آجکل ہم بلا سوچے سمجھے انتہائی بے دردی سے نہ صرف پلاسٹک کا استعمال کرتے ہیں بلکہ اسے کوڑے کا حصہ بناتے ہوئے ایک لمحے کو بھی نہیں سوچتے کہ یہ پلاسٹک کس کس انداز میں ہماری صحت پر اثر انداز ہو سکتا ہے۔ متمول ممالک پلاسٹک کا لاکھوں ٹن کچرہ جنوب مشرقی ایشیائی ملکوں کو برآمد کر رہے ہیں جہاں اسے ری سائیکل کرنے یا دوبارہ استعمال کے قابل بنانے کے نظام پر انتہائی بوجھ پڑ رہا ہے۔ اس کے نتیجے میں وسیع پیمانے پر آلودگی کے مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔
ماحولیاتی تنظیم ’گرین پیس‘ کا کہنا ہے کہ اگر چہ متمول ممالک اپنے ترقی یافتہ ’ری سائیکلنگ کولیکشن سسٹم‘ کے بارے میں شیخی بگھارتے ہیں لیکن پلاسٹک اکثر برآمد کر دیا جاتا ہے اور بالآخر اسے جلا دیا جاتا ہے۔ اس سے سمندر سے حاصل شدہ زمین کو بھرا جاتا ہے یا پھر اس سے زمین اور سمندروں کی آلودگی میں اضافہ کر دیا جاتا ہے۔
کوالا لمپور کے مضافات میں پام کے تیل کے لئے کاشت کئے جانے والے پودوں کے درمیان پلاسٹک کے کچرے کے جیسے پہاڑ کھڑے ہیں جن کی ذمہ داری کوئی بھی نہیں لے رہا۔ اس میں زیادہ مقدار یورپ اور شمالی امریکہ کی دولتمند معیشتوں سے آئی ہے۔ ماحولیاتی ماہر پوالے پینگ کا کہنا ہے کہ اس کا نتیجہ مقامی افراد کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔
مقامی ماحولیاتی ماہر پوالے پینگ کہ رہی ہیں کہ انہوں نے دوبارہ استعمال کے قابل نہ بنائے جانے والے پلاسٹک کو یہاں رکھ دیا ہے اور بعد میں وہ اسے کارخانے کے پچھلے صحن میں جلا دیں گے۔ اُن کا کہنا ہے کہ اس سے اٹھنے والے زہریلے دھوئیں سے مقامی لوگوں کے لئے بے پناہ مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔
چین نے گزشتہ برس پلاسٹک کے کچرے کی درآمد پر پابندی لگا دی تھی جس کے نتیجے میں ایک بڑی بین الاقوامی صنعت کے لئے ایک بحرانی صورت پیدا ہو گئی۔ سکائپ کے ذریعے بات کرتے ہوئے ’گرین پیس مشرقی ایشیا‘ کی سینئر تحقیق کار کیٹ لن کا کہنا ہے کہ دولتمند ممالک پلاسٹک کے کچرے سے پیدا ہونے والے مسائل کو سمندر پار منتقل کر رہے ہیں۔
گرین پیس کی کیٹ لن کہتی ہیں کہ ان متمول ملکوں کے پاس کچرے کو اکٹھا کرنے کے لئے بہت اچھے انتظامات ہیں لیکن پھر بھی وہ اپنا آدھا کچرہ دوسرے ملکوں کو بھیجتے ہیں۔ چین کی طرف سے پابندی لاگو کرنے سے پہلے وہ اسے دوبارہ استعمال کے قابل بنانے کے لئے چین بھیجتے رہے ہیں لیکن انہوں نے اس بات کو یقینی بنانے کے لئے مزید اقدامات نہیں کئے۔ اب چین کی طرف سے پابندی عائد ہونے کے بعد وہ اپنے اس کچرے کو دوبارہ قابل استعمال بنانے کے لئے نئی جگہوں اور مقامات کو بھیجنے کی کوشش کریں گے۔
گرین پیس رپورٹ کا کہنا ہے کہ اس کچرے کا نصف سے زائد تقریباً 30 لاکھ ٹن سالانہ جنوب مشرقی ایشیائی ملکوں کو بھیجا جا رہا ہے۔ ان ملکوں میں ملیشیا، ویت نام اور تھائی لینڈ شامل ہیں
گرین پیس کی کیٹ لن بتاتی ہیں کہ ان ملکوں کے پاس اتنی بڑی مقدار میں کچرے کو قابل استعمال بنانے کے مناسب ذرائع موجود نہیں اور یوں اس عمل سے گزرتے ہوئے مقامی ماحول میں آلودگی پیدا ہو جاتی ہے۔
اس پس منظر کے ساتھ جنوبی ایشیا کے متعدد ممالک پلاسٹک کی درآمد پر خود سے پابندی لگا رہے ہیں جس کے نتیجے میں اس کچرے کو انڈونیشیا اور بھارت لے جایا جاتا ہے جہاں منڈیوں پر زیادہ پابندیاں نہیں ہیں ۔
جینیوا میں اقوام متحدہ کی کانفرنس میں ایک سو اسی (180) ملکوں نے ایک تجویز پر تبادلہ خیال کیا کہ پلاسٹک برآمد کرنے والے ملکوں کو ان ملکوں سے پیشگی اجازت لینا چاہئے جن کو وہ یہ کچرا بھیج رہے ہیں۔ اس نظام کو ’پیشگی رضا مندی‘ کے طور پر جانا جاتا ہے۔
پوالے پینگ کا کہنا ہے کہ جو ملک اس آلودگی کے اثرات سے نمٹ رہے ہیں ان کے لئے یہ تبدیلی جلد نہیں ہوئی۔
مقامی رہائشی اور ماحول پسند پوالے پینگ کا کہنا ہے کہ ہم انتہائی بڑی مقدار میں کچرا استعمال کرتے ہوئے خود کو خطرے میں ڈال رہے ہیں۔ ہم پلاسٹک پر بہت انحصار کرتے ہیں۔ براہ کرم آپ اپنے کچرے سے خود نمٹیں۔ اسے ہمارے ملک میں نہ بھیجیں۔
گرین پیس کا کہنا ہے کہ اس کا حتمی حل ری سائیکلنگ یعنی کچرے کو دوبارہ استعمال کے قابل بنانے کے عمل کو بہتر بنانا نہیں بلکہ دنیا بھر میں پلاسٹک کی پیداوار اور استعمال میں انتہائی کمی کرنا ہے۔