آسٹریلیا کے دورے پر تھے جہاں اُن کے کرونا وائرس کے ٹیسٹ مثبت آئے ہیں۔
میرا سڈنی، میری مرضی
ارم عباسی، سڈنی -- 13 مارچ، 2020
میری سڈنی سے واپسی تو گزشتہ ہفتے تھی لیکن کرونا وائرس کے باعث اس شہر سے نکلنے میں ابھی کچھ وقت ہے۔ سڈنی میں قیام کے دوران میں نے یہاں رہنے والے پاکستانیوں کے ساتھ وقت گزارنے کی کوشش کی۔ شہر اور شہریوں کے بارے میں ایک ٹیکسی ڈرائیور سے زیادہ کون جان سکتا ہے؟ لہٰذا میں نے بھی ٹیکسی ڈرائیورز سے ہی رابطہ کیا۔
لاہور سے تعلق رکھنے والے ایک صاحب کو آسٹریلیا آئے ہوئے لگ بھگ ایک دہائی ہو چکی ہے۔ وہ اور ان کے لاہوری وکیل ساتھی کو جب معلوم ہوا کہ ایک پاکستانی صحافی اس شہر میں پھنس گئی ہے تو وہ میزبانی میں پیش پیش رہے۔
دونوں دوست تعلیم یافتہ ہیں اور سڈنی میں ابتدائی جدوجہد کے بعد اب کچھ اطمینان بخش زندگی گزار رہے ہیں۔ دونوں اب آسٹریلوی شہری ہیں۔ وہ اپنے نام ظاہر نہیں کرنا چاہتے لیکن انہیں اپنے خیالات پر فخر ہے۔
باتوں کے دوران وہ پوچھنے لگے کہ "خلیل الرحمان قمر کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟" پھر وکیل صاحب خود ہی بولے "دیکھیں عورت کو گالی بالکل نہیں دینی چاہیے۔ لیکن ماروی سرمد بھی تو حد سے بڑھ رہی ہیں ناں۔"
میں نے بے ساختہ پوچھا کہ ماروی نے کیا کیا ہے؟ وہ خواتین کے حقوق ہی تو مانگ رہی ہیں۔
فائل فوٹو
وکیل صاحب بولے۔ "ہم بھی نہیں چاہتے کہ غیرت کے نام پر عورتوں کا قتل ہو یا ان کے ساتھ زیادتی ہو۔ لیکن میرا جسم میری مرضی کا کیا مطلب ہے؟ کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ بس جہاں دل چاہے وہاں مرضی چلا لو۔ میں آج کپڑے نہیں پہنتی، میری مرضی۔ اب ہم اپنی بہنوں، بیٹیوں اور ماؤں کو تو اس راہ پر نہیں چلا سکتے کہ وہ میرا جسم میری مرضی کرتی پھریں۔ انہیں ضرورت نہیں کہ وہ اس طرح کی مہم کا حصہ بنیں۔ وہ ہماری عزت ہیں اور میرا جسم میری مرضی کو بے حیائی سمجھتی ہیں۔"
پاکستانی ڈرائیور بھائی نے بھی ان کا ساتھ دیا اور کہنے لگے کہ عورت کی ایک حد ہوتی ہے۔ اگر وہ اسے پار کرے گی تو مرد کو غصہ تو آئے گا۔
میں نے پوچھا کہ عورت کی حد کیا ہے؟ انہوں نے جواب دیا "وہ حد سے باہر نہ ہوں۔ کیا وہ مردوں کے ساتھ زیادتی نہیں کرتیں؟ انہیں مردوں کو غصہ نہیں دلانا چاہیے۔"
وکیل بھائی بولے "اگر ایک بازو پر پھوڑا ہو اور آپ اس طرح پیش کریں کہ جیسے پورا جسم ہی بیمار ہے تو یہ غلط ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ یہ عورتیں کسی مغربی ایجنڈے پر چل رہی ہیں یا پھر خود ان کے ساتھ کچھ غلط ہوا ہے۔ اسی لیے اس طرح کی باتیں کر رہی ہیں۔"
میں نے پوچھا کہ کیا زیادتی پر برہمی غلط ہے؟ کیا خواتین دوسری خواتین یا اپنے ساتھ ہونے والی زیادتی کے بارے میں بات نہیں کر سکتیں؟
جواب آیا، "ہاں کریں۔ لیکن ہماری بہنوں کو بیچ میں کیوں لاتی ہیں؟"
عورت مارچ کی بیشتر شرکا کا ماننا ہے کہ یہی رویے معاشرے میں عورت کے خلاف امتیازی سلوک کو جنم دیتے ہیں۔
میرے ہوٹل کے راستے میں ایک قبرستان آیا۔ ڈرائیور صاحب وہاں سن 2010 سے 2015 تک گارڈ کی نوکری کرتے رہے تھے۔ میں کچھ دیر کے لیے وہاں رکی۔
ڈھلتے ہوئے سورج کی روشنی میں یہ قبرستان موت اور زندگی کا حسین امتزاج لگ رہا تھا۔ سڈنی کی برونٹی بیچ اور کلوولی بیچ کے درمیان واقع یہ قبرستان 40 ایکڑ پر پھیلا ہے۔ اس میں مشہور آسٹریلوی شاعر ہیری لاسن اور ہنری کینڈل سمیت کچھ سیاست دان اور کھلاڑیوں کی بھی آخری آرام گاہیں ہیں۔
ڈرائیور صاحب نے ایک قبر دکھائی جس میں ریاست کے لیے جلاد کی ذمے داری ادا کرنے والے ایک شخص دفن ہیں۔ ان کی بغل میں ہی وہ قاتل دفن ہیں جنہیں اس جلاد ہی نے یہاں پہنچایا تھا۔
اس شہر خموشاں کے ایک جانب جیتی جاگتی آبادی ہے جس کے کچھ لوگ شام کو یہاں ورزش کرنے آتے ہیں۔ سیاح بھی یہاں کا رخ کرتے ہیں۔ ڈرائیور صاحب کو یقین ہے کہ یہاں دفن لوگ رات گئے ایک دوسرے سے باتیں کرتے ہیں۔
کچھ وقت گزارنے کے بعد میں نے دونوں پاکستانی صاحبان سے اجازت لی۔ اگلی کہانی آپ کو سناؤں گی سڈنی میں واقع اس ساحل کی جو اپنی خوبصورتی کے لیے مشہور ہے۔ لیکن ہر سال وہاں 40، 50 افراد چٹان کی بلندی سے چھلانگ لگا کر اپنی جان دے دیتے ہیں۔ اسے خودکشی کرنے والوں کے ساحل کے نام سے جانا جاتا ہے۔