رسائی کے لنکس

عمران خان کا 23 دسمبر کو پنجاب اور خیبرپختونخوا اسمبلی تحلیل کرنے کا اعلان


پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان نے 23 دسمبر کو پنجاب اور خیبرپختونخوا اسمبلی تحلیل کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔

سابق وزیرِ اعظم کا کہنا تھا کہ ملک کی خاطر اُنہوں نے دونوں حکومتیں قربان کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ قومی اسمبلی کے 123 اراکین بھی اسپیکر کے سامنے پیش ہو کر استعفے منظور کرنے کا کہیں گے۔

ہفتے کو لاہور میں اپنی رہائش گاہ سے ویڈیو لنک کے ذریعے لبرٹی چوک سمیت ملک کے مختلف شہروں میں خطاب کرتے ہوئے عمران خان کا کہنا تھا کہ ان اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد 66 فی صد پاکستان الیکشن کے لیے تیار ہو گا۔ لہذٰا عقل تو یہ کہتی ہے کہ ملک میں عام انتخابات کرا دیں۔

عمران خان کے اس اہم اعلان کے وقت پنجاب کے وزیرِ اعلٰی چوہدری پرویز الہٰی اور خیبرپختونخوا کے وزیرِ اعلٰی محمود خان بھی اُن کے ہمراہ تھے۔

'یہ اکتوبر میں بھی الیکشن نہیں کرائیں گے'

عمران خان کا کہنا تھا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ یہ اکتوبر میں بھی الیکشن نہیں کرائیں گے۔ کیوں کہ موجودہ الیکشن کمشنر اس حکومت کے ساتھ ملے ہوئے ہیں اور وہی ان کو الیکشن میں تاخیر کے طریقے بتائیں گے۔

خیال رہے کہ چیف الیکشن کمشنر عمران خان کے ان الزامات کی تردید کرتے رہے ہیں۔

سابق وزیرِ اعظم کا کہنا تھا کہ آج 70 فی صد پاکستانی چاہتے ہیں کہ فوری الیکشن ہوں۔ مجھے کہا جا رہا تھا کہ اسمبلیاں توڑ دیں تو آپ کو جو تحفظ حاصل ہے وہ ختم ہو جائے گا۔

عمران خان کا مزید کہنا تھا کہ اُنہیں ایک برس قبل ہی پتا چل گیا تھا کہ شہباز شریف کو 16 ارب کے کرپشن کیسز کے باوجود لانے کی کوشش ہو رہی ہے۔ افسوس اس بات کا ہے کہ جب بھی جنرل باجوہ سے پوچھتا تھا تو وہ کہتے تھے کہ ہم تسلسل چاہتے ہیں اور ہمارا ایسا کوئی منصوبہ نہیں ہے۔

عمران خان کے بقول آج ملک کا یہ حال ہے کہ باہر کی دنیا اس حکومت پر اعتماد کے لیے تیار نہیں ہے۔ میرا سوال یہ ہے کہ جب باہر سے ڈالر ہی نہیں آ رہے تو پاکستان کیسے آگے چلے گا؟

اُن کا کہنا تھا کہ اس حکومت نے ایک ہی اُمید لگائی ہوئی ہے کہ چین کے پاؤں پکڑ لیں یا آئی ایم ایف سےپیسے مل جائیں۔ سابق وزیرِ اعظم کا کہنا تھا کہ ہماری کوشش تھی کہ ہم ملکی دولت میں اضافہ کریں اور ملکی معیشت کو اُٹھائیں۔

سابق وزیرِ اعظم نے کہا کہ اگر یہ حکومت معیشت کو بہتر کر لیتی تو وہ فوری انتخابات کا مطالبہ نہ کرتے، لیکن اب صورتِ حال یہ ہے کہ ملک ڈیفالٹ کی طرف جا رہا ہے۔ یہ صرف اسی لیے الیکشن میں تاخیر چاہتے ہیں کیوں کہ یہ انتخابات سے خوف زدہ ہیں۔

عمران خان کی ایک بار پھر جنرل (ر) باجوہ پر تنقید

عمران خان نے ایک بار پھر سابق آرمی چیف جنرل (ر) قمر جاوید باجوہ کو موجودہ صورتِ حال کا ذمے دار قرار دیتے ہوئے کہا کہ جب تک وہ آرمی چیف تھے، ہم چپ کر کے اُن کی سازشیں دیکھتے رہے۔

اُن کے بقول ہماری حکومت کے خلاف جو بھی سازشیں ہوئیں اور ہمیں ہٹانے کا جو فیصلہ تھا وہ جنرل (ر) باجوہ نے کیا۔

سابق وزیرِ اعظم نے سوال اُٹھایا کہ کیا وجہ تھی کہ ہماری حکومت کو گرایا گیا؟ کیوں شہباز شریف اور اسحاق ڈار پر اعتماد کیا گیا؟

عمران خان بنے کہا کہ جنرل (ر) باجوہ نے جو ظلم ہمارے لوگوں پر کرایا اتنا ظلم جنرل (ر) پرویز مشرف کے دور میں بھی نہیں ہوا تھا۔ بجائے اس کے جنرل (ر) باجوہ اپنی غلطی سدھارتے، ہمارے لوگوں پر مزید ظلم کیا گیا۔ اعظم سواتی پر تشدد کرایا گیا۔ جو یو ٹیوبرز ہمارے حق میں بول رہے تھے، ان پر تشدد کرایا گیا۔

سابق وزیرِ اعظم نے کہا کہ"میں نے جب جنرل باجوہ سے کہا کہ نیب آپ کے کنٹرول میں ہے تو کیوں ان کے کیسز ختم ہو رہے ہیں تو مجھے کہتے رہے کہ سر ہو رہا ہے۔ سر سب ٹھیک ہو رہا ہے۔ پھر مجھے کہا کہ یہ بھول جائیں اور ملک کی معیشت ٹھیک کریں۔"

خیال رہے کہ عمران خان کے الزامات پر جنرل باجوہ نے اس وقت بطور آرمی چیف اپنے خطاب میں فوج کی سیاست میں مداخلت کی تردید کرتے ہوئے کہا تھا کہ رواں برس فروری میں فوج نے سیاست میں مداخلت نہ کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔

جنرل باجوہ نے فوج اور اُن پر لگائے جانے والے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ کسی کو بھی فوج کو کمزور کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔

'حیرت ہے کہ جمعے تک کا انتظار کیوں کیا جا رہا ہے'

عمران خان کے اعلان پر ردِعمل دیتے ہوئے وفاقی وزیرِ داخلہ رانا ثناء اللہ نے کہا کہ اُنہیں حیرت ہے کہ جمعے تک کا انتظار کیوں کیا جا رہا ہے۔ اگر فیصلہ کر لیا ہے تو اسمبلیاں فوری تحلیل کریں۔

'جیو' نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ یہ بہانہ تلاش کر رہے ہیں کہ عدم اعتماد آ جائے اور معاملہ مزید کچھ روز مؤخر ہو جائے۔

رانا ثناء اللہ کا کہنا تھا کہ مسلم لیگ (ن) میں دو آرا ہیں کہ اگر اسمبلیاں تحلیل ہو جاتی ہیں تو الیکشن میں جانا چاہیے۔ ایک رائے یہ ہے کہ تحریکِ عدم اعتماد لا کر معاملے کو التوا میں ڈالا جائے۔

وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ اگر آئین کے تحت 90 دن کے اندر پنجاب اور خیبرپختونخوا میں الیکشن ہوتے ہیں تو پھر ہمیں الیکشن کی طرف جانا چاہیے۔

XS
SM
MD
LG