واشنگٹن میٹروپولیٹن ایریا میں متعدد ادبی اور سماجی تنظیموں اور اداروں کے روحِ رواں، کفایت اللہ رحمانی جولائی کی 20 تاریخ کو انتقال کرگئے۔
مرحوم یہاں کی ادبی، ثقافتی اور مذہبی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے۔ اُن کی یاد میں وائس آف امریکہ اردو کے ادبی مجلے’ صدا رنگ‘ میں ایک خصوصی تقریبی پروگرام پیش کیا گیا ،جس میں مرحوم رحمانی کے رفقاٴ نے اُنھیں خراج تحسین پیش کیا۔
مرحوم رحمانی کو یاد کرتے ہوئے اُن کے دیرینہ ساتھی، جناب عبید الرحمٰن نے کہا کہ مرحوم رحمانی صاحب پیشے کے اعتبار سے انجنیئر تھے اور اُنھوں نے کئی ملکوں میں کام کیا۔ افریقہ میں خاصا وقت گزارا۔ پھر ہانگ کانگ میں قیام کے دوران کولون کی مسجد کی تعمیر ِنو کی۔ یہ مسجد اب بھی کولون کی ایک تاریخی مسجد سمجھی جاتی ہے۔
جناب کفایت اللہ رحمانی صاحب کے ایک اور ساتھی اور شمالی امریکہ کے معروف شاعر و صحافی، جناب عبدالرحٕمٰن صدیقی نے کہا کہ وہ ایک ایسی یادگار چھوڑ گئے جو رہتی دنیا تک قائم رہے گی۔ وہ جب امریکہ آئے تو یہاں بھی اُنھوں نے مسجد کی تعمیر کا بیڑہ اٹھایا اور مسلم ایسو سی ایشن آف ورجینیا قائم کی۔ انجنیئر ہونے کےباوجود وہ اردو ادب اور زبان سے بے تحاشہ محبت کرتے تھے اور اِسی جذبے کے تحت اُنھوں نے ’حلقہٴ اربابِ ذوق، شمالی امریکہ‘ قائم کیا اور مرتے دم تک اس کے ماہانہ اجلاس پابندی سے منعقد کراتے رہے۔
’حلقہٴ ارباب ذوق، شمالی امریکہ‘ کے قیام کے سلسلے میں اُنھیں واشنگٹن میں مقیم معروف ادیب، جناب ابو الحسن نغمی کا تعاون حاصل رہا۔
اُنھوں نے رحمانی صاحب کے بارے میں کہا کہ مرحوم انتہائی مستقل مزاج شخص تھے۔ اُنھوں نے جس پابندی سے حلقے کے ماہانہ اجلاس منعقد کیے اس کی مثال شمالی امریکہ میں کم ہی ملتی ہے۔
مرحوم کفایت اللہ رحمانی کی اِن کوششوں میں محترمہ عابدہ رپلی بھی ابتدا سے شریک رہیں۔ اُنھوں نے رحمانی صاحب کو یاد کرتے ہوئے کہا کہ رحمانی صاحب انتظامی معاملات میں اس قدر مصروف رہتے تھے کہ اُنھیں خود لکھنے کا موقع کم ملتا تھا۔ مگر اس کے باوجود اُنھوں نے کئی قابلِ قدر تحقیقی مضامین لکھے۔
معروف صحافی اور براڈکاسٹر جناب اکمل علیمی نے رحمانی صاحب کی دینی اور ادبی خدمات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ وہ تنظیم سازی کا ہنر جانتے تھے۔ اور اس کے لیےنئے منصوبے سوچتے اور اُنھیں عملی جامہ پہناتے۔ یہاں تک کہ اُنھوں نے معمر لوگوں کی بھی ایک جماعت بنا ڈالی جس میں افریقی امریکی شہریوں کے علاوہ پاکستان، ہندوستان، افغانستان، مصر، ترکی غرض بیسیوں ملکوں کے لوگ نماز کے ایک الگ کمرے میں جمع ہو کر مختلف امور پر تبادلہٴ خیال کیا کرتے تھے۔
آڈیو رپورٹ سننے کے لیے کلک کیجئیے: