اسلام آباد ہائی کورٹ نے تحریکِ انصاف کے چیئرمین اور سابق وزیرِ اعظم عمران خان کی سات مقدمات میں ضمانت منظور کر لی ہے۔
عدالت نے عمران خان کو چھ اپریل تک عبوری ضمانت دی ہے۔
سابق وزیرِ اعظم کے خلاف اسلام آباد کے جوڈیشل کمپلیکس میں ہنگامہ آرائی اور توڑ پھوڑ سے متعلق مختلف مقدمات تھانہ رمنا اور گولڑہ میں درج ہیں۔
عمران خان کے خلاف یہ تمام مقدمات گزشتہ ہفتے جوڈیشل کمپلیکس آمد کے موقع پر ہونے والی ہنگامہ آرائی کے بعد درج کیے گئے تھے۔
قبل ازیں جب اسلام آباد ہائی کورٹ میں سماعت شروع ہوئی تو عمران خان کے وکیل بیرسٹر سلمان صفدر عدالت کے سامنے پیش ہوئے۔
عمران خان کے وکیل سے بیرسٹر سلمان صفدر سے اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عمر فاروق نے کہا کہ آپ کی درخواستوں پر رجسٹرار آفس کے اعتراضات ہیں۔ بائیومیٹرک تو اب بہت آسان کام ہو گیا ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے استفسار کیا کہ یہ درخواست لے کر آپ انسداد دہشت گردی کی عدالت (اے ٹی سی) کیوں نہیں گئے؟
جس پر بیرسٹر سلمان صفدر نے کہا کہ اے ٹی سی میں درخواست 18مارچ کو ہی دائر کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔ 45 منٹ گیٹ پر کھڑے رہے۔ داخل ہی نہیں ہونے دیا گیا جب کہ اسی دوران مزید دو مقدمات بنا دیے گئے۔ اے ٹی سی جانے کی کوشش میں انصاف تک رسائی ہی نہیں ملی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ آپ انسداد دہشت گردی عدالت کو بائی پاس کیوں کر رہے ہیں؟ آپ کو جانا تو پھر وہاں ہی ہوتا ہے۔ سپریم کورٹ کے فیصلے موجود ہیں۔ معذرت کے ساتھ آپ جمپ کر کے آگے جا رہے ہیں۔
عمران خان کے وکیل کا کہنا تھا کہ اے ٹی سی میں امن و امان کی صورتِ حال بن گئی تھی۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ یہ صورتِ حال آپ کو خود ہی برقرار رکھنا ہوتی ہے۔ ہم سمجھ سکتے ہیں عمران خان ایک بڑی جماعت کے لیڈر ہیں۔ صورتِ حال مگر خود ہی سنبھالنا ہوتی ہے۔
عمران خان کے وکیل بیرسٹر سلمان صفدر نے بتایا کہ پیشی پر ہم کسی کو نہیں بلاتے لوگ خود جمع ہو جاتے ہیں۔
چیف جسٹس عمر فاروق نے کہا کہ ایسا ہی ہوگا مگر کیا صرف اس وجہ پر بائی پاس کیا جا سکتا ہے؟
اس موقع پر عمران خان نے بھی کچھ بات کرنا چاہی اور اپنی نشست سے کھڑے ہو گئے تو چیف جسٹس نے بیرسٹر سلمان صفدر سے کہا کہ اپنے موکل سے بولیں کہ سیٹ پر بیٹھ جائیں۔
عمران خان نے استدعا کی کہ میں کچھ وضاحت کرنا چاہتا ہوں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ آپ بہت قابل عزت ہیں۔ سیٹ پر بیٹھ جائیں۔
بعد ازاں عدالت نے ایڈووکیٹ جنرل کو روسٹرم پر بلا لیا اور ان سے کہا کہ یہ آپ لوگوں کی انتظامی خامیوں کے باعث ہو رہا ہے۔ عمران خان کو سیکیورٹی تھریٹس حقیقی ہیں۔ ان پر حملہ بھی ہو چکا ہوا ہے۔ وہاں سیکیورٹی مسائل ہوتے ہیں اس لیے یہاں آنا پڑ رہا ہے۔
چیف جسٹس نے ایڈووکیٹ جنرل سے کہا کہ سیکیورٹی ریاست نے دینی ہے اور بیانات کیسے دے رہے ہیں؟ کیا ایسے بیانات کسی شہری سے متعلق بھی دیئے جا سکتے ہیں؟ آپ کے ان سے اختلافات ہوں گے مگر سیکیورٹی آپ نے ہی دینی ہے۔
اس پر ایڈووکیٹ جنرل نے کہا کہ عمران خان اپنے ساتھ ہزاروں لوگ لے کر عدالت آ جاتے ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ آپ جب انہیں سیکیورٹی نہیں دیتے تو وہ اپنی سیکیورٹی لاتے ہیں۔
ایڈووکیٹ جنرل نے کہا کہ عمران خان وہاں انتظامیہ سے تعاون نہیں کرتے۔
چیف جسٹس عمر فاروق نے کہا کہ آپ اُن سے تعاون کریں تو وہ کیوں نہیں کریں گے؟ ہر شخص کو اپنی جان عزیز ہوتی ہے۔
عمران خان کے وکیل بیرسٹر سلمان صفدر نے کہا کہ جو سیکیورٹی یہاں ہائی کورٹ میں ممکن ہے وہ اے ٹی سی میں نہیں ہے۔ ملک کے دو وزرائے اعظم مارے جا چکے ہیں۔ تیسرے کو تجربات میں نہیں مروا سکتے۔
بیرسٹر سلمان صفدر نے کہا کہ اے ٹی سی بھیجنے کے بجائے ضمانت کیس یہیں سنا جائے۔
بینچ میں شامل جسٹس میاں گل حسن نے کہا کہ ٹرائل تو اے ٹی سی میں چلنا ہے۔ فرد جرم بھی وہیں ہونی ہے۔ آپ جوڈیشل کمپلیکس جائیں۔ اگلی بار صورتِ حال مختلف ہوگی۔ عدالت حکومت کو پابند کے گی کہ عمران خان کو مکمل سکیورٹی دی جائے۔
بینچ نے ریمارکس دیے کہ عمران خان بطور سابق وزیرِ اعظم یوں بھی سیکیورٹی کے اہل ہیں۔
عمران خان کے وکیل کا کہنا تھا کہ عمران خان کو سابق وزیرِ اعظم کی سیکیورٹی نہیں دی جا رہی۔
اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اگر وہ سیکیورٹی نہیں مل رہی تو الگ سے فورم پر جائیں۔
بعد ازاں اسلام آباد ہائی کورٹ نے عمران خان کو سات مختلف مقدمات میں چھ اپریل تک عبوری ضمانت دے دی۔
اس سے قبل عمران خان مختلف مقدمات میں عبوری ضمانت کے لیے سینئر وکلا نعیم پنجوتھا اور سلمان صفدر کے ہمراہ اسلام آباد ہائی کورٹ پہنچ گئے ہیں۔
عمران خان کی عدالت آمد کے موقع پر اسلام آباد پولیس نے سیکیورٹی کے سخت انتظامات کیے تھے۔ سینکڑوں اہلکار ہائی کورٹ کے اندرونی و بیرونی احاطے میں تعینات ہیں جب کہ عدالت آنے والے راستوں کو کنٹینرز لگا کر بند کیا گیا تھا۔
عمران خان کی پیشی کے موقع پر ان کے ہمراہ آنے والے کارکنوں کو پولیس نے ساتھ جانے کی اجازت نہیں دی جب کہ چند کارکنوں کو حراست میں بھی لے لیا گیا۔
سابق وزیرِ اعظم کے خلاف ایک مقدمہ کاؤنٹر ٹیررازم ڈپارٹمنٹ نے بھی درج کر رکھا ہے۔
عمران خان کے خلاف یہ تمام مقدمات گزشتہ ہفتے جوڈیشل کمپلیکس آمد کے موقع پر ہونے والی ہنگامہ آرائی کے بعد درج کیے گئے تھے۔
سابق وزیرِ اعظم قافلے کی صورت میں زمان پارک سے اسلام آباد کی جانب روانہ ہوئے تھے۔ قافلے میں تحریکِ انصاف کے کارکنوں سمیت پارٹی کے بعض مرکزی رہنما بھی ہمراہ تھے۔
اسلام آباد میں ایک روز کے لیے سیاسی اجتماع کی کوریج پر پابندی
پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگیولیٹری اتھارٹی (پیمرا) نے عمران خان کی پیشی سے قبل اسلام آباد میں ایک روز کے لیے سیاسی ریلی یا اجتماع کی کوریج پر پابندی عائد کر دی تھی۔
پیمرا نے پیر کو جاری کردہ نوٹس میں کہا ہے کہ امن و امان کی صورتِ حال پیشِ نظر اسلام آباد میں احتجاجی ریلی یا عوامی اجتماع کی لائیو یا ریکارڈڈ کوریج نہیں کی جا سکتی۔
اس سے قبل اسلام آباد پولیس نے اتوار کو ایک ٹوئٹ میں کہا تھا کہ عمران خان کی پیشی کے سلسلے میں آئی جی کی سربراہی میں ہونے والے اجلاس کے دوران فیصلہ کیا گیا ہ تھا کہ سیکیورٹی انتظامات کی فیلڈ نگرانی ایس ایس پی یاسر آفریدی کریں گے۔
پولیس کا کہنا تھا کہ عدالتی احکامات کی روشنی میں صرف متعلقہ افراد کو عدالتی احاطے میں داخلے کی اجازت ہو گی۔
پولیس کے بیان کے مطابق اسلام آباد میں دفعہ 144 نافذ العمل ہے اور خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف گرفتاریاں عمل میں لائی جائیں گی۔