رسائی کے لنکس

ایک اور بھارتی نژاد امریکی شہری کو گولی مار دی گئی


امریکی سکھ کمیونٹی کے افراد وائٹ ہاوس کے سامنے سکھ امریکی کے قتل کے خلاف شمع برادر اجتماع میں شریک ہوئے
امریکی سکھ کمیونٹی کے افراد وائٹ ہاوس کے سامنے سکھ امریکی کے قتل کے خلاف شمع برادر اجتماع میں شریک ہوئے

ایک بھارتی انجینئر 32 سالہ سری نواس کوچی بھوٹلہ کے قتل کے بعد امریکہ میں بھارتی نسل کے ایک امریکی شہری ہرنیش پٹیل کو ہلاک کر دیا گیا۔ پیشے سے بزنس مین 43 سالہ ہرنیش پٹیل نے جمعرات کی شب میں تقریباً ساڑھ گیارہ بجے اپنی دکان بند کی اور اس کے دس منٹ کے بعد لنساسٹر میں ان کے گھر کے سامنے انھیں گولی مار دی گئی۔

جبکہ کوچی بھوٹلہ کو 22 فروری کو کنساس میں گولی ماری گئی تھی۔ ان کے حملہ آور نے جو کہ امریکی بحریہ کا سبکدوش جوان ہے فائرنگ کرنے سے قبل کہا تھا کہ ’’میرے ملک سے نکل جاؤ‘‘۔ اسے گرفتار کرکے جیل بھیج دیا گیا ہے۔

ادھر کاونٹی کے شیرف نے ہرنیش پٹیل کی ہلاکت کے بعد بھارتی قونصل خانے کو بتایا کہ ’’یہ واقعہ ممکن ہے کہ نسل پرستانہ نہ ہو تاہم مقامی انتظامیہ اس کی تحقیقات کر رہی ہے۔ ہم ان کے رابطے میں ہیں‘‘۔

اٹلانٹا میں بھارتی قونصل خانہ متاثرہ خاندان کے رابطے میں ہے۔ ایک اہلکار نے اس سے مل کر اظہار تعزیت کیا اور ہر ممکن مدد کی پیشکش کی ہے۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے دو روز قبل سری نواس کوچی بھوٹلہ کی ہلاکت کو نسل پرستانہ جرم قرار دے کر مذمت کی تھی اور کہا تھا کہ ہمارے ملک میں ایسے واقعات کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔

ایک تیسرے واقعہ میں ایک سکھ اس وقت زخمی ہو گیا جب واشنگٹن میں کینٹ سٹی میں اس کے گھر کے باہر اس پر گولی چلا دی گئی۔ گولی چلانے والا نقاب پوش بندوق بردار کہہ رہا تھا کہ ’’میرے ملک سے نکل جاؤ‘‘۔ یہ حملہ جمعہ کے روز ہوا۔ پولیس اس واقعہ کی جانچ کر رہی ہے۔

وزیر خارجہ سشما سوراج نے ہرنیش پٹیل کی ہلاکت پر رنج کا اظہار کیا ہے۔ انھوں نے ٹویٹر پر اپنے ایک بیان میں کہا کہ ہمارے قونصل خانے کے اہلکار نے پٹیل خاندان سے ملاقات کی ہے۔ انھوں نے متاثرہ خاندان سے اظہار تعزیت کیا۔ سشما سوراج نے بھارتی نژاد سکھ شہری دیپ رائے پر ہونے والے حملے پر بھی رنج و غم کا اظہار کیا۔ انھوں نے اس کے والد سردار ہرپال سنگھ سے بات کی جنھوں نے بتایا کہ دیپ رائے کے بازو پر گولی لگی ہے اور وہ خطرے سے باہر ہے۔

دریں اثنا کنساس کے گورنر سیم براؤن بیک نے ریاست میں بھارتی برادری کا خیرمقدم کیا اور کہا کہ وہ ہمارے لیے بہت قیمتی ہے۔ انھوں نے زور دیکر کہا کہ’’ ایک شخص کی نفرت انگیز اور نسل پرستانہ کارروائی کی بنیاد پر سب کے بارے میں فیصلہ نہیں کیا جا سکتا‘‘۔

  • 16x9 Image

    سہیل انجم

    سہیل انجم نئی دہلی کے ایک سینئر صحافی ہیں۔ وہ 1985 سے میڈیا میں ہیں۔ 2002 سے وائس آف امریکہ سے وابستہ ہیں۔ میڈیا، صحافت اور ادب کے موضوع پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں سے کئی کتابوں کو ایوارڈز ملے ہیں۔ جب کہ ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں بھارت کی کئی ریاستی حکومتوں کے علاوہ متعدد قومی و بین الاقوامی اداروں نے بھی انھیں ایوارڈز دیے ہیں۔ وہ بھارت کے صحافیوں کے سب سے بڑے ادارے پریس کلب آف انڈیا کے رکن ہیں۔  

XS
SM
MD
LG