پاکستان نے حال ہی میں نئی دہلی میں ’منسٹر ٹریڈ‘ نامزد کیا ہے جس کے بعد پاکستان کی تاجر برادری کے لیے یہ امید پیدا ہوگئی تھی کہ دونوں ممالک کے درمیان معطل تجارتی روابط بحال ہو سکتے ہیں۔ جب کہ پاکستان کی وزارتِ تجارت نے ایک بیان میں وضاحت کی ہے کہ نئی دہلی کے ساتھ تجارت پر پاکستان کی پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔
پاکستان اور بھارت کے تعلقات میں تناؤ اور کشیدگی دونوں ممالک کی تجارت پر بھی اثر انداز ہو رہی ہے۔ بھارت نے اگست 2019 میں نئی دہلی کے زیرِ انتظام کشمیر کی خود مختار آئینی حیثیت ختم کی تھی جس کے بعد پاکستان نے بھارت کے ساتھ نہ صرف سفارتی تعلقات محدود کر دیے بلکہ باہمی تجارتی تعلقات بھی معطل کردیے تھے۔
پاکستان کے نو منتخب وزیرِ اعظم شہباز شریف کی اتحادی حکومت کی طرف سے اگرچہ بھارت کے ساتھ تجارت بحال کرنے کا کوئی اعلان سامنے نہیں آیا لیکن اسلام آباد نے بھارت سمیت کئی ممالک میں ٹریڈ اور سرمایہ کاری کے افسران مقرر کرنے کا اعلان کیا ہے جس کے بعد پاکستان کے بعض سیاسی اور کاروباری حلقوں کو یہ تاثر ملا کہ شاید حکومت بھارت کے ساتھ معطل تجارت دوبارہ بحال کرنا چاہتی ہے۔
حزبِ اختلاف کی جماعت پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) نے حکومت پر زور دیا ہے کہ بھارت کے ساتھ اس وقت تک تعلقات بحال نہ کیے جائیں جب تک کشمیر سے متعلق نئی دہلی کی پالیسی میں تبدیلی رونما نہیں ہوتی۔
پاکستان کی وزارتِ تجارت نے ایک بیان میں بھارت میں ٹریڈ منسٹر کی نامزدگی کو معمول کی کارروائی قرار دیتے ہوئے کہا کہ بھارت سمیت دیگر ممالک کے لیے تجارت سے متعلق 15 افسران مقرر کیے گئے ہیں ۔
ٹریڈ منسٹر کا کیا کردار ہوتا ہے؟
بھارت میں پاکستان کے سابق ہائی کمشنر عبدالباسط کہتے ہیں کہ دنیا کے جس ملک میں بھی پاکستانی ٹریڈ منسٹر ہوتے ہیں ان کا بنیادی کام پاکستان کے اس ملک کے ساتھ تجارتی تعلقات بہتر کرنا اور برآمدات کو فروغ دینا ہوتا ہے۔
عبدالباسط کہتے ہیں کہ جب تک بھارت کے ساتھ تجارت بحال نہیں ہوتی اس وقت تک ٹریڈ منسٹر کا شاید وہاں کوئی کام نہ ہو۔ البتہ بھارت نامزد ٹریڈ منسٹر کو جلد ویزاجاری کر دیتا ہے۔
پاکستان کے سابق وزیرِ اعظم عمران خان کی حکومت نے بھی مارچ 2021 میں بھارت سے چینی اور کپاس درآمد کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ بعد ازاں سیاسی دباؤ کی وجہ سے یہ فیصلہ واپس لے لیا گیا۔
سابق وزیرِ خارجہ شاہ محمود نے حکومت پر زور دیا ہے کہ بھارت کے ساتھ اس وقت تک تجارت بحال نہ کی جائے جب تک بھارت کی کشمیر سے متعلق پالیسی میں کوئی ٹھوس تبدیلی سامنے نہیں آتی۔
تجارت کی بحالی کس کے مفاد میں ہے؟
فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹریز (ایف پی سی سی آئی) کے صدر عرفان اقبال شیخ کہتے ہیں کہ بھارت سمیت خطے کے دیگر ممالک کے ساتھ تجارت کو فروٖ غ دینا پاکستان کے مفاد میں ہے۔
انہوں نے کہا کہ تجارتی معاملات کو سیاسی معاملات کے تابع نہیں ہونا چاہیے اور وہ اس حق میں ہیں کہ بھارت کے ساتھ تجارت بحال ہونی چاہیے۔
دنیا میں کئی ممالک ایسے ہیں جن کے درمیان مخاصمت کے باوجود تجارتی تعلقات موجود ہیں۔ بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ سیاسی معاملات اور تناؤ کے باوجود پاکستان اور بھارت کو بھی اپنی معمول کی تجارت بحال رکھنی چاہیے۔
عرفان شیخ نے اس حوالے سے کہا کہ اگر حکومت بھارت کے ساتھ تجارت بحال کرنے کا فیصلے کرے گی تو پاکستان کی تاجر برادری اس کا خیر مقدم کرے گی۔
اگست 2019 میں پاکستان اور بھارت کی تجارت معطل ہونے کے وقت اس کا حجم لگ بھگ دو ارب 50 کروڑ ڈالر تھا۔ پاکستان کی تاجر برادری کا خیال ہے کہ اگر پاکستان بھارت کے درمیان معمول کی تجارت بحال ہوتی ہے تو دونوں ممالک چند برس کے اندر اپنا تجارتی حجم 10 ارب ڈالر تک بڑھا سکتے ہیں۔