پاکستان تحریک انصاف کے آفیشل ٹویٹر اکاؤنٹ سےبدھ کے روز سابق وزیراعظم اور پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے پہلی بار ٹوئیٹراسپیس استعمال کرتے ہوئے پی ٹی آئی کے حامیوں اور کارکنوں کے سوالوں کے جواب دیے۔
اس ٹویٹر اسپیس کے ماڈیریٹرز ڈاکٹر ارسلان خالد اور جبران آصف تھے۔ جبران آصف بنی گالہ میں عمران خان کے ساتھ ہی موجود تھے۔
ٹویٹر اسپیس کے پہلے ہی پانچ منٹ میں 70٫000 ٹوئٹر صارفین اس اسپیس میں موجود تھے جبکہ گیارہویں منٹ سے کچھ قبل جب عمران خان نے گفتگو شروع کی، ایک لاکھ سے زائد افراد اسپیس میں شریک ہو چکے تھے۔
گفتگو کے اختتام تک 160,000 افراد اس اسپیس میں موجود تھے جن میں بڑی تعداد میں پاکستانی صحافی بھی شامل تھے۔
کئی سوالات جبران آصف نے شرکاء کی جانب سے پوچھے جبکہ بعض سپورٹرز کو براہ راست سوالات پوچھنے کا موقع بھی دیا گیا تاہم کسی صحافی کا سوال نہیں لیا گیا۔
ٹوئیٹراسپیس میں عمران خان کی گفتگو سے ایسا تاثر مل رہا تھا کہ وہ اداروں کے ساتھ گزشتہ تین ہفتوں سے جاری تصادم کی صورتحال کو ختم کرنا چاہتے ہیں۔ آئندہ انتخابات میں الیکشن کمیشن کی جانب سے کسی ممکنہ دھاندلی کو روکنے کے لیے حکمت عملی کے سوال پر انہوں نے کہا کہ اداروں کے اندر بھی انسان ہیں اور ایک آدھ اگر غلطی کرے تو یہ پورے ادارے کا قصور نہیں۔ اس کے بعد الیکشن کمیشن کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن مکمل پی ٹی آئی مخالف ہے۔
اگلا سوال جب عدلیہ پر طنز کرتے ہوئے کیا گیا تب ایک بار پھر عمران خان نے عدلیہ سے پہلے فوج کے متعلق بات کی اور پارٹی سپورٹرز سے کہا کہ فوج کے ادارے کے خلاف کبھی بات نہ کریں۔ فوج نہ ہو تو یہ ملک نہیں رہے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ عمران خان سے زیادہ اس ملک کو فوج کی ضرورت ہے۔ ان کے مطابق آصف علی زرداری اور نواز شریف دونوں نے فوج کی بدنامی کی کوشش کی، ڈان لیکس اور میمو گیٹ اس کی مثال ہیں۔
یاد رہے پاکستان میں پی ٹی آئی حکومت کے خاتمے کے بعد کئی روز تک فوج مخالف ٹرینڈز سوشل میڈیا پر گردش کرتے رہے تھے جبکہ پی ٹی آئی جلسوں میں بھی حساس اداروں پر اشارے کرتے پلے کارڈز نظر آئے تھے۔
عمران خان کا عدلیہ کے کردار پر جواب دیتے ہوئے کہنا تھا کہ وہ عدلیہ کو بھی آزاد دیکھنا چاہتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ زندگی میں ایک ہی بار جیل گئے ہیں اور وہ عدلیہ کی آزادی کے لیے تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ وہ چاہتے ہیں کہ طاقتور انصاف سے بالا تر نہ ہو۔ انہوں نے کہا کہ چھوٹا چور ملک کو نقصان نہیں پہنچاتا جبکہ بڑے چورکو چوری چھپانے کے لیے پیسہ ملک سے باہر بھیجنا پڑتا ہے، اس وجہ سے ملک میں ڈالر ذخائر کم ہوتے ہیں، روپے کی قدر گرتی ہے اور ملک میں مہنگائی بڑھتی ہے۔
اس سوال پر کہ اگلے الیکشنز کے لیےان کا کیا لائحہ عمل ہے؟ اگر نا اہل قرار دے دیا گیا تو پلان بی کیا ہوگا؟ عمران خان کا کہنا تھا فارن فنڈنگ کیس میں کوئی وزن نہیں اس بنیاد پر پارٹی کو ڈسکوالیفائی نہیں کیا جاسکتا۔ ان کا کہنا تھا کہ دوسروں کی فنڈنگ دیکھ نہیں رہے پاکستان تحریک انصاف کے پیچھے پڑے ہیں ۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ وہ خوفزدہ نہیں ہیں کیونکہ فنڈ ریزنگ درست طریقے سے کی گئی ہے۔ تحریک انصاف کو پیسہ پاکستانی سپورٹرز نے بھیجا ہے۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ جب بھی تین بڑی پارٹیز کی فنڈریزنگ کی آڈٹ ہوئی پاکستان تحریک انصاف کا ہی ریکارڈ درست نکلے گا۔
انہوں نے مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلز پارٹی کے سربراہان کو کرونی کیپیٹلسٹ قرار دیتے ہوئے الزام عائد کیا کہ یہ فنڈز ان سے مانگتے ہیں جن کو اپنے دور حکومت میں نوازتے ہیں اس لیے سب کی فنڈرریزنگ کے ریکارڈز دیکھے جائیں۔
کیا ایک بار پھر الیکٹبلز کے ساتھ عام انتخابات میں جائیں گے؟ اس سوال پر عمران خان کا کہنا تھا کہ کئی بڑے الیکٹبلز پارٹی کے ساتھ کھڑے رہے جبکہ کئی نے مفادات کے لیے غداری کی۔ انہوں نے کہا کہ کئی افراد ان کےساتھ صرف اس سوچ کے ساتھ آئے تھے کہ حکومت میں شامل ہو کر انہیں فائدہ ہوگا۔ ان کا کہنا تھا کہ " میں نے فیصلہ کیا ہے کہ اس بار ہر ٹکٹ کی خود جانچ کروں گا۔ یہ نظریے کی بنیاد پر ہوگا اس بار یہ غلطی نہیں ہوگی"۔
اس ٹوئیٹر اسپیس میں جہانگیر ترین کے صاحبزادے علی خان ترین بھی سامعین میں موجود تھے۔
اس سوال کے جواب میں کہ کیا تحریک انصاف کو معاشی ناکامی کی بنیاد پر ہٹایا گیا، سابق وزیر اعظم نے دعویٰ کیا کہ پی ٹی آئی نے اقتدار چھوڑا توملک میں ریکارڈ برآمدات، ریکارڈ ترسیلات، ریکارڈ ریوینیو، ٹیکس کلیکشن اور پانچ فصلوں کی ریکارڈ پیداوارتھی، ملکی صنعتیں دوبارہ شروع ہو چکی تھیں اور پورے برصغیر میں سب سے کم بےروزگاری پاکستان میں تھی۔ اسی لیے عوام نے اس الزام کو قبول نہیں کیا اور سڑکوں پر نکل آئی۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ پہلی بار پاکستان میں پوری قوم کے سامنے آیا کہ باہر ایک سازش ہوئی اوروہ سازش کبھی کامیاب نہ ہوتی اگر ملک کے اندر میر جعفرجیسے غدار نہ بیٹھے ہوتے۔ انہوں نے کہا عوام یہ جان چکے تھے کہ جن افراد پر پر کیسز ہیں، جن کی وجہ سے ملک مقروض ہے انہی کرپٹ ترین لوگوں کو ملک پرپھر مسلط کر دیا گیا۔
یاد رہے کہ امریکی حکام بار ہااس الزام کو رد کر چکے ہیں کہ عمران خان کی حکومت کو گرانے کے لیے امریکہ نے سازش کی یا دھمکی دی۔ جبکہ ڈی جی آئی ایس پی آر بھی گزشتہ ہفتے پریس کانفرنس میں کہہ چکے ہیں کہ سفارتی مراسلے سے متعلق نیشنل سیکیورٹی کمیٹی کے اعلامیے میں بھی کسی غیر ملکی سازش کا ذکر نہیں ہے۔
انتخابی حکمت عملی پر عمران خان کا کہنا تھا کہ انہیں اب انتخابات کی سائنس سمجھ آگئی ہے اور اب وہ انہی بنیادوں پر اسے لڑیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس بار حکومت میں بھی مکمل تیاری کے ساتھ آئیں گے کیونکہ پچھلی بار یہ اندازہ ہی نہیں تھا کہ بحران کتنا سنگین ہے۔
سندھ سے تعلق رکھنے والی ایک اوورسیز پاکستانی خاتون کے سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ اندرون سندھ شہریوں پر زرداری مافیا کا خوف ہے اور اب پی ٹی آئی اپنی مہم وہاں بھی بھرپور طریقے سے چلائے گی۔
اس سوال پر کہ ایسے وقت میں جب %95 سے ٪99 فیصد میڈیا عمران خان کے خلاف ہے انتخابی مہم کیسے چلائیں گے؟
ان کا کہنا تھا ان کے ساڑھے تین سالہ دور حکومت میں سنتے رہے کہ وہ میڈیا پر ظلم کرتے تھے۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ 'آج آپ اٹھا کر دیکھ لیں کہ ہمارے دور سے زیادہ میڈیا کو کبھی آزادی نہیں ملی'۔تاہم انہوں نے اس کی وضاحت نہیں کی۔
ان کا کہنا تھا کہ تحریک انصاف کی حکومت میں انہی کے خلاف کیمپینز چلائی گئیں۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ اس وقت بھی تمام میڈیا پی ٹی آئی کو بلیک آؤٹ کر رہا ہے۔ انہوں نے الزام لگایا کہ ان کے مخالفین میڈیا مالکان کو مالی فوائد دے کر انہیں اپنے ساتھ ملا لیتے ہیں اور جرنسلٹس کو بھی ڈائریکٹ فنڈ کرتے ہیں۔
یہاں یاد دلاتے چلیں کہ رپورٹرز ود آؤٹ باڈرز کی درجہ بندی میں پاکستان 180ممالک میں سے 145ویں نمبر پر ہے۔ عمران خان کے ابتدائی برسوں میں اپوزیشن جماعتوں کی شکایت تھی کہ ان کو میڈیا میں بلیک آؤٹ کیا جا رہا ہے ۔
ٹوئٹر سپیس میں سابق وزیر اعظم کا کہنا تھا کے انہیں حکومت سے ہٹانے کے بعد جتنے لوگ باہر نکلے وہ اس کے ٪5 فیصد کی ہی توقع کرہے تھے۔ ان کے مطابق وہ ہار جیت کی حرکیات سمجھتے ہیں اور انہوں نے ہمیشہ یہی دیکھا تھا کہ لوگوں کے جانے پر مٹھائیاں بانٹی جاتی ہیں مگر اس بار اس کے الٹ ہوا۔
ان کا کہنا تھا کہ اپنے ہٹائے جانے کے بعد کے مناظر میں انہوں نے عوام کو قوم بنتے دیکھا ہے جو کہ ان کی چھبیس سالہ سیاسی جدوجہد ہی نہیں پاکستان کی پچھتر سالہ تاریخ میں پہلی بار ہوا ہے۔
ان کا کہنا تھا جس طرح مینار پاکستان پر جمع ہو کر مسلمانوں نے اپنی آزادی مانگی تھی جمعرات کے روز مینار پاکستان کے جلسے میں جمع ہو کر قوم ایک بار پھر آزادی کی تحریک شروع کرے گی۔
جلسے میں سکیورٹی خدشات پر ان کا کہنا تھا کہ خواہ کچھ ہو جلسہ بھی ضرور ہوگا اور وہ جلسے میں شرکت بھی ضرور کریں گے، زندگی اور موت اللہ کے ہاتھ میں ہے۔
انہوں نے پی ٹی آئی حامیوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ لاہور مینار پاکستان جلسہ تاریخی ہوگا، دیر سے آنے والوں کو راستہ ہی نہیں مل پائے گا اس لیے افظار کے وقت ہی پہنچ جائیں۔